دلی فسادات : کہاں ہے انصاف ؟

-- مشرف عالم ذوقی
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
ملک کے بڑے  بڑے افسران ، سابق افسران صدر جمہوریہ کو مکتوب لکھ رہے ہیں مگر کیا اس سے کوئی فائدہ ہوگا ؟ تاریکی میں کویی آواز سنی جائے گی ؟ انصاف کون کریگا ؟
دہلی فسادات کو لے کردلی اقلیتی کمیشن کی تحقیقات سے متعلق چار رپورٹس جاری کی گیں .کمیشن نے دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کا حوالہ دیا اور مہم کے دوران بی جے پی قائدین کی طرف سے  سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام بھی لگایا . کمیشن نے صاف کیا کہ 23 فروری 2020 کو موج پور میں شری کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فورا بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا،مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔ پولیس کا کردار دیکھ لیجئے . رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلح ہجوم  نے شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں گیارہ  افراد پر حملہ کیا ، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے”جے شری رام” ، “ہر ہر مودی” ، “مودی جی ، کاٹ دو ان ملوں کو” ، “آج تمھیں آزادی دینگے”جیسے نعرےلگاہے اور مسلم افراد ، گھروں ، دکانوں ، گاڑیوں اور مساجد وغیرہ املاک پر چن چن کر حملہ کیا گیا ۔ رپورٹ میں 11 مساجد ، پانچ مدرسوں ، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالااور جلادیا۔
دہلی فسادات کی جانچ مرکز اور مرکز کے وکیلوں کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں ہے . یہ وہی معاملہ ہوا کہ قتل بھی کرو اور انصاف بھی کرو . یہ ابھی کا معاملہ ہے اور دلی فسادات کے ویڈیو ابھی بھی موجود ہیں جسکے لئے عدلیہ کو کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن جب ملک میں انتہا  پسندی اور فرقہ واریت کا عالم یہ ہو کہ ہندو ہے تو چھوڑ دو اور مسلمان ہے تو بغیر جرم بھی جیل میں ڈال دو ، وہاں انصاف کی کوئی صورت  رہ نہیں جاتی . ڈاکٹر کفیل اور بہت سارے بے گناہ مسلمانوں کے معاملے میں یہ پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے کہ مرکز ، عدلیہ اور وکیلوں کے رخ  کیا رہے ہیں دلی  فسادات اور سی اے اے مخالف مظاہروں سے متعلق معاملات میں عدالتی عمل کو روکنے کے لئے ایل جی کی مسلسل مداخلت پر عام آدمی پارٹی کو سخت اعتراض بھی اسی لئے ہے کہ مرضی وکیلوں کی شمولیت سے انصاف کا جنازہ اٹھے گا اور دلی فسادات کی فائل سے صرف بے گناہ مسلمانوں کو مجرم بنایا جاےگا . آزاد تحقیقات کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ مقدمے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اب ایسا موسم اس ملک  میں نہیں ہے جہاں مسلمانوں کو انصاف مل سکے .
دلی فسادات ہندوستان کی پیشانی پر لگا ہوا ایسا داغ ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا . بھلایا نہیں جا سکتا .دلی میں آگ لگانے والے ، ہلاک کرنے والے یہ نعرہ  بھی لگاتے رہے کہ دے دو ان کو شہریت . موت کے خونی کھیل سے مسلمانوں کو شہریت دینے کا کام تین دنوں تک جاری رہا . سیاسی پارٹیاں خاموش رہیں . کیجریوال خاموش رہے  جبکہ اس کھیل کا ایک بڑا حصّہ کیجریوال بھی تھے . مسلمانوں نے متحد ہو کر کیجریوال کو دلی کی سلطنت دی تھی اور کیجریوال  کے حق میں د عا بھی  مانگی گئی تھی  . کیجریوال اور امت شاہ ایک دوسرے کے جانی دشمن جب ایک ساتھ پریس کانفرنس میں نظر  اہے ، اسی وقت یہ اشارہ بہت حد تک مل چکا تھا کہ آئندہ کیجریوال کس کردار میں ہوں گے . یہ مسلمانوں کی شہریت کو لے کر اٹھنے والادھواں بھی تھا ، جس کا پہلا بڑا  ٹارگیٹ  دلی کو بنایا گیا . اور دلی کو اس لئے بنایا گیا کیوں کہ دلی سے اٹھنے والی آواز کا اثر  پورے ہندوستان پر ہوتا ہے .
پیٹرول بم چھوڑے گئے . دوکانیں بے رحمی سے جلا دی گین . مکانات جلاے  گئے . اس وقت  کسی کو بھی اپنی پارٹی بچانے سے کب فرصت  تھی  کہ مسلمانوں کی حمایت میں اترے . گجرات فقط ریہرسل ، دلی پوری فلم ، اور اس فلم میں وہ بھی دہرایا گیا جو گجرات میں  بھی نہیں ہوا ہوا .مگر فلم ابھی باقی ہے .اور اس فلم کا آخری منظر فلمانے کے لئے دلی کے ایلجی چاہتے ہیں کہ مرکزی وکیلوں کے ذریعہ جرم ان کے نام ثابت کیا جائے جو مظلوم اور بے گناہ تھے .
یہ سوچنا ہوگا  خوفناک حالات کا جبر ہمیں کب تک سہنا ہوگا ..؟.دلی فسادات کا مجرم کون ہے ؟ پریش ورما ، انوراگ ٹھاکر ، کپل مشرا فقط مہرے یا  کھیل کویی اور کھیل رہا تھا  .کل ان کی جگہ دوسرے مہرے ہوں گے . .کیا اب بھی یہ خیال یا یہ سوچنا دشوار ہے کہ ہمارے محافظ ، ہمارے حکمران ہم سے انتقام کی سیاست کر رہے ہیں . اور ہمیں اس ملک میں برداشت کرنا نہیں چاہتے ؟قدیم مصر کی کہانیوں میں مردہ جسم کو ممی میں محفوظ کرنے کی کہانیاں آپ نے بھی پڑھی ہونگی .اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ لاش دفنا تے وقت مختلف رسومات ادا کی جاتیں۔
خیال آتا ہے کہ وقت اور حالات نے ہمیں انہی چٹانوں کے حوالے کر دیا ہے .ہم زندہ ممی ہیں .محافظ حکمرانوں نے مسلسل اذیت کے بعد ہمارے مردہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے . عالمی سطح پر بھی  ہونے والی سازشوں نے ہمیں ہی آسان شکار سمجھ کر ہمارا خون بہانا شروع کر دیا  ہے . آگے اور بھی فرمان آہیں گے .ہندوستانی مسلمانوں کی تربیت اب زعفرانی رنگ میں ہوگی .اس زعفرانی سیاست میں ہمیں قدم قدم پر شکست اس لئے ملے گی کہ ہمارے ہی کچھ لوگ اس خوفناک سازش اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں انکا ساتھ دے رہے ہیں ..تیس کروڑ کی آبادی پر ہندوتو کے درشن اور فلسفے خاموشی سے مسلط کر دے جائیں گے
دلی اقلیتی کمیشن نے اپنا فرض پورا کیا . معاوضہ دینے کی بات بھی کی ہے .مگر انصاف ؟
بھروسہ اٹھ چکا ہے . یہ ملک  مسلمانوں کا بھی  ہے۔ کیونکہ قیام پاکستان کے باوجود ، ملک کے وفادار مسلمانوں نے پاکستان کو منظور نہیں کیا۔ وہ یہاں رہے .بچوں کو سنبھالا .تجارت کی . سرکاری دفتروں میں کام کیا . اور کبھی ملک سے اپنی وفاداری کا کویی حصّہ سیاست دانوں سے بھی طلب نہیں کیا .۔ لہذا ، مسلمانوں کو کوئی تقسیم قابل قبول نہیں ہوگی. انصاف کیوں گم ہے ؟ خاطی اور مجرم آزاد کیوں ہیں ؟ مسلم مخالف تجربے کیا کہتے ہیں ؟ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟ ابھی آی اے ایس کے رزلٹ میں بیالیس مسلمانوں کا نام بھی آیا ہے . موجودہ حال سے کوئی امید نہیں ہے .مستقبل کے لئے تعلیم ہی مسلمانوں کا واحد ہتھیار ہے .