
فہیم حیدر ندوی
بڑی مسجد روڈ بتیا مغربی چمپارن
موبائل۔9708127257
ہماری قوم پسماندگی کا شکار ہے پسماندگی ہماری مقدر بن گئی ہے پسماندگی کی زندگی ہمارے رگ و پا میں اچھی طرح سرایت کر گئی ہے ایسا معلوم ہونے لگا ہے کہ اب ہمیں اس پسماند گی کی عادت سی ہوگئی ہے ہماری خبر گیری کرنے والاکوئی نہیں ہے کو ئی پر سان حال نہیں ہے کسی کو مسلم قوم کی پرواہ نہیں ہے مسلم لیڈر بھی مسلم قوم کی رہنمائی کرنے میں صفر ثابت ہو چکے ہیںخود مسلمانوں کو اپنی فکر نہیں ہے تو غیر قوم سے کیا توقع کی جاسکتی ہیںآج اس پسماند گی کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ مسلم قوم خود ہے مسلمانوں کے اندر اللہ نے لیڈر شپ کے لئے علماء کو بھیجا ہے لیکن ان علمائوں سے مسلم قوم بذات خود نفرت و عداوت رکھنے لگی ہے ان سے متنفر ہونے لگی ہے ان سے بغض و عناد رکھنے لگی ہے ان پر بے اعتمادگی کا اظہار کرنے لگی ہے آج کوئی بھی عام و خواص ہو علماء حضرات کو برے القاب سے پکارنے میں ذرہ برابر عار محسوس نہیں کر رہا ہے قوم کا مزاج و مشغلہ علماء کی کمی تلاش کرنا ان کی عیب جوئی کرنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنا نا بن چکاہے قوم ان تمام باتوں سے بے خبر ہے کہ قوم میں علماء کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟اس کی حیثیت کیا ہے ؟اس کا وجود کیوں ہے قوم کے اندر علماء اتنے اعلی مقام ومنصب پر کیوں فائز ہے ؟ کس مقصد کی تکمیل کے لئے انہیں قوم میں بھیجا گیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری عادتیں اور پچھلی قوموں کی عادتوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے وہ لوگ بھی اپنے انبیاء کرام کا استہزا کیا کرتے تھے اور ہم بھی آج اپنے علماء کرام کا استہزا کرنے میں لگے ہیں جبکہ انہیں کی بدولت ہماری مساجد و مدارس اور مکاتب آباد ہیں انہیں کی وجہ سے پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ مسجدوں میںادا ہو تی ہیں یہی پانچوں وقت پابندی سے اذان کو آباد کرنے میں مصروف رہتے ہیں جن کا مکمل وقت قر آن و حدیث کی تعلیمات ہرمسلم گھرانے تک پہو نچانے میں صرف ہوتا ہے جنہیں دنیاوی مال و متاع اور دنیاوی رونک و چمک دمک سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں جاڑا گرمی برسات مسجد میں اذان و نمازکو وقت پر آباد کرنے میں لگے رہتے ہیں ان کی تنخواہ بھی معقول نہیں ہوتی ہیں اگر ان کی کمائی کی بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ کوئی پندرہ سو ‘تو کوئی بارہ سو‘تو کوئی دو ہزار ‘کوئی زیادہ سے زیادہ کماتا ہوگا تو پانچ ہزار روپیہ ماہانہ لیکن کبھی بھی شکوہ ان کی زبان پر نہیں آتا ہے اور جب مہینہ ملنے کی بات آتی ہے تو اور بھی زیادہ حیرانی ہوتی ہے کہ کسی کا چھ ماہ سے ماہانہ بند ہے یا نہیں ملا ہے تو کسی کو سال بھر سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور جو شخص ان علمائوں کی کمی تلاش کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے وہ ان سے کئی گنا زیادہ حیثیت کا مالک ہوتا ہے پھر بھی زندگی سے شکوہ کرتا ہے لیکن کبھی کوئی عالم و حافظ کو آپ کسی عام و خواص کی شکایت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے اور نہ اس شخص کی شکایت کرتا ہے جو ان سے بغض و عناد رکھتے ہیںاور نہ اپنی زندگی سے کوئی شکوہ ہوتا ہے اگر ہم عقل سلیم کے مالک ہیں تو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ قوم جو لگ بھگ ہزار وں سال اس دنیا پر حکومت کیںاور بالخصوص ہندوستان جیسے عظیم ملک پر لگ بھگ آٹھ سو سال تک حکومت کرنے کے باوجود آج اپنی پہچان اپنی قوم کی پہچان کے لئے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو مجبور ہوگئی ہے یہ کیسے ہوا کتنے سالوں میں ہوا کس نے کیا اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں کیوں آج کا مسلمان پسماند گی کی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہے ا ن سوالوں کا جب جواب معلوم کریں گے تو سب سے پہلا جواب یہ ہوگا کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ہم نے عیش و عشرت میں زندگی بسر کی ہیں نہ حال کی ہمیںکوئی خبر ہیں نہ ماضی سے ہم نے کوئی عبرت حاصل کیا ہیں اور نہ مستقبل کی ہمیںکوئی پرواہ ہے جس قوم میں سردار کی اہمیت نہیں ہوتی اس قوم کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ہے آج ہماری قوم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہمارے اندر علماء جیسی عظیم شخصیت کو وجود بخشا ہے جس کی ضرورت ہماری زندگی اور موت دونوں میں ہیں جب ہمارا وجود ایک دن کا ہوتا ہے تو اذان کی ضرورت ہوتی ہے جب ہم جوان ہوتے ہیں شادی بیاہ کی عمر ہوتی ہے تو نکاح کی ضرورت ہوتی ہیںاور جب آخری سانس لیتے ہیں موت آتی ہیں تو ان کی ضرورت ہوتی ہیں یعنی جنازہ کی نماز بھی انہیں مولوی و علماء حضرات کی وجہ سے ہو پاتی ہیں لوگ کہتے ہیں ہمارا کوئی نیتا اور لیڈر نہیں ہیں میں پوچھنا چاہتا ہوں ایسے لوگوں سے کہ یے علماء حضرات کون ہیں یہی علماء ہمارے نیتا و لیڈر ہیں یہی حضرات ہماری پہچان ہے ہماری بقا کے ضامن ہے ہماری خیر خواہی کے لئے کوشا ہے ہماری رہنمائی کے لئے ان کا وجود ہیں ہماری کامیابی کے لئے انہیں بھیجا گیا ہیںہماری دنیا و آخرت کی زندگی سنوارنے کے لئے ہیں ہمارے رہنما و لیڈر ہیںہمارے امام ہیں اسلام کی بقا کے لئے ذمہ دار ہیں قر آن و حدیث کی تعلیمات کے لئے ہیں انسان کے اندر انسانیت اور مسلمان کے اندر اسلامیت کے لئے ہیں مساجد و مدارس کی بقا ان کی بقا پر منحصر ہیں آج کا لونڈا جسے صحیح سے قر آن دیکھ کر پڑھنا نہیں آتا ہے وہ بھی علماء کو بد نام کرنے میں پیچھے نہیں ہے جو کہ نہایت ہی شرم کی بات ہے اور برا فعل ہے جس کے لئے دردناک عذاب ہے علماء کی بے احترامی قوم کی پسماندگی ہے علماء تو نبی نہیں ہیں لیکن نبی کے وارث توہیں کیا نبی کو برا بھلا کہنا صحیح ہے اگر نہیں تو نبی کے وارث کو برا بھلا کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے یے علماء بھی تو عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں لیکن انسانوں میں معزز شخصیات میں سے ہیں ان کامقام عالی ہیںان سے بھی غلطی ہو سکتی ہیںاگر کوئی ایک عالم یا حافظ یا قاضی یا مفتی وغیرہ میں سے غلط ہیں یا ان سے کوئی غلط فعل سر زد ہو جاتا ہے تو لوگ یہ نہیں کہتے کہ فلاں عالم یا حافظ یا قاضی یا مفتی وغیرہ نے غلط فعل کا ارتکاب کیا ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مولوی ایسے ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ایک عالم سے ہٹ کر دوسرے عالم کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ وہ عالم و علماء سے بد ظن ہو جاتے ہیں اس لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے عام لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہیں اور علماء کی تعداد گنتی کے ہوتے ہیں اور ان گنتی کے علماء میں سے کسی ایک یا دو سے غلط فعل سرزد ہوجاتا ہے تو عوام الناس کی زبان پر ’’مولوی ایسے ہی ہوتے ہیں ‘‘ کے الفاظ سننے میں آجاتے ہیں ایسے فعل سے اجتناب کی ضرورت ہیں ہمارے معاشرے میں اگر ایک ڈاکٹر بد فعلی کرتا ہے کردار کا گندا ہے نہایت ہی برا عمل کرتا ہے پھر بھی ہم علاج کرانے اسی کے پاس جاتے ہیں اور جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ اس کا انفرادی معاملہ ہے لیکن علماء کے معاملے میں اتنے بد ظن ہو جاتے ہیں کہ اس سے کنارہ کشی اختیار ہی نہیں کرتے بلکہ معاشرہ میں اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں جس طرح ایک ڈاکٹر کا انفرادی معاملہ ہو سکتا ہے اسی طرح ایک دینی رہنما کا بھی انفرادی معاملہ ہوسکتا ہے ایک عام آدمی کو برا کہنے اور ایک عالم کو برا کہنے میں زمین و آسمان کا فرق ہو جاتا ہے ایک عالم ایک خاص صفت کا مالک ہوتا ہے جس کے کندھے پر اسلام کی تعلیمات و نشرو اشاعت کی ذمہ داری ہوتی ہے قوم کا خیر خواہ ہوتا ہے ایک عالم کے قلم کے نوک کے برابر بھی ایک عام شخص کا مرتبہ نہیں ہو سکتا ہے اس لئے بد ظن ہونا ہمارا دینی نقصان ہوسکتا ہے ان سے دوری اور بدگمانی اپنے دینی معاملات کو کمزور کرنا ہو سکتاہے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کو نا راض کرنا ہو سکتا ہے قر آن کریم کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ علماء کی خامیاں نکالنا اور انہیں عوام الناس میں پھیلانا گناہ کے کام ہیں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے جس طرح ماں باپ اور بھائی بہن سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے تو اسے معاشرے اور رشتے داروں سے چھپاتے ہیں کوینکہ وہ ہمارے والدین اور عزیز ہوتے ہیں ہم اپنی کمیاں معاشرے اور رشتہ داروں کے سامنے نہیں لانا چاہتے ہیں اسی طرح علماء بھی قوم کے باپ کی طرح ہوتے ہیں ان کی بھی کمیاں حتی الامکان چھپانے کی کوشش کر نی چاہیے کیونکہ علماء کو کمزور کرنا قوم کو کمزور کرنے کے برابر ہوتا ہے آج وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم علماء کے اندر اپنا اعتماد پیدا کریں ۔ علماء کو مضبو ط کریں تبھی ہماری ذلت و پسماندگی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے آج مسلم قوم کا سب سے بڑا دشمن ہندوستان جیسے عظیم ملک میں آر۔ایس۔ایس ہے اس کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے جب ہماری قوم اس کا مطالعہ کرے گی تو معلوم ہوگا کہ آر۔ایس۔ایس نے اندلس (اسپین) ایک وفد بھیجا تھا اندلس (اسپین)ایک وفد بھیجنے کی اصل وجہ جب قوم کومعلوم ہوگی تو حیران رہ جائے گی پیروں تلے زمین کھسک جائے گی اندلس (اسپین) کے لوگوں نے بتابا کہ مسلمانوں کے ایک ہزار سال حکومت کے باوجود آج وہاں اسلام کا نام و نشان عمارات کے سوا کچھ باقی نہیں ہیں کیونکہ ان لوگوں نے مسلمان قوم کا اعتماد ان کے اندر علماء پر سے اٹھا دیا تھا یہی حالات آج پوری دنیا میں اور بالخصوص ہندوستان میں علماء کے ساتھ ہو رہا ہے اس لئے وقت کی اہم ضروریات میں سے ایک ضرورت یہ ہے کہ قوم کے اندر پھر سے علماء کا اعتماد بحال کیا جائے علماء کو عزت کی نظر سے دیکھا جائے۔
قوم کے اعلی سے اعلی و ادنی سے ادنی شخص کو بھی علماء کی تحقیر جرم گرداننے کی ضرورت ہیں علماء حضرات سے بھی گزارش ہے کہ اپنی حیثیت اپنا مقام و مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے کوئی کام انجام دیں۔ علما ء بھی اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ کیوں انہیں اتنے بڑغ عہدے پر فائز کیا گیا ہیں تبھی قوم کی پسماندگی کو دور کیا جاسکتا ہے اور اپنی کھوئی ہوئی پہچان پانے کی امید کی جا سکتی ہیں اللہ قوم کے اندر علماء پر اعتماد کی سختی سے عمل کرنے کی تو فیق عطا فر مائیں ۔آمین۔