عشرہ ذی الحجہ اور قربانی حقیقت کے آئینہ میں

از قلم: محمد طاسین ندوی 
اس صفحۂ ہستی میں مختلف ادیان و ملل،مسلم و ہندو،بدھ وجین،عیسائی ونصرانی  رہتے بستے ہیں سبہوں کے ملت و مذھب میں کچھ نہ کچھ فرحت وانبساط کے ایام طے شدہ ہیں چاہے وہ ایام و ساعات فرحت وسرور خود ساختہ ہو یا منزل من اللہ، البتہ دین اسلام ایک ایسا دین سماوی ہے جسے کہ بارے میں فرمان خداوندی ہے "إن الدين عند الله الإسلام"سورۃ آل عمران۱۹ بلاشبہ، واقعی دین الہی تو اسلام ہی ہے .دین اسلام کے متبعین کو اللہ تبارک و تعالی نے پورے سال میں صرف دو یوم فرحت و مسرت کے عطاء کئے ہیں جبکہ کے خود ساختہ ،ادیان باطلہ میں بے شمار ایسے دن طے ہیں جس میں علمبرداران دین خوشیاں،رنگ ریلیاں، رقص وسرورکی مجالس لگاتے ہیں اگر کوئی خصوصیت و طرۂ امتیاز حاصل ہے تو دین اسلام ہے اللہ کو یہ دین مرغوب ہے اور عید الفطر جو پورے ایک ماہ پے درپے روزہ رکھنے کے بعد آتی ہے اور عیدالاضحی جو بالکل ماہ رمضان مبارک کے  دوماہ دس دن بعد آتی ہے جس دن کے بارے میں ارشاد ربانی ہے "ولیال عشر "سورہ فجر ۲
قسم ہے دس راتوں کی 
اللہ جل جلالہ نے قسم کھائی دس راتوں کی تو علماء تفسیر نے لکھا ہیکہ ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے ہی دس دن ہیں۔ 
اللہ تعالی کا قسم کھانا اس بات پر غماز ہیکہ اس ایام کے واقعی بڑے اعلی وارفع مقام ہیں اور باری تعالی کسی مہتم بالشان ہی شئی کی قسم کھاتا ہے چنانچہ اس کی وضاحت  فرمان نبوی نےیوں کیا  ہے "أفضل أيام الدنيا أيام العشر "يعنی عشر ذی الحجہ۔
 رواه البزار وصححه الالبانی
دنیا افضل ترین دنوں میں سے ماہ ذی الحجہ کے دس دن ہیں 
ان بہترین ایام میں بروئے کار لانے کہ اعمال حج ہر مسلمان جن کے سینے میں ایمان جوش اور رمق ہو اسکی آخری خواہش  ہوتی ہے جس کو رکن اسلام کا درجہ حاصل ہے فرمان رسول اللہ "بنی الاسلام علی خمس شھادہ أن لا إله إلا الله .......إلى الحج "متفق عليه
اسلام کی بنیاد پانچ ستون پر ہے جن میں سے ایک حج بیت اللہ بھی ہے اور حج کی ادائیگی ماہ ذی الحجہ کے عشر اوائل ہی میں ہوتی ہے ،اور ذی الحجہ کی مذکورہ تاریخ میں ہی سنت ابراہیمی پر عمل کرنا ہر صاحب نصاب و ثروت مسلمان پر عمل کرنا واجب ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے "فصل لربك وانحر "سورہ کوثر ۲
اے مومنو تم اپنے پالنہار خالق و مالک کی رضاو خوشنودی کے لئے نماز پڑھ اورذبح کرو۔
وہ عمل ذبح ہی کا نام  قربانی ہے راہ خدا میں ایک چھوٹا جانور بکرا، بکری، بھیڑ،مینڈھا،دنبہ،وغیرہ یا بڑا جانور اونٹ، گائے،بھینس،کا ساتواں حصہ کا نذرانہ پیش کرنا۔
 قربانی کے بیش بہا فضائل ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک بار صحابہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :یا رسول اﷲ!یہ قربانی کیا ہے ؟  یعنی قربانی کی کیا حیثیت ہے ؟آپ نےجواب دیا  : تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت اور منہج ہے صحابہ  نے عرض کیا ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ فرمایا  ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی .صحابہ نے عرض کیا . یا رسول اﷲ!اون کے بدلے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ملے گی۔ سنن ابن ماجہ ۲۲۶باب ثواب الاضحیہ
دوسری جگہ فرمان نبوی ہے عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل ﷲ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ،قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں ، سینگوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲتعالیٰ کے نزدیک قبولیت حاصل کر لیتا ہے .لہٰذاخوش دلی سے قربانی کیا کرو. جامع ترمذی ۲۷۵/۱باب ما جاء فی فضل الاضحیہ 
قربانی کے معاشی اور سماجی فائدے بھی ہیں اگر کوئی صاحب ثروت عمل قربانی کو انجام دیتا ہے تو ان کے اندر دوسروں کے بارے میں فکر پیدا ہوتی ہے جس سے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔
اگر قربانی کے گوشت کو عمدہ ڈھنگ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے توایک حصہ ایسے لوگوں تک بھی پہنچےگا جو بالکل غریب و نادار ہیں اور اپنی عزت نفس کی وجہ سے دست سوال دراز نہیں کرتے ہیں
فرمان باری تعالی ہے "... فكلوا منها واطعموا البائس الفقير "سوره حج 
قربانی کے گوشت میں سے تم بھی کھاؤ اے راہ خدا میں قربان کرنے والو اور محتاج و نادار و فقیر کو بھی کھلاؤ ۔
اور جانور کی کھال کو رفاہی ادارہ کے حوالے کیا جائے جس سے سماج کے ناداروں کو دیا جائے یا عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کئے جائے.
نہ کہ ہم گوشت کو اپنی فریج میں رکھ کر ماہ و سال تک خوب کھائیں اور محلہ کے غریب و نادرا کو ایک بوٹی بھی میسر نہ ہو. 
اللہ تعالی سے دعا ہیکہ اللہ ہمیں دین کی درست سوجھ بوجھ عطاء کر تاکہ ہم میں سے صاحب نصاب وثروت لوگ اس کار خیر و فلاح میں خوب دلچسی لیں  اور نادار و فقیر جو قربانی نہیں کرسکتے ان کے دلوں میں اور اہل وعیال کےلئے فرحت و شادمانی کا سامان مہیا کرسکیں . وما توفیقی الاباللہ