
شبیر حسن شبیرؔ
اورنگ آباد ، بہار (انڈیا)
رابطہ:8804809732
’’روشنان ‘‘ ڈاکٹر فریدہ تبسم گلبرگہ صاحبہ کا افسانوی مجموعہ ہے جو ایم ایم پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنا پی ڈی ایف بھیجا ہے یہ ان کی محبت ہے۔ وہ میری فیس بک فرینڈ بھی ہیں۔ انہوں نے میری ایک غزل پر بھرپور تبصرہ کیا تھا۔ جس کو میں نے اپنے چوتھے مجموعے میں شامل بھی کرلیا ہے۔
روشنان 2024میں شائع ہوا جس میں اٹھارہ افسانے ہیں جو 147صفحات پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر فریدہ تبسم کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور مزید دو زیر اشاعت ہیں۔ یہ گلبرگہ یونیورسٹی میں لیکچرر شعبۂ اردو و فارسی ہیں۔ یہ تنقید نگار بھی ہیںاور تبصرے اور تجزیے بھی کرتی ہیں، یہ خاکے بھی لکھتی ہیں اور نثری شاعری سے بھی شغف رکھتی ہیں، ان کی تین تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ انتساب بھی خوب ہے۔ ’’نئی نسلوں کے نام‘‘ ان افکار و خیالات کے نام جنہیں علم و عمل کے ساتھ حق شناس اور خدا شناس بنائے اور وہ احساس و ادراک کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری ، ڈاکٹر محمد شارب رانچی جھارکھنڈ اور ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی نے مختلف عنوان کے تحت اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا ہے اور ان کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب روشنان کی افسانوی کرنیں کے تحت کہتے ہیں کہ ’’افسانہ تخلیق کرنے کے لیے فکشن فہمی اور تخلیقی سوچ کے علاوہ فنی اور تکنیکی اسلوب کی مہارت کا ادراک ہونا چاہیے جیسے غزل لکھنے کے لیے غزل کے شعری گرامرکا پتہ ہونا چاہیے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر فریدہ تبسم صاحبہ اس آرٹ اور تکنیک سے بہ خوبی واقف ہیں۔ اسی لیے ان کے افسانے میں جان ہے اور قاری جب پڑھتا ہے تو پھر پڑھتا ہی رہتا ہے اور چھوڑنے کی خواہش نہیں ہو تی ہے۔
روشنان کی روشنی میں افسانوی دھنک عنوان کے تحت ڈاکٹر محمد شارب صاحب کہتے ہیں کہ ’’ اردو کے عصری منظر نامے میں جو خواتین فکشن تخلیق کررہی ہیں ان میں ڈاکٹر فریدہ تبسم بھی شامل ہیں۔ تاہم فریدہ تبسم افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ تنقیدی صلاحیت کا ملکہ بھی رکھتی ہیں جو کہ انہیں افسانہ نگار اور تنقید نگار ہونے کا درجہ عطا کرتا ہے اور ایسی صلاحیت بہت کم خواتین میں پائی جاتی ہے۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر فریدہ تبسم باصلاحیت تخلیق کار اور تنقید نگار ہیں۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم کے افسانوی مجموعہ ’’ روشنان ‘‘ کا تجزیہ مطالعہ کے تحت ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی (ورلڈ ریکارڈ ہولڈر) کہتے ہیں کہ ’’ ڈاکٹر فریدہ تبسم کا شمار اردو کے چیدہ چیدہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اور ان کا افسانوی مجموعہ روشنان اردو کے افسانوی ادب میں ایک قابل ذکر اضافہ ہے۔ خاص طور پر خواتین افسانہ نگاروں کے حوالے سے یہ ایک منفرد تخلیق ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف ڈاکٹر فریدہ تبسم کے تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے بلکہ عصری مسائل اور انسانی نفسیاتی کے پیچیدہ پہلوئوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی صاحب نے میری چند غزلوں پر بھی عمدہ اظہار خیال کیا ہے اور باصلاحیت ہیں ۔ ڈاکٹر فریدہ تبسم نے اپنے افسانے میں نفسیاتی پہلو کو بھی بحسن و خوبی اجاگر کیا ہے جیسے لگتا ہے کہ وہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔ ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی صاحب نے بہت تفصیلی گفتگو کی ہے اور ہر پہلو پر اپنا اظہار خیال کیا ہے۔
ان کے اٹھارہ افسانے کا عنوان درج ذیل ہے ۔
جذبات کا المیہ ، آتش کدہ، محاسبہ، میری عیدی، زندگی دھوپ تم گھنا سایہ ، صدائے جرس، اصل کی تلاش ، ہمارا محافظ، حسرت، جہان عشق، وعدۂ وفا، بوجھ ، گرودکشنا، کوزہ گر، دلدل، خوشی کا پل ، شہد کی مٹھاس ،آئینہ۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم صاحبہ نے احساس و ادراک کے عنوان سے اپنے خیالات کااظہار کیا ہے اور وہ گویا ہیں کہ ’’میں نے اپنے تخلیقی سفر میں روایت اور جدت کے انتظار کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تجربات و مشاہدات کو افسانوی تخلیق میں ڈھالنے کی سعی کی ہے۔ جدید مسائل اور نئے تجربات نے مجھ پر جو اثر ڈالاافسانوی قالب میں ڈھال کر کچھ حد تک متنوع پیدا کرنا مقصود تھا ۔ فکر و احساس میں گردش دہر کے شب و روز کے خواب وخیال کی عکاسی کی سعی کی ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر فریدہ تبسم اچھا افسانہ تخلیق کرنے کا ہنر جانتی ہیں ، وہ اپنی بات کو سیدھے سادے الفاظ میں بیان کرتی ہیں ،ان کے افسانے میں روایت بھی ہے اور جدت کی پاسداری بھی ۔ وہ اپنے احساس و جذبات کو افسانوی شکل میں ڈھالنے میں بے حد کامیاب نظر آتی ہیں۔
ان کا پہلا افسانہ جذبات کا المیہ ہے۔ شہر یار ناول نگار تھا اور اس کی بیوی ایک اچھی پینٹر ، شہر یار کا دوست اظہر فوٹو گرافی میں ماہر تھا۔ اظہر نے پینٹنگ کو غور سے دیکھ کر کہاکہ ’’حقیقت کو فن میں تبدیل کرنا حقیقت کی توہین ہے ۔آپ کتنا بھی اسے فن میں ڈھالو ، تحلیل کرو مگر حقیقت نہیں بن جاتی۔‘‘ شہریار نے کہاکہ فن اگر حقائق کی بہترین عکاسی کرے تو گہرااثر ہوجاتا ہے جس سے زندگی کی حقیقت بھی بدل سکتی ہے ۔‘‘ بڑا فلسفیانہ جملہ ہے جو کہانی میں بہت خوبی کے ساتھ نبھایاگیا ہے ۔
شہریار غلط فہمی کا شکار ہوگیا تھا اور اس کو شک ہوگیا تھا کہ اس کی بیوی اظہر کو چاہتی ہے اس لیے وہ اپنی بیوی سارہ سے دور چلاگیا مگر پانچ سال بعد اس کی غلط فہمی دور ہوئی اور وہ اپنی بیوی بچوں کے پاس آگیا۔ احتشام سرپرائز دے گیا اور کہانی دلچسپ ہو گئی۔
آتش کدہ ان کی دوسری کہانی ہے یہ فساد کی طرف اشارہ ہے اور بچے کے ذہن میں آگ اس طرح بیٹھ گئی کہ نفسیاتی مریض ہوگیا۔ محاسبہ ان کی تیسری کہانی ہے ۔ اس میں ڈاکٹر فریدہ نے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا ترقی کر گئی اور مشینی ہو گئی ہے ۔ ہم ریسرچ دوسروں پر کررہے ہیں لیکن اپنا محاسبہ کرنا بھول گئے کہ ہم نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے اور اشارے کنایے میں بہت سی بات کہہ دی گئی ۔
’’میری عید ‘‘ان کی چوتھی کہانی ہے۔ بہت نفسیاتی اور جذباتی کہانی ہے۔ باپ ہر سال کی عیدی نکال کر رکھتا مگر بیٹا ماں کے مرنے کے بعد نہیں آیا۔ وہ مرنے کے وقت سلیم چا چا کے حوالے کر گیا جو اس کی امانت تھی۔ وہ اپنی امانت آج لینے آیا تھا مگر اس کو پتا نہیں تھا کہ امانت کیا ہے۔ سلیم چاچا نے باپ کا ایک خط اور سو سو کے پانچ نوٹ دئیے تو وہ زارو قطار رونے لگا اور کہنے لگا بابا آج عید کادن ہے میں آیا ہوں۔ میری عیدی بابا؟
باپ کی محبت بیٹے سے کتنی ہوتی ہے اس کہانی میں پیش کی گئی ہے اور بیٹا سلیم چاچا سے عیدی پاکر اپنا غم چھپانہ سکا۔
’’زندگی دھوپ ۔ تم گھنا سایہ ‘‘ یہ ان کی پانچویں کہانی ہے ۔ یہ ایک علامتی کہانی ہے اور ایک چڑیا کے ذریعہ اپنی کہانی علامتی بناتی ہیں۔ لوگ پرانے تعلقات کو بھول جاتے ہیں اور نئے تعلقات بنانے لگتے ہیں جب کہ پرانے تعلقات میں ہی سکون ہے۔ اپنے بزرگوں کو بھول جاتا ہے اور نئے رشتے تلاش کرنے لگتا ہے ۔ آخر میں اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی دھوپ ہے اور تو میرے لیے گھنا سایہ تھا جب اس کے بزرگ نہیں رہتے ہیں۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم اپنی کہانی میں کامیاب ہیں ان کے خیال میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی اور میں بلاتامل یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر فریدہ تبسم کہانی پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔
میں نے صرف پانچ کہانیوں پر توجہ دی ہے اور پانچوں کہانیوں میں وہ بے حد کامیاب ہیں۔ میری دعا ہے کہ زور قلم اور زیادہ۔