۔۔۔ ہندوستان کی آواز۔۔۔

ڈاکٹر محمد صلاح الدین
 صدر مدرس مدرسہ حبیبیہ
 دار البنات نیا بازار چھپرہ سارن بہار
تمہارا ظلم کافی ہے ہمیں بیدار کرنے کو 
جو لوہا ضرب سہتا ہے وہی ہتھیار بنتا ہے 
کبھی کبھی انسانی فکرو عمل غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور دھوکے میں پوری انسانیت تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہے۔ چونکہ ہماری فطرت میں لالچ کوٹ کوٹ کر رکھ دی گئ ہے۔ اپنی بھلائی اپنا مفاد جہاں نظر آیا بس اس کے لیے سرگرداں ہو جایا کرتے ہیں۔ چاہے جو ہو ہم کو اس کا ساتھ دینا ہے اس کے ڈالے ہوئے دانے کو کھایا اور جال میں پھنسے۔ادھر یہ شکاری اپنی دھوکا دھڑی کو صحیح ٹھہرانے کےلیے کچھ چمچےاور بیلچےکو چیخنے چلانے کے لئے آمادہ اور تیار کرتا ہے۔ جن کا کام صرف اس دھوکہ باز کی کمیوں کو اچھائیوں میں بدلنا اور وشوگرو کا خواب دکھانا ہوتا ہے۔
 نتیجہ باینجا رسید
 لوگوں کی نوکری چلی جاتی ہے۔ غریب بھوکے مرتے ہیں۔ لٹیرے بینک لوٹ لوٹ کر بھاگ جاتے ہیں ۔حکومت کا خزانہ خالی ہو جاتا ہے۔ لوگ موب لانچنگ میں مارے جاتے ہیں۔ عورتیں بر سر بازار نیلام کی جاتی ہیں ۔ مجرموں کو حکمران مالاپہناتے ہیں ۔حق و انصاف کی بات کرنے والوں کو جیل ہوتی ہے۔ مخصوص طبقہ پر ظلم کرنے والوں کے عہدے میں ترقی ہوتی ہے۔ زناکار کی محافظت میں کنڈیل مارچ نکلتا ہے۔
 یہ سب کچھ ہوتا ہے۔
پوراہندوستان تماشائی بنا دیکھتا رہتاہے
کسی کی ہمت نہیں کے کچھ بولے
جو بولے گا قید خانے جائے گا
نئے نئےدفعات لگا کر سڑایاجائے گا۔ میدان خالی ہوتا ہے۔۔ بے ایمانوں کی جماعت ننگی ناچ ناچتی ہے۔زرخرید غلاموں کی ٹولی پورے ملک میں جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ انڈین چینل پر بڑے بڑے اینکر اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ ان کو ظلم زیادتی نظر نہیں آتی۔
 بہن بیٹیوں کی عزت کا جنازہ نکلتا ہے تو نکلے ہم نہیں بولیں گے
 پٹرول اور ڈیزل آسمان چھوتا ہے تو چھوئےہم نہیں بولیں گے
 ملکی معیشت کمزور نہیں مقروض ہوتی ہے تو ہو ہم نہیں بولیں گے
 آخر آپ میڈیا والے کیا بولیں گے
جواب آتا ے۔۔ ھم تو جامہ پہنائیں گے۔ ہم تو برائی کو اچھائی کا لباس بنائیں گے۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس۔۔۔۔ اس کی آڑ میں میجک دکھائیں گے ۔۔۔اچھے دن کا سپنا سجائیں گے۔۔۔اسمارٹ سیٹی کی بات کریں گے ۔۔۔ آبدا کو اوسر میں بدلنے کی بات کریں گے؛؛؛
سبز باغ دکھا دکھاکر شکاری آیا سب نے لبیک کہا اور آنکھوں میں بسایا ۔۔
کالادھن نہ نوکری آپس میں خوب لڑایا ایئرانڈیا اور ریلوےکو چھوڑو اس نے تو بھارت ماں کو بیچ ڈالا۔۔۔
دوہزار تیرہ اور چودہ سامنے رکھیں۔۔
کوئی بھی ہندوستانی اپنی زبان نہیں کھولتا تھا۔
حتی کہ دوسری کوئی پارٹی بھی حکومت کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔
 بس قابض لوگوں کی آواز گونجتی تھی۔ یہ خرابی ہے؟ اس کو ٹھیک کریں گے۔۔ ہندوستان کو سپرپاور بنائیں گے ۔پہلا ٹرم۔پانچ سال تک اس نے اپنا کیل کاٹا ایسا ٹھوکا ایسا ٹھوکا۔
 جدھردیکھو ۔ اسی کے لوگ ہیں۔اپنی حکومت کا پائہ خوب مضبوط کرتا ہے۔
دوسرا ٹرم آیا۔ سب کچھ پہلے سے سیٹ تھا۔کوٹ کچہری ہماری ۔ اونچےاونچے عہدے ہمارے ۔ ہمارے لوگ ہمارے  اور جو ہمارے ہیں۔ وہ پاک وپوتر ہیں۔ ان کی طرف دیکھنے والوں کی آنکھیں نکالی جائے گی۔اب! مسلمانوں کی باری ہے۔ دلتوں کی شامت آئی ہے۔اور ہماری طرف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دو چاہے وہ آواز کسی ہندو کی کیوں نہ ہو۔ چلتا رہا۔الیکشن کا زمانہ آیا۔ پاکستان یاد آیا۔اذان اور مسجد کے نام پر کام چلا لیا۔ دقت پیش آئی ۔ مسلمانوں کو کٹوایا۔ مسجدتوڑوایا۔ یہ سب ہوتا رہا۔ وقت آیا ہندو مسلمان سکھ عیسائی بیدار ہوئے۔ اب حالات یہ ہوئے کہ ظلم کے خلاف ہر ہندوستانی بولنے لگے۔ چین وسکون جب ختم ہوا سب نے مل کر اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ہندو پر ظلم ہوا مسلمان بولااور مسلمانوں پر ظلم ہوا ہندو بولا۔ اب تو ہندو مسلم کے دیوار کو لوگوں نے توڑ ڈالا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ چین ہمارے ملک میں داخل ہوگیا۔ نیپال آنکھ دکھانے لگا۔سری لنکا اور بنگلہ دیش ہم سے دور ہو گیا۔کوئی پڑوسی ملک اب ہمارا نہیں رہا۔اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ کس کو تخت و تاج سونپ دیا۔یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ ایک فوجی کی ضرورت کو پورا نہ کرنے والی سرکار۔ یہ کیسی حکومت ہے ۔ کہاں یہ وشو گرو بتارہاتھااور نیپال داخل ہو کر مار رہا ہے۔کہاں گئی ہماری طاقت۔ کہاں گئے تمہارے بڑبولے پن کی آواز ۔ سمجھ میں آگیا۔ دماغ ٹھکانے لگ گیا۔اب اپنا پورانہ دن یاد آیا۔نہیں چاہیے تمہارا اچھا دن۔ ہم کو ہمارا پرانا دن لوٹا دو۔ ہماری آپسی میل جول واپس کر دو۔پورے ہندوستان کے کونے کونے سے حق و انصاف کی آواز بلند ہوتی ہے۔اور یہی زندہ قوم کی نشانی ہے۔ ہم سب کی وفاداری ہے ۔ ضرورت ہے اتحاد کی اتفاق کی۔ سماج میں جو بول سکتا ہے بولے۔ جو لکھ سکتا ہے لکھے۔ اپنے مفاد کی پرواہ نہ کرے۔ بلکہ قومی مفاد پرایک ہو کر آواز لگائے۔ اورظلم وزیادتی کا خاتمہ کریں ۔