وفاداری کہانی

رئیس  صِدّیقی
 یہ اس وقت کی بات ہے جب میں لکھنئو میں رہتا تھا اور اس وقت میری عمر نو دس سال کی ہوگی۔ 
 میں  بسکٹ خریدنے امین آباد جارہا تھا کہ راستہ میں ایک کُتّے کا پلّا’پیں ، پیں‘ کرتا ہوا نظر آیا۔
 وہ اَپنی پچھلی ٹانگوں کو گھسیٹتا ہوا  اگلے پیروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔
 اسکی تکلیف دیکھ کر مجھے اس پر بہت رحم آیا۔ مجھے اپنے رسول حضرت محمد صلعم کی ہدایت بھی  یاد آگئی کہ جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو۔ انکا خیال رکھو۔  
میں فوراً یہ دیکھنے کے لیے پلّے کے پاس پہنچا کہ وہ کیوں  درد سے کراہتے ہوئے پیں پیں کررہا ہے۔اسکو کیسی اور کہاں چوٹ لگی ہے ؟۔
 اس کی پچھلی ٹانگیں کسی اسکوٹر یا کارسے بُری طرح زخمی ہوچکی تھیں۔
  آنکھ ہوتے ہوئے بھی اندھے اسکوٹر اور کار والوں کو میں دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا۔
   پھر اس کو اپنے گھر لے آیا۔ اس کی زخمی ٹانگوں کی مرہم پٹّی کی۔ جب وہ تندرست ہوگیا تو میں نے اس کا نام ’’راجا‘‘ رکھا۔
  راجا  ہم لوگوں سے خوب گھُل مل گیا تھا اور گھر کا ہر طرح سے خیال رکھنے لگا تھا۔
 گھر کو چوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ گھر کے دروازے پر رات بھر پہرا دیتا رہتا تھا۔
ایک رات کا واقعہ ہے کہ اس دن سردی بڑے غضب کی تھی۔ گھر کے سب ہی لوگ لحاف اوڑھ کر سوچکے تھے۔قریب تین بجے صبح سامنے والی گلی سے کئی چور ہمارے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
  پہلے تو راجا کچھ نہ بولا۔ لیکن جب اس نے محسوس کیاکہ یہ لوگ اجنبی ہیں اور ہمارے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو اس نے زور زور سے بھونکنا شروع کردیا۔
 جب چور ہمارے دروازے کے بالکل ہی نزدیک آگئے تو وہ اُن پر ٹوٹ پڑا۔
 چور اس اچانک حملے سے سٹپٹاگئے اور سامنے والی لمبی اور اندھیری گلی سے نکل کر بھاگ گئے۔ 
راجا کی جانی پہچانی ’’بھوں بھوں‘‘ جو کہ اب ’’پیں پیں‘‘ میں بدل چکی تھی، سُن کر گھر کے سب ہی لوگ جاگ اٹھے ۔
 میں نے ٹارچ روشن کی اور باہر آکر دیکھنے لگا۔
 راجا خون میں لت پت پڑا ہوا تھا۔
 چوروں میں سے کسی نے راجا سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے اس کو چاقو مار کر زخمی کردیا تھا۔ 
راجا  درد  اورحسرت بھری نظروں سے سبکو  تکنے لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہا ہو۔
غم نہ کیجیے ۔یہ تو میرا فرض تھا جو میں نے نبھایا۔ میں نے آپ کے لئے کیا ہی کیا ہے؟ 
آپ نے تو مجھے نئی زندگی دی تھی!
تھوڑی دیر تک وہ مجھے پیاربھری نگاہوںسے دیکھتا رہا اور پھر اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ 
  میں مارے غم کے نڈھال ہو گیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوے میرے منھ سے نکلا۔
اُف خدا … ایک وہ میرا دوست راجا ہے جس نے اپنے معمولی سے فائدہ کے لئے مجھے  دھوکا دیا۔
 اورایک یہ راجا ہے  جس نے  ہمارے گھر کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی !
  یہ بے زبان جانور، ہم سب کا پیارا راجا کتنا وفادار تھا!!                           
  آج بھی ہم سب، راجا کی وفاداری کو بڑی محبت سے یادکرتے ہوئے  اسے خراجِ تحسین پیش کرتے رہتے
(کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ یافتہ ادیبِ اطفال، بچوں کی پندرہ کتابوں کے مصنف ، واٹس
 ایپ گروپ  بچوں کا کیفے کے بانی ایڈمن ، ڈی ڈی اردوو آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر ہیں)