میاں کب تک بھلاو گے وفا کی داستان میری

محمد سیف اللہ رکسول 
موبائل: 9939920785
گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار کہلانے والے اس ملک (ہندوستان) کی طویل تاریخ نے اپنے وسیع دامن میں مسلمانوں کی ایماندارانہ جدو جہد اور قربانیوں کے اتنے اہم اور یادگار واقعات کو پوری ذمہ داری اور انصاف کے ساتھ محفوظ رکھا ہوا ہے کہ ان کو نظر انداز کرکے آگے نکل جانے کی کوشش کرنا تاریخ کے اعتماد کو ٹھیس پہونچا نے کے مترادف ہے،جب آپ تاریخ کے بکھرے واقعات پر غور کریں گے تو بات چاہے 1965 میں پاکستان سے لڑائی کے موقع پر لال بہادر شاستری کو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا چندہ (پانچ سو کلیو سونا) دینے والے حیدر آباد کے نظام میر عثمان علی کی ہو یا جے ہند کا نعرہ لکھنے والے آندھرا پردیس کے مسلمان محی الدین حسن کی بات چاہے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ساتھ جہاز حادثے میں شہید ہونے والے کرنل حبیب الرحمان کی ہو یا گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک سے پہلے ہی نیل کی کھیتی کے نام پر انگریز ی حکومت کے جبر و ناحق ظلم و زیادتی اور ناجائز ٹیکس وصولی کی کے خلاف پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کرنے کے جرم میں 60؍بیگہہ زمین کی قربانی دینے والے گلاب شیخ کی یا پھر اپنے ایمان کی آواز پر بابائے قوم مہاتما گاندھی کی جان بچانے والے بطخ میاں کی یہ سب ہماری اس ملک کے وقار کی حفاظت کے لئے دی گئی قربانیوں کے وہ سنہرے باب ہیں جن پر تعصب وتنگ نظری کے سہارے خاموشی کی ایسی چادر اوڑھا دی گئ ہے کہ آج ہمیں ان سب تاریخی سچائیوں کو جاننے کے لئے تاریخ کے سینکڑوں صفحات الٹنے پڑتے ہیں۔
  حالیہ واقعات پر دھیان دیں اور سرحد پر ہند چین کے درمیان جاری جھڑپوں کی بات کریں تو یہ جھڑپیں جن بنیادوں کو لے کر ہیں اس کی کڑیاں بھی اس ملک کی آبرو پر قربان ہونے والے مسلمانوں سے ہی جڑتی ہیں کیونکہ جس گلوان گھاٹی کو لے کر پچھلے تقریباً ایک مہینے سے ہند وچین کی فوجیں آمنے سامنے ہیں اور جس کی حفاظت کرتے ہوئے ہمارے 20 جوانوں نے شہادت دی ہیں اس کی کھوج بھی غلام رسول گلوان نامی مسلمان نے ہی کی تھی،یہ اور بات ہے کہ دیگر مسلمانوں کی قربانیوں کی طرح ان کی اس قربانی پر بھی کالی چادر تان دی گئی لیکن تاریخ چونکہ ان کی اس قربانی کو فراموش کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے آج ایک بار غلام رسول گلوان کا نام پورے کردار کے ساتھ سرخیوں میں ہے ۔
 گالوان اگرچہ موجودہ وقت میں ہند چین تنازع کا باعث بنا ہوا لیکن تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے اور دریا کا نام لداخ کے ایک سخت جان قلی غلام رسول گالوان کے نام پر ہے۔یہ دریا قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور چین سے ہوتے ہوئے لداخ میں شیوک دریا میں شامل ہو کر ’شیر دریا‘ یعنی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے گالوان تقریبا 80 کلومیٹر طویل ہے اور اس خطے میں اس کی عسکری اہمیت بہت زیادہ ہے،2001 میں شائع ہونے والی کتاب ’سروینٹس اور صاحبس‘ میں انگریزوں کے ایک خاص ملازم غلام رسول گالوان کا ذکر ہے جن کے نام پر لداخ کے شمال مشرقی علاقے کا نام پڑا۔کتاب کے مطابق غلام رسول گالوان سنہ 1878 میں پیدا ہوئے اور انھوں نے مختلف یورپی سیاحوں یعنی ’صاحبان‘ کے ساتھ اس دور دراز مشکل اور سنگلاخ علاقے کا سفر کیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ سفر اس لیے بھی انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ ایسا علاقہ تھا جہاں نہ آدم نہ آدم زاد بس، پہاڑ، پتھر، دریا اور ایسے جنگل تھے جن میں درندوں اور جان لیوا جانوروں کی حکمرانی تھی، سطح سمندر سے اس علاقے کی بلندی پانچ ہزار سے سات ہزار فٹ تک ہے جہاں گرمیوں میں بھی بعض مقامات پر درجۂ حرارت منفی میں ریکارڈ کیا جاتا رہا ہے۔جاڑوں میں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ اگر ٹھنڈی ہوا اور منجمد کرنے والے ماحول سے حفاظت کے لیے مناسب کپڑے نہ پہنے جائيں تو کھلی فضا میں دس منٹ گزارنے پر کوئی بھی شخص ہلاک کر دینے والی بیماری کا شکار ہوکر اپنی جان گنواسکتا ہے۔
  انڈین ڈیفنس ریسرچ ونگ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق”لداخ کے رہنے والے غلام رسول گلوان نے گلوان ندی کا پتہ لگایا تھا۔ وہ 1892 میں برطانوی مہم جو ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ ڈن مور کے ساتویں ارل،  ڈن مور مرے کے ساتھ مشن پر تھے کہ یہ ٹیم ایک گھاٹی میں پھنس گئی اور اسے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔  ایسے میں 14 سالہ غلام رسول گلوان اکیلے ہی آگے بڑھتے گئے اور ایک راستہ تلاش کرلیا جو نسبتا ً بہت آسان تھا۔ راستہ تلاش کرنے کے لیے انعام کے طورپر ڈن مور مرے نے ندی کا نام گلوان کے نام پر رکھ دیا۔“
  مورخین کے مطابق غلام رسوم گلوان نے 1895میں سر ینگ ہسبینڈ کی قیادت والی برطانوی مہم جو ٹیم میں بھی حصہ لیا جس نے لیہہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا،ینگ ہسبینڈ نے اپنی خود نوشت ’سروینٹ آف صاحب: اے بک ٹو بی ریڈ الاوڈ‘ میں لکھا ہے کہ غلام رسول گلوان کو خطرناک مہموں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ وہ صرف 12 برس کی عمر سے ہی اس طرح کی مہم میں شامل ہونے لگے تھے۔ چونکہ ان کے گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے چودہ برس کی عمر میں کام کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ دیا۔ انہوں نے ایک قلی اور خچر والے طور پر کام شروع کیا اور تقریباً 35 برس تک برطانوی، اطالوی اور امریکی مہم جو ٹیموں کی مدد کرتے رہے۔ 1917میں انہیں لیہہ میں برطانوی جوائنٹ کمشنر کا چیف اسسٹنٹ بنایا گیا۔
انڈین ڈیفنس ریسرچ ونگ کی طرف سے دی گئی تفصیلات کے مطابق غلام رسول گلوان بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انہیں نئی نئی چیزوں کو سیکھنے کا بہت شوق تھا۔  وہ لداخی کے علاوہ چینی، انگلش، ترکی‘ اردو، کشمیری اور تبتی زبان بھی اچھی طرح بول سکتے تھے۔ غلام رسول گلوان کا تعلق گلوان قبیلے سے تھا۔ کشمیری میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو گلوان کہتے ہیں۔ شاید یہ گلہ بان کی بگڑی شکل ہے۔
یہ بات مشہور ہے کہ غلام رسول کے دادا کرّا گلوان اپنے زمانے کے ’رابن ہڈ‘ تھے۔ اور ڈوگرا راجہ کے فوجیوں نے انہیں گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔ گلوان قبیلہ اس کے بعد لیہہ اور بلتستان منتقل ہوگیا۔ بہت سے گلوانی سنکیانگ کے یارکند علاقے میں بس گئے۔  1925میں 47 برس کی عمرمیں غلام رسول گلوان کی موت ہوگئی۔
غلام رسول گالوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تبت، سنکیانگ، قراقرم، پامیر اور دوسرے وسط ایشائی علاقوں میں خوب سفر کیا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے مشہور کوہ پیما کے گائیڈ کا کام کیا،تاریخی وضاحتوں اور سیاحوں کے تبصرے سے حاصل کی گئی تفصیلات کے مطابق برطانوی ماہر ارضیات میجر ایچ ایچ گوڈون آسٹن کے ساتھ بھی انھوں نے سفر کیا۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے پاکستان کی بلند ترین اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی پیمائش کی تھی۔ اس کی بلندی آٹھ ہزار 611 میٹر ہے لیکن بعض کوہ پیماؤں کے مطابق اس پر چڑھنا دنیا کی بلند ترین چوٹی ایوریسٹ سر کرنے سے مشکل ہے۔
غلام رسول کے پوتے محمد امین گلوان کہتے ہیں کہ ان کے دادا پہلے شخص تھے جو گلوان وادی میں ٹریکنگ کرتے ہوئے اکسائی چن کے علاقے میں پہنچے تھے۔ انہوں نے 1892-93 میں انگریزوں کے ساتھ اس وادی میں ٹریکنگ کی تھی۔ محمد امین کہتے ہیں ”اکسائی چن جانے کے دوران راستے میں موسم خراب ہوگیا اور برطانوی ٹیم کو بچانا مشکل ہوگیا۔ موت ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ لیکن ایسے حالات کے باوجود غلام رسول نے ٹیم کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ ان کے اس کام سے برطانوی کافی خوش ہوئے اور انہوں نے ان سے انعام مانگنے کے لیے کہا۔ اس پر غلام رسول نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے صرف اس نالے/ ندی کا نام میرے نام پر رکھ دیا جائے۔“
   گزشتہ چند برسوں میں چین نے اس علاقے میں بہت سی تعمیرات کی ہیں اور شاہراہ ریشم یعنی سلک روڈ کے ساتھ اس راستے کو بھی فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے بھی نقل حمل کے لیے گالوانے کے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر کی ہیں۔
دونوں ملکوں کی جانب سے علاقے میں تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اب علاقے میں حد بندی کی تنازع پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے وادی گالوان شہ سرخیوں میں ہے،جہاں چین اس گھاٹی پر اپنا دعوی کرنے اور اس کو اپنے قبضے میں لینے پر بضد ہے وہیں ہندوستان کا دعوی یہ ہے کہ اس گھاٹی کی کھوج غلام رسول گالوان نے کی تھی اور وہ ہندوستانی تھا اس لئے یہ گھاٹی ہمارے حدود کا حصہ ہے جس پر چین کو کسی بھی طرح کی در اندازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
 اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ جب سے اس گلوان کی کھوج ہوئی ہے اس کے پہلے دن سے ہی یہ خطہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے،یہی وجہ کہ غلام رسول گلوان کے پوتے محمد امین گلوان نے بھی حالیہ ہند چین تنازع کو غیر ضروری قرار دے کر صاف کہا کہ چین اس معاملے میں سراسر غلطی ہے ان کا کہنا ہے کہ”وادی گلوان ہمیشہ سے بھارتی علاقے کا حصہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ چین کے پاس اپنے دعوے کے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے پاس ثبوت ہے۔ میرے دادا وہاں صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ گئے تھے۔“  انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ برطانوی دور حکومت میں تیار کردہ سرکاری گزٹ کو دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وادی گلوان بھارت کا حصہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ لداخ کے مقامی ریونیو ریکارڈ میں بھی گلوان وادی کو ہمیشہ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے،اس لئے ہندوستان کا ہی اس پر حق ہے اور چین کو اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنا چاہئے ۔