آہ! برصغیر کے معروف فکشن نگار پروفیسر حسین الحق کا انتقال

   پٹنہ،23؍دسمبر(ایجنسی)ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ برصغیر کے معروف فکشن نگار پروفیسر حسین الحق نے بھی اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ جمعرات کی صبح یہ اندوہناک خبر ملی کہ پٹنہ کے میدانتا اسپتال میں انھوں نے آخری سانس لی۔ پروفیسر حسین الحق افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے لکھ رہے ہبں۔ یہ وہ دور تھا جب افسانہ نگاری میں نئے نئے تجربے ہو رہے تھے علامت نگاری کا بول بالا تھا، شعور کی روکی تکنیک کے ساتھ کہانیاں لکھنا ایک فیشن بن چکا تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اس رجحان اور اس رویے کو اپنایا، لیکن اس ڈھنگ سے اپنایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جدید افسانوں کی دنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل بن گیا۔ انہیں اردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار، نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں سبقت حاصل ہے اور معاصر فکشن نگاروں میں جن لوگوں نے نوجوان قلمکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں حسین الحق صاحب کا نام ناگزیر ہے۔حسین الحق صاحب کا تعلق شیر شاہ کے شہر سہسرام کے عظیم صوفی خاندانِ مشائخ سے ہے۔ ان کے والد حضرت مولانا انوارالحق شہودی نازش سہسرامی تھے جو خود ایک مشہور عالم دین، خطیب، شاعر اور ادیب تھے۔ ان کی والدہ محترمہ شوکت آرا کا بھی تعلق سہسرام سے ہی تھا۔ حسین الحق صاحب 2 نومبر1949 کو سہسرام میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم خانوادے کی روایات کے مطابق ان کے والد کے زیر سایہ دینی تعلیم سے ہوئی۔
 اس کے بعد انھوں نے مدرسہ کبیریہ سے مولوی کا امتحان پاس کیا، بعدازاں آرا ضلع اسکول آرا سے1963ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1968 میں ایس پی جین کالج سے گریجویشن مکمل کیا اور یونیورسٹی میں اوّل ہوئے۔ بعد ازاں پٹنہ یونیورسٹی سے 1970 میں اردو میں ایم اے کیا اور اس میں بھی ٹاپ ہوئے۔ 1972 میں مگدھ یونیورسٹی بودھ، گیا سے فارسی میں بھی ایم اے کی سند حاصل کی، بعد ازاں گورو گووند سنگھ کالج، پٹنہ میں عارضی طور پر بحیثیت لیکچرار ملازمت بھی کی، بعد ازاں یو جی سی سے جونیر فیلوشپ ملی اور غالباً 1974ء تک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی میں تحقیقی و تدریسی کاموں میں مصروف رہے، ان کے اس زمانے کے شاگردوں میں پروفیسر شاداب رضی، ڈاکٹر انیس صدری، ڈاکٹر نعیم فاروقی اور آج کے کانگریسی لیڈر شکیل الزماں کا نام قابلِ ذکر ہے۔1977ء میں ان کی شادی سیّد محمد اسرارالحق کی صاحبزادی نشاط آرا خاتون سے ہوئی۔ اللہ نے انہیں دو بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازا۔ اسی درمیان ایس پی کالج، دمکا میں ان کی پوسٹنگ ہوئی اور 1981ء میں شعبہ اردو پوسٹ گریجویٹ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا (بہار) میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ 
مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے ہی صدرشعبہ کی حیثیت سے2013 میں وظیفہ یاب ہوئے۔والد صاحب کی رہنمائی میں لکھنے کا کام تو دس برس کی عمر سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ حسین الحق صاحب کی پہلی کہانی عزت کا انتقال غالباً 1964 یا 1965 میں ماہنامہ کلیاں لکھنو میں صوفی بلیاوی کے نام سے شائع ہوئی۔ اسی سال ماہنامہ جمیلہ دہلی میں ان کا پہلا افسانہ پسند شائع ہوا۔ 1966ء میں انہوں نے بچّوں کا ایک رسالہ انوار صبح سہسرام سے نکالا۔ 1969 میں ان کا پہلا مضمون بعنوان اردو شاعری پر گاندھی جی کے اثرات بہار کی خبریں پٹنہ میں شائع ہوا۔