اطاعت

مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
اسکول میں چھٹی کا اعلان ہو چکا تھا طلبہ اپنے گھر کی تیاری کرچکے تھے کلاس میں آخری درس ہونا تھا، تمام طلبہ اپنی اپنی میز پر بیٹھ کر چھٹی کی خوشی میں  ایک دوسرے سے گپ شپ میں لگے ہوئے تھے کہ اتنے میں استاد صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے۔
سبھوں نے خیر مقدم کیا، چھٹی چونکہ بقرعید کی ہورہی تھی اس لئے استاد صاحب نے سوچا کہ آج اسی مناسبت پر گفتگو کی جائے۔ استاد صاحب نے بات یہاں سے شروع کی، ۔۔۔ عزیز طلبہ ۔۔ آج آپ کے سامنے آپ کے اس تیوہار کے سلسلہ میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے سامنے ہے اور جس کی وجہ سے چھٹی ہو رہی ہے۔ 
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمان اس تیوہار کو کیوں مناتے ہیں؟ طلبہ میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
استاد صاحب نے پھر بتانا شروع کیا،۔۔ در اصل یہ تیوہار دو عظیم الشان پیغمبروں کی یاد میں منایا جاتا ہے ، ان میں سے ایک حضرت ابراہیم اور دوسرے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام ہیں،  حضرت ابراہیم اپنی عمر کے آخری دہلیز پر پہنچ چکے تھے لیکن ابھی تک ان کی کوئی اولاد نہیں تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت فکر مند تھے کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے میرے بڑھاپے کا کوئی سہارا نہیں ہے اس عمر میں میرے کام میں کون ہاتھ بٹائے گا اہلیہ بھی ضعیفہ ہو چکی تھی اور انہیں بھی ایک سہارے کی ضرورت تھی، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھاکر اپنے رب سے شکایت کی اور اپنا ایک سہارا مانگا، ان کی دعا قبول ہوئی اور ایک فرمانبردار بیٹے کی بشارت سنائی ،  جب بیٹے کی پیدائش ہوگئی تو ابراہیم علیہ السلام کا گھر خوشیوں سے بھر گیا لیکن خوشی کے ساتھ ساتھ ابراہیم علیہ السلام کا جان گسل امتحان بھی شروع ہوا، یہ اللہ کا دستور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اس کے محبوب چیز پر آزماتا ہے اور چونکہ ابراہیم علیہ السلام نبی تھے امت کی تعلیم کیلئے ان کا امتحان تو ضروری تھا، چنانچہ حکم ہوا کہ ۔۔ ابراہیم۔‌ اپنی بیوی اور اپنے معصوم بچہ کو کسی ایسی جگہ چھوڑ آؤ جہاں ہر طرف خشک سالی ہو ہریالی نام کی کوئی چیز نہ ہو ، پانی اور غذا کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہو، ابراہیم علیہ السلام کیلئے یہ امتحان بڑا سخت تھا لیکن وہ نبی تھے اور خدا کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے تھے، چنانچہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی بیوی اور معصوم سے بچہ کو وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑ آئے۔
ان کے پاس کھانے پینے کی تھوڑی سی چیز تھی وقت گزرنے کے ساتھ وہ ختم ہو گیا، وہ جگہ ایسی نہیں تھی کہ وہاں سے کوئی قافلہ گزرتا جس سے کچھ مدد کی امید ہوتی، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ معصوم سے بچہ کو یعنی حضرت اسماعیل کو سخت پیاس لگی مارے پیاس کے وہ سسک رہے تھے ماں بہت پریشان تھی کہ اگر پانی کا انتظام نہ ہوا تو کچھ بعید نہیں کہ میرا یہ جگر کا ٹکڑا دم توڑ دیگا، چنانچہ ماں پانی کی تلاش میں نکل گئی کچھ دور جاتی تو بچہ کا خیال آتا فوراً لوٹ جاتی جب بچہ کو سسکتا ہوا دیکھتی پھر پانی کی تلاش میں نکل جاتی سامنے ایک پہاڑ پر چڑھ جاتی اور وہاں سے دیکھتی کہ شاید پانی نظر آجائے جس سے اپنے بیٹے کی پیاس بجھا سکوں، ماں کبھی بیٹے کی پاس جاتی کبھی پانی کی تلاش میں نکل جاتی یوں سات مرتبہ اس نے آنا جانا کیا، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب ماں پانی کی تلاش میں ناکام واپس آئ تو کیا دیکھتی ہے کہ جس جگہ پیاس کی شدت میں ان کا معصوم بچہ ایڑی رگڑ رھا تھا وہاں سے ایک چشمہ بانی کا پھوٹ پڑا ہے ماں نے بیٹے کو پانی پلایا اور اس چشمہ کو گھیر دیا بعد میں جاکر وہ چشمہ آب زم زم میں تبدیل ہوگیا جس سے آج پوری دنیا سیراب ہو رہی ہے، ماں نے پہاڑ کے ارد گرد جو چکر لگایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس ماں کی ادا کو ہمیشہ کیلئے زندہ کردیا جس کو آج صفا و مروہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر حاجی بین الصفا و المروہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کا ایک سخت امتحان تھا جسمیں وہ کامیاب ہوئے۔
اب جبکہ لڑکا بڑا ہو چکا تھا اور بڑھاپے کا سہارا بننے والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور آزمائش میں ڈال دیا جو پہلے سے بھی سخت آزمائش تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ اپنے لخت جگر کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں تین دن تک مسلسل ان کو بذریعہ خواب یہ حکم دیا گیا ، ابراہیم نبی تھے اور خدا کے حکم کے آگے جھکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا، چنانچہ ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کے سامنے خواب بیان کیا کہ بیٹا مجھے حکم ہورہا ہے کہ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے اللہ کی راہ میں ذبح کر رہا ہوں، فرمانبردار بیٹا سمجھ گیا کہ یہ والد صاحب نبی ہیں اور نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ بیٹے نے کہا۔۔ ابو جان۔۔ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے، اب کیا تھا ابراہیم کا جگر پھٹا جارہا تھا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا، جگر چھلنی ہورہا تھا ادھر ماں پر بھی غشی طاری تھی بڑی آرزؤں کے بعد ایک بیٹا نصیب ہوا وہ بھی اب ختم ہوا چاہتا ہے، لیکن حکم خدا ٹالا نہیں جاسکتا تھا۔
بغل میں چھری دبائے اپنے بیٹے کو لیکر میدان کا راہی ہوئے، منی کا وہ میدان یہ منظر کبھی نہیں بھولے گا۔
چنانچہ میدان پہنچ کر ابراہیم اپنے لخت جگر نور نظر کو لٹا دیتے ہیں ، آسمان بھی خاموش ہے، زمیں بھی کانپ رہی ہے، چرند پرند بھی حیران ہیں کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے ایک باپ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اس کو قربان کررہا ہے، ۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلاتے ہیں مگر چھری کو حکم ہوتا ہے کہ۔۔ اے چھری اسماعیل کا ایک بال بھی نہیں کٹنا چاہیے۔۔ ادھر ابراہیم علیہ السلام پریشان کہ چھری کاٹ کیوں نہیں رہی ہے ‌ اسے کیا ہو گیا۔ میں خدا کا حکم کیسے پورا کروں گا؟ بالاآخر خدا نے ان پر کرم فرمایا اور فوراً جبرئیل علیہ السلام کے ہاتھوں ایک دنبہ بھیجا اور حکم ہوا کہ اسماعیل کی جگہ اس دنبہ کو قربان کرو۔۔  یوں اللہ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔
ادھر اللہ تعالیٰ کو باپ اور بیٹے کی یہ اطاعت بے انتہا پسند آئی اور رہتی دنیا تک کیلئے اس کے اس ادا کو سنت قرار دیکر صاحب حیثیت کو قربانی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
استاد صاحب اس واقعہ کو بیان کررہے تھے اور طلبہ بڑی خاموشی سے سن رہے تھے کئی آنکھیں نم بھی ہوگئیں اور دل میں اطاعت کا جذبہ اتم درجہ میں پیدا ہوگیا۔