کورونا کال میں سیاسی بھونچال

 از: محمد زاہد رضا، دھنباد
متعلم، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
(رکن مجلس علماے جھارکھنڈ)
اس وقت کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھا ہے، اس مہلک وائرس نے لوگوں کی زندگی کو مفلوج، اسکول، کالجزس، یونیور سٹیز اور مدارس کو مقفل کر دیا ہے، بڑی بڑی کمپنیاں اور کارخانے بند ہو چکے ہیں، مزدور فاقہ کشی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لوگ روز روز بروز اس بیماری کی وجہ سے مر رہے ہیں، بیماری میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے،اور ابھی تک اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے کوئی دوا عمل میں نہیں آسکی جس سے لوگوں کو بجایا جاسکے، لیکن ایسے نازک اور مشکل وقت میں بھی بی، جے، پی، اپنی دوغلی سیاست سے باز نہیں آرہی ہے، بجاے کورونا سے نجات پانے کے ایم، ایل،ایز کے خرید و فروخت اور حکومت کا تختہ پلٹنے میں مصروف ہے جو کہ انتہائی شرمناک ہے-
   سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ تقریباً انیس صوبوں میں بی، جے، پی، کی سرکار ہے، جن میں کئی ایسے صوبے ہیں جہاں بی، جے، پی بڑی پارٹی نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کی حکومت بنی ہوئی ہے، یکے بعد دیگرے  ان تمام ریاستوں کا ذکر درجہ ذیل ہیں۔
  (1) ان میں پہلا گوا ہے،گوا میں جب الیکشن ہوا تھا تو یہاں کسی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی، یہاں کل چالیس سیٹیں تھیں جس میں سے کانگریس نے سب سے زیادہ سترہ سیٹیں حاصل کیں اور بی جے پی نے تیرہ، لیکن اس کے باوجود بی، جے، پی سرکار بنانے میں کامیاب رہی-
(2) منی پور میں بھی یہی گیم کھیلا گیا یہاں پر بھی کانگریس نے بی جے، پی سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں تھیں، کانگریس نے یہاں ساٹھ سیٹوں میں سے اٹھائس سیٹیں حاصل کیں اور بی، جے، پی نے اکیس، لیکن اس کے باوجود بھاجپا دوسری پارٹیوں کی مدد سے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی-
(3) میگھالیہ میں 2018ء کو جب الیکشن ہوا تو یہاں پر بھی بی، جے، پی کم سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
(4) بہار میں جب الیکشن ہوا تھا تو بی، جے، پی تیسرے نمبر پر تھی، یہاں پر بی، جے، پی نے ایل، جے،پی(L, J, P)کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا، تو وہیں دوسری طرف  جے، ڈی،یو(J,D,U)اور آر، جے، ڈی(R,J,D)نے مل کر الیکشن لڑا تھا، اس الیکشن میں آر، جے، ڈی سب سے بڑی بارٹی بن کر سامنے آئی تھی،اور آر،جے ڈی نے جے، ڈی، یو کے ساتھ مل کرگٹھ بندھن کی سرکار بنائی تھی ،لیکن یہ حکومت بیس مہینے سے زیادہ نہیں چل سکی، اور پھر دل بدلو نتیش کمار نے بی، جے، پی کے ساتھ مل کرحکومت قائم کر لی۔
  خیر  یہ تو ان ریاستوں کی بات ہے جہاں بی، جے، پی نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، میں اس پر زیادہ تبصرہ اور تنقید نہیں کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ لیڈران کو جہاں زیادہ فائدہ ملتی ہے تو وہ اسی سے مل جاتے ہیں-
   لیکن جن ریاستوں میں کانگریس کی منتخب حکومت ہے ان ریاستوں میں غیر قانونی طور پر حکومت گرا کر اپنی حکومت بنا لینا،عوام کی چنی ہوئی سرکار کو گرا دینا یہ جمہوریت کے خلاف اور ایک طرح سے جمہوریت کا قتل ہے-
  قارئین کو یاد ہوگا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے بی، جے،  پی، نے مدھیہ پردیش میں ایم، ایل،ایز کے خرید و فروخت کر کے حکومت گرادی اور اپنی حکومت بنا کر ملک میں لاک ڈاؤن کرنے میں تاخیر کر دی جس کی وجہ سے بیماری تیزی سے پھیل گئی اگر وقت پر لاک ڈاؤن ہوجاتا تو آج ہم کورونا سے محفوظ رہتے-
  حکومت گرانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی بی جے، پی نے اپنی مالی و سیاسی طاقت اور سرکاری عملہ کا غلط استعمال کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے جن میں منی پور،کرناٹکا وغیرہ شامل ہے، اور اب یہی کھیل بی، جے، پی راجستھان میں کھیل رہی ہے- اس کورونا کال میں  راجستھان میں جو سیاسی گھماسان مچا ہوا ہے وہ کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے، یہاں پر بھی بی، جے، پی کانگریسی  لیڈران کو خطیر رقوم دے کر خریدنا چاہتی تھی اور پارٹی میں انتشار پیدا کرکے اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی،  لیکن یہ اپنے منصوبہ میں ناکام ہو گئی، کیوں کہ جس پائلٹ کو خریدنا چاہتی تھی اس پائلٹ کو اشوک گہلوت نے ایک چھوٹی سی پلیٹ میں سمیٹ کر رکھ دیا، اشوک گہلوت جی کو معلوم تھا کہ بی، جے، پی اپنی گندی اور دوغلی سیاست سے باز نہیں آئے گی اور حکومت گرا کر اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی، اس لیے اس نے اپنے لیڈران پر نگرانی شروع کر دی اور یہ بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے،اگر یہ نگرانی اور اپنے لیڈران کی دیکھ بھال نہیں کرتے تو ابھی تک گہلوت سرکار وسندھرا سرکار میں تبدیل ہوجاتی-
   ہفتہ کے روز گہلوت جی نے جو آڈیو ٹیپ منظر عام پر لایا اس سے بی، جے، پی کی نیندیں اڑ گئیں ، ان کے خیمے میں ایک زلزلہ برپا ہوگیا ہے، وہ اس لیے کہ جو آڈیو ٹیپ سامنے آیا ہے اس میں صاف مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت کی آواز آرہی ہے جو سچن پائلٹ کے لیڈران سے بات چیت کر رہے ہیں، لیکن بی، جے، پی اسے فرضی بتا رہی ہے، اگر یہ فرضی ہے تو پھر کیوں بی، جے، پی لیڈر اپنی آواز جانچ کے کیے دینے سے خوف زدہ ہے؟ کیوں اپنی آواز کا نمونہ نہیں دینا چاہتے؟اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر بی، جے، پی اس معاملہ میں ملوث نہیں ہے، اس میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے تو پھر کیوں اپنی ریاست میں کانگریسی باغی لیڈران کو چھپا کر رکھی ہوئی ہے؟ اور جب ایس، او، جی (اسپیشل آپریشن گروپ)کی ٹیم تفتیش کے لیے مانیسر ہوٹل پہنچی تو انھیں ہوٹل کے اندر فوراً کیوں جانے نہیں دیا گیا؟ کیوں ہریانی پولیس نے انھیں ایک گھنٹے تک باہر روکے رکھی؟ اور باغی لیڈران کو خفیہ راستہ سے مکمل حفاظت کے ساتھ محفوظ جگہ لے گئی جس کی وجہ سے ایس، او، جی کی ٹیم کو باغی لیڈران نہیں ملے اور پھر یہ ناکام واپس لوٹے۔  حکومت گرانے کے تعلق سے خود وسندھرا راجے کے قریبی لیڈر کیلاش میگھوال نے اپنی حکومت کے خلاف لب کشائی کی اور کہا کہ "خرید و فروخت کر کے منتخب حکومت کو گرانا اور اپنی حکومت بنانا غلط اور جمہوریت کے خلاف ہے" اگر یہی سلسلہ چلتا رہا اور بھاجپا اپنی سیاسی اور مالی طاقت کے زور پر منتخب حکومت گراتی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ پورے ملک میں تاناشاہی حکومت قائم ہوجائے گی، اور آر، ایس، ایس کا جو ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ ہے وہ اس میں کامیاب ہوجائے گا اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا-
  اس لیے اب ایک نیا قانون بننا چاہیے کہ عوام جن لیڈروں کو اپنی قیمتی ووٹوں سے ایم،پی اور ایم، ایل،اے،بناتی ہے اور پھر یہ لوگ چند روپیوں اور دوشیزاؤں کے زلفوں کے اسیر ہو کر اپنی پارٹی بدل دیتے ہیں، تو ایسے لیڈروں پر سخت کارروائی کی جائے اور انھیں  الیکش لڑنے سے روکا جائے-
   اخیر میں حکومت ہند سے اپیل کروں گا کہ لیڈروں کی خرید و فروخت کر کے منتخب حکومت کو گرانے کے بجاے کورونا وائرس کو ختم جے، ڈی، پی کو درست کرنے ،کرائم کو روکنے،پٹرول و ڈیزل کہ قیمتوں میں تخفیف کرنے اور مہنگائی کو ختم کرنے پر دھیان دیں، اور پی،ایم کئیرس کے روپیوں کا صحیح استعمال کر کے لوگوں کو خوش حالی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں-