کہانی: لَا يَسْخَرْ

ڈاکٹر سیما شفیع، پاکستان
سب گھر کے بڑے صحن میں مختلف ٹولیوں میں بیٹھے تھے ایک طرف عورتوں کی مجلس جو امی جی کے تخت کے گرد کرسیاں ڈالے بیٹھی تھیں۔ سامنے ہی ایک میز اردگرد سارے بچے بیٹھے تھے۔ جبکہ مرد حضرات کچھ فاصلے پر چارپایوں پر بیٹھے سردیوں کی دھوپ بھی سینک رہے تھے، اور سبز چائے کے ساتھ خشک میوے کا مزہ لیتے ہوئے کچھ ضروری مسائل پر اظہار رائے بھی جاری تھا۔ خواتین کا موضوع گفتگو تو ظاہر ہے کپڑے جوتے جیولری یا کھانے پکانے کی تراکیب ہی ہوں گی۔ امی جی خاموشی سے اپنے دوپٹے پر کروشیہ کرتے ہوئے پیار بھری نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کے کان سب کی طرف لگے ہوئے تھے، اچانک ان کے کان سے ثوبیہ کی آواز ٹکرائی؛
"سارہ دیکھو! کتنی سریلی آواز ہے اور کیا ٹیلنٹ ہے اس لڑکی میں کتنی مشکل طرز کو کس احسن طریقے سے نبھا رہی ہے، حالانکہ شکل دیکھو اس کی میری طرح حسن تو چھو کر بھی نہیں گزرا اسے!" پندرہ سالہ ثوبیہ کا نہایت حسرت کے ساتھ "میری طرح" کہنے پر تمام کزنز آگے بڑھ بڑھ کر اسکے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سکرین کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ ہر ایک نے اس پر اپنی اپنی رائے دینا فرض عین سمجھا ۔۔۔
"ارے واقعی! کتنی کالی رنگت ہے اسکی"، فجر بولی، "دانت تو دیکھو" ارباز نے ہنستے ہوئے گلوکارہ کے بڑے دانتوں کا تمسخر اڑایا، " قد بھی ڈیڑھ گٹھ سے زیادہ نہ ہو گا" شارق نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،"اور ناک تو بالکل پکوڑے جیسی ہے" ریحان کے تبصرے پر قدرے موٹی ناک رکھنے والی نئیر اور ثوبیہ اپنا دل مسوس کر رہ گئیں۔ ھادی نے اپنی کالی رنگت اور حمزہ نے اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے کوئی تبصرہ نہ کیا۔
امی جی پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھیں آخر ان سے رہا نہیں گیا۔
" کس قدر آسانی سے ہم اللہ کی تخلیق کا مذاق اڑا لیتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کہ ہم کس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کس ذات کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ اس احسن الخالقین کا ۔۔۔۔ یعنی ۔۔۔۔۔؟" امی جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے گلا رندھ گیا اور آواز لرزنے لگی۔ تمام مرد و خواتین بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے امی جی نے سورہ التین کی تلاوت شروع کر دی
" قسم ہے انجیر کی
قسم ہے زیتون کی
قسم ہے طور سینا کی
اور قسم ہے امن والے شہر یعنی مکہ کی
بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا"
امی جی نے ایک لمبی سانس لے کر اپنے جذبات کو قابو کیا اور بات جاری رکھتے ہوئے بولیں "ایک مومن پر جس طرح دوسروں کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی سختی سے منع ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک آسان ترین طریقہ کسی کو تمسخر کا نشانہ بنانا ہے۔مذاق اڑانے کا عمل دراصل دوسروں کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔
اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑے، انتقامی سوچ،بدگمانیاں، حسد اور سازشیں نہ صرف دنیاوی زندگی کو جہنم بناتے ہیں ۔ بلکہ انسان اللہ کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا ہے اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔"
"مگر امی جی اس لڑکی نے تو ہماری کوئی بات نہیں سنی پھر اسکا دل کیسے دکھے گا۔" فجر جو خاصی پشیمان تھی مگر آخر کار اپنی حرکت کے لئے تاویل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی،
"پھر تو دہرا گناہ ہوا، تمسخر کا بھی اور غیبت کا بھی" امی جی نے اسے پیار سے دیکھا اور فجر کا سر ندامت سے جھک گیا۔
فجر اپنی ماں کی طرح نہایت گوری رنگت اور سنہرے بالوں کی وجہ سے انگریز دکھتی تھی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی پشیمانی کو محسوس کرتے ہوئے امی جی کے سب سے چھوٹے بیٹے سفیر بولے "مگر امی جی وہ حدیث بھی تو ہے نہ کہ "ان اللہ یحب الجمال" پھر اسکا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے اپنی بیوی کے خوبصورت چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"بعض لوگ اس حدیث سے خوبصورت عورتوں کی طرف دیکھنے اورخوبصورت چیز سے نفع حاصل کرنے پر استدلال کرتے ہیں!"
یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ، توایک شخص کہنے لگا آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اورجوتے اچھے ہوں ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتا ہے ، تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے اور لوگوں کوحقیر اوراپنے آپ کواونچا سمجھا جائے) اسی کتاب یعنی مسلم شریف میں ایک اور جگہ اس حدیث کو یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ (اللہ تعالی طیب پاک صاف ہے صاف ستھری چیز ہی قبول کرتا ہے۔)
اورسنن ترمذي اسے ایسے بیان کرتاہے کہ (بلاشبہ اللہ تعالی اپنی نعمت کا اثراپنے بندے پر دیکھنا پسند کرتا ہے ) یعنی اللہ تبارک وتعالی یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی دی ہوئی نعمتوں کا اثر نظرآئے کیونکہ یہ اس جمال اورخوبصورتی میں سے ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے اورپھر یہ باطنی طورپر بھی جمال اورخوبصورتی ہے کہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے ، تواس لیے واجب اورضروری ہے کہ ظاہری جمال اورخوبصورتی نعمت کے ساتھ ہواورباطنی جمال اورخوبصورتی اللہ تعالی کی نعمت پر اس کا شکرادا کرکے ہو۔
امی جی نے اتنے پیارے طریقے سے حدیث شریف کا ترجمہ سنایا کہ مزید تفصیلات کی ضرورت ہی نہیں رہی، سفیر کو ایک لمحے کو یوں لگا جیسے اس کے دماغ کی کئی گرہیں اکٹھی کھل گئیں ہوں۔ امی جی نے بات جاری رکھی "حسن اور خوبصورتی دو الگ الگ معیار ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر حسین بندہ خوبصورت ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر خوبصورت بندہ حسین ہو۔ اور پھر حسن اور خوبصورتی کا قدوقامت، خدوخال، کھال کی رنگت سے تو دور دور کا واسطہ نہیں۔ یاد رکھو حسن کے بڑے رنگ ہیں۔ ظاہری بھی باطنی بھی، صرف ظاہری رنگت کو حسن کہہ دینا حسن کے ساتھ زیادتی ہے،" کہتے ہوئے انھوں نے ثوبیہ کی جانب دیکھا جو ہمیشہ سے احساس کمتری کا شکار تھی۔ "مصور کے شاہکاروں کی تضحیک ہے" انھوں نے بات جاری رکھی، مصور کے شاہکاروں کی تضحیک و تمسخر اڑانا دراصل مصور کا تمسخر اڑانا ہے۔ اور یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا ہے۔اور سورہ الحجرات کی آیت نمبر گیارہ میں واضح طور پربیان ہوتا ہے کہ،
"اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔"
مذاق اڑانا، کسی انسان کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لئے کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادات قبول نہیں ہوتی۔"
دراصل مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اور یاد رکھو کسی کو کمتر ثابت کرنے کے پیچھے ہمیشہ تکبر کا رویہ کارفرما ہوتا ہے۔ اور تکبر کی قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے!
تو بس معافی مانگو اپنے خالق سے کہ وہ اپنے آپ کو احسن الخالقین کہتا ہے، اپنے مصور سے کہ ہم سب اپنے مصورِ واحد کے شاہکار ہیں، مختلف رنگوں کے شاہکار، مختلف قدوقامت اور خدوخال کے شاہکار مختلف طرح کے حسن کے ساتھ، کہ وہ ہمارے بارے میں قرآن میں فرماتا ہے کہ "لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ"، اس کائنات کے کوئی دو ایک سانچے میں نہیں بنے، ہر ایک کا سانچہ الگ، رنگت الگ، صحت الگ، فطرت الگ، صحبت الگ، سکت الگ، مگر مصور؟ سب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے، "صرف ایک" سب دم بخود سنتے رہے۔ مرد خواتین اور بچے سب یوں سر جھکائے خاموش بیٹھے تھے مانو سانپ سونگھ گیا ہو۔ کیونکہ ہر ذہن میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی معیار حسن کا بت موجود تھا جسے نہایت خوبصورتی سے غیر محسوس انداز میں امی جی نے چکنا چور کر دیا تھا۔