کہاں ہو تم ؟

ڈاکٹر کہکشاں پروین 
صدر شعبۂ اردو 
رانچی یونی ورسٹی، رانچی ، جھارکھنڈ 
رابطہ :8789437630
شہر سنسان پڑا تھا ۔ لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ایک ہنگامی دور تھا جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا ۔ یہ کیا ہوا کیسے ہوا کیوں ہوا ؟۔۔۔۔۔ یہ سوال ہر کے ذہن میں ابھر رہا تھا لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ اعلیٰ حکّام خاموش تھے ۔ میڈیا والے چیخ چیخ کر نئے نئے افسانے تراش رہے تھے اور عوام بد حال تھی۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ کہیں بھی فساد کی آگ نہیں تھی ،خون ریزی کی چھینٹیں نہیں تھیں پھر بھی پورا ملک دہک رہا تھا۔ انسانوں کی جانیں طوفانی انداز میں ختم ہورہی تھیں۔ ان دیکھا وائرس تیزی کے ساتھ اپنا پائوں پسار رہا تھا۔ پہلے تولوگوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی بھلا ایسا بھی ہوتا ہے ۔ ایسی وائرس ہوتی ہے کیا ؟ یہ سازش ہے حکومت کی ۔ دشمن ملکوں کی سب ملے ہوئے ہیں۔ لوگ آپس میں ملتے چوری چھپے کیوں کہ اب تو بازاروں میں نکڑوں پر ملنا جلنا منع ہو گیا تھا پھر بھی چلبلے باز نہ آتے۔ جہاں موقع ملتا مل بیٹھتے اور حالات حاضرہ پر تبصرے کرتے پھرپولیس گاڑی کی سائرن کی آواز سنتے ہی ہنستے ہوئے ادھر ادھر چھپ جاتے۔۔۔۔۔ یہ آنکھ مچولی لاک ڈائون کی فضا میں بڑا ذہنی سکون دیتی تھی۔۔۔ آخری حربہ یہی اپنایاگیا تھا کہ شہروں میں لاک ڈائون کردیاجائے۔ کیوں کہ یہ مرض میل جول سے ہی بڑھتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے الگ دہیںگے تو جراثیم سے پاک رہیںگے۔ لیکن کوئی کہاں ماننے والاتھا۔۔۔۔ تعلیم یافتہ طبقہ تو دیر سے ہی سہی مگر حالات کی سنگینی کو سمجھ چکا تھا ویسے بھی یہ طبقہ اپنے دائرے میں اکثر اسیرہی رہتا ہے لیکن وہ لوگ جو عرف عام میں نچلے طبقہ کے کہے جاتے ہیں وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی کشیدگی کے عمل سے دور نہیں رہنا چاہتے تھے ان کے لیے ایک طرف اپنی روزی روٹی کا سوال اور دوسری طرف ان مسرتوں کا حصول جو وہ بغیر کچھ خرچ کئے ہی حاصل کرلیتے تھے۔ اب کیاافتاد پڑی کہ روزی روٹی بھی چھین گئی اور معصوم آرزوئوں کو بھی پامال کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ سو وہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلنے لگے۔ اور اس میں انہیں کسی حد تک قرار بھی آنے لگا ۔ لیکن حالات کی سنگینیاں بڑھتی گئیں۔ پوری فضا خون آشام جراثیموں سے آلودہ ہوتی گئی اور پولیس کے ڈنڈوں کی مار کے خوف کے ساتھ ساتھ رات دن ٹی وی پر نیوز اینکرس کی چیختی چلاتی آوازیں اعصاب پر اثر اندازہونے لگیں۔۔لوگوں نے آپس میں ملنا جلنا کم کردیا۔۔۔یہ وہ طبقہ تھا جو اپنی روایت کو بڑی مشکل سے نظر انداز کرتا تھا لیکن ستم ظریفیاں اتنی بڑھیں کہ وہ بھی پابند ہونے لگے۔ ۔۔گھروں میں بیٹھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو کھانے کی رفتار کم ہونے لگی۔۔ صبح سے شام تک روزگار سے حاصل شدہ آمدنی شام میں چولہا کی رونقیں بڑھاتی تھی لیکن اب تو سب پر ناتوانی چھا چکی تھی۔۔۔ وہ بھی سماج کے ایک ایسے ہی گھر میں محصور ہو چکی تھی۔۔۔ گرچہ جس جگہ وہ ملازمت کرتی تھی وہاں اسے جانا پڑتا تھا۔ باقاعدگی تونہیں تھی لیکن ضروری کام آجاتے تو اسے بلایاجاتا۔۔۔ تنخواہ کم تھی اور اب تو جو ملتا وہ اسے بھی غنیمت سمجھتی کیوں کہ ابھی بھی وہ بہت لوگوں سے خود کو بہتر سمجھتی تھی اس کے آس پاس کے گھروں میں ایک ہی وقت کھانا ملتا تھا لوگ اندر اندر گلیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ضرور تھے لیکن ان ملاقاتوں میں بھی جوش و خروش کی جگہ دکھ اور فاقوں کی نقاہت آچکی تھی۔سال بھر سے بچے بھی گھروں میں قید تھے لیکن ان کے اسکول کی فیس اپنی جگہ برقرار تھیں اور جن کے بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے ان کے کھانے بھی بند تھے۔۔۔۔ اکثر اعلان ہوتا تھا کہ اسکول میں چاول دال تقسیم کیے جارہے ہیں لیکن جب بچوں کے گارجین جھولالے کر جاتے تو حساب سے بہت کم اناج لے کر لوٹتے ۔۔۔ ایسے کئی خاندان بھی تھے جو اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کی سنہرے جامے میں آدھے ادھورے ملبوس ہوکر اسکولوں میں تعلیم دلارہے تھے۔ وہاں سے کچھ لینے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ وہ بھی شام کو اپنے چھوٹے سے گھر کے باہر کھڑی ہوجاتی اور آس پاس کی خاموش گلیوں کو تکتی رہتی جو پہلے ہنسنے بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ 
اس نے بھی اپنی بیٹی سونی کو پڑھایا لکھایا تھا۔۔۔ وہ خود بھی کالج کی تعلیم حاصل کرچکی تھی لٹریچر اس کا پسندیدہ موضوع تھا پڑھائی میں وہ ہوشیار تھی اور دیکھنے میں بھی کافی دلکش تھی زندگی میں اس نے بھی خواب دیکھے تھے۔ کہانیاں پڑھتی ،ٹی وی دیکھتی اور نیلگوں آسمان کی بیکراں بلند یوں پر پرواز کی خواہش بھی کرتی اور ان ہی خوابوںمیں جھولتے جھولتے وہ اپنے شوہر کے گھر آگئی۔۔۔۔ اس کا شوہر بھی ٹھیک ٹھاک تھا ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازم تھا اور اس سے کافی پیار بھی کرتا تھا ۔ بیوہ ساس بھی اس سے شفقت سے پیش آتی غرض کہ اسے اپنے خوابوں اور اپنے شغل میں کسی دراڑ پڑنے کا احساس نہیں ہوا۔
شادی کے دو سال وہ خوشگوار ازدواجی زندگی میں مسرتیں سمیٹتی رہی۔۔۔ اور سونی اس کی گود میں آگئی ۔ اس کا چھوٹا سا خاندان چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مگن تھا۔ اچانک جیسے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا ۔ ایک حادثہ نے اسے بیوہ بنادیا۔ پہلے ہی آمدنی کم تھی اب اور بھی پریشانیاں سامنے آگئیں وہ تو مہربانی تھی کہ اسی کمپنی نے اس کے شوہر کی جگہ پر اسے ملازم رکھ لیا۔ وہ ٹھیک سے سوگ بھی نہ مناپائی کہ زندگی کے بکھیڑوں میں لگ گئی۔۔۔ چھوٹی بچی کو ساس کے حوالے کرکے وہ کام پر نکل جاتی اس کی خوبصورتی اور جوانی دیکھ کر کئی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا کسی کی آنکھوں میں ہوس تھی کسی کے مزاج میں لذت کوشی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی نیت صحیح تھی۔ وہ باقاعدہ اسے اپنے گھر کی زینت بنانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کسی کو قبول نہ کر سکی۔۔۔ اسدؔکی محبت نے اسے سراپا زیر کرلیا تھا اور اب تو ساس اور بچی کی ذمہ داریاں اس کے ذہن کے ہر تار سے بندھ چکی تھیں۔ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ وہ اپنا دامن بچاتی رہی ۔ یہاں تک سونی اس کی بیٹی جوانی کی راہ پر گامزن ہوگئی۔ ساس بالکل ضعیف ہو چکی تھی۔۔۔ کسی طرح شب و روز گذرر ہے تھے کہ اچانک اس بیماری نے لوگوں کے ہوش حواس چھین لی۔ ۔۔ ویسے گزشتہ سالوں میں بڑے بڑے ہنگاموں نے دستک دیا تھا۔۔۔ سیاسی سماجی، تہذیبی تبدیلیوں بڑے زور و شور سے رونما ہوئی تھیں۔۔۔ لیکن اسے تو دنیا کے کسی اصول ، کسی قانون اور کسی تبدیلی سے کوئی غرض نہیں تھی ۔ ایک عام انسان کی طرح وہ دو وقت کی روٹی مہیا کرنے میں دن رات مشغول رہی ۔ اس نے کبھی اپنے جذبات کی طرف بھی نظر نہیں دوڑا ئی۔ اس کی دنیا تو بس اس کی بیٹی تھی ، میکے والے کبھی کبھی آکر مل جاتے اور اسدؔکی مختصر رفاقت اس کی زندگی کا ماحصل تھی اور جب اس کووڈ ۔۱۹نے پائوں پسارنا شروع کیا تو پہلی بار اسے خوف محسوس ہوا۔ اپنے سے زیادہ سونی کی فکر تھی ابھی تو اس کی عمر بھی نہیں ہوئی تھی وہ اسے اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی تھی ، اس کی زندگی بھر کی تپسیا سونی کی شکل میں تھی ۔اکثر اپنا سوچا ہوا بہت کم پورا ہوتا ہے۔۔ وبا کی صورت میں مرض عام ہو نے لگا اور واحد صورت حال لاک ڈائون کی نکلی۔۔۔۔ سب اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ۔ ضرورت کے وقت ضروری سامانوں کو خرید نے کی چھوٹ دی گئی تھی۔ البتہ دواکی دکانوں کی رونقیں اپنے شباب پر تھیں ۔ باقی ہرشئے جیسے اجڑ سی گئی تھی۔۔ سونی کاکالج بھی بند تھا۔ آن لائن پڑھائی کا ایک سلسلہ جاری ہو چکا تھا۔ اسے بھی کم ہی جانا پڑتا۔ ضروریات کے سامان وہ خود ہی لے آتی تھی اور کبھی کبھی کمپنی کے کسی کام پر وہ آفس جاتی تھوڑی دیر کے لیے زندگی کے اوقات ایک حصار میں پابند تھے۔
جب وہ کسی کام سے باہر جاتی اور گھر لوٹتی تو دروازے کے اندر آتے ہی جیسے اچھوت ہونے کا احساس ہوتا تھا وہ کسی سے مخاطب ہوئے بغیر سیدھی باتھ روم چلی جاتی وہاں جاکر اپنے کپڑے سب دھوکر نہالیتی اور صابن سے دونوں ہاتھوں کو خوب ملتی۔۔۔۔ پھر ان کاموں سے فارغ ہوکر وہ باہر آتی ۔ گیلے کپڑوں کو الگنی پر پھیلاکر وہ ساس اور بیٹی کا رخ کرتی ۔
’’ممّی ماسک لگانا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے مگر یہ بار بار ہاتھ دھونا کیا ہے۔‘‘
کئی بار سونی نے پوچھا تھا۔۔۔
وہ کیا جواب دیتی خود اسے بھی کتنی بار ہنسی آجاتی تھی۔ اس عمل کو انجام دینے میں اکثر تو وہ بھول جاتی کہ ہاتھ دھونے پر سختی سے کاربند رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ واقعی آج ہم کہاں آگئے ہیں اب تو گھر بیٹھے جو کھیل ہوسکتے ہیں ان سے بھی خوف آنے لگا تھا۔ فرصت کے اوقات دونوں ماں بیٹیاں کبھی کیرم کھیلتی تھیں کبھی لوڈو۔۔۔۔ لیکن اب ان تفریح میں بھی ایک رکاوٹ آگئی تھی۔ کوئی بھی کام کر و ذہن ہمیں ہاتھ دھونے کی تکرار کرتا رہتا۔ نتیجے میں عجیب بے لطفی کی کیفیت ہوجاتی تھی۔ ۔۔۔ بہر حال غنیمت کی زندگی اور اس کے شب وروز جاری تھے۔۔۔ وہ بددل ہوتی پھر اوپر والے کا شکریہ بھی ادا کرتی اس طوفانی دور میں یہ بہت ہے کہ وہ تینوںایک گھر کی چھت کے نیچے ایک ساتھ دکھ سکھ کے دن گزار رہے ہیں۔
دوسری آسائشیںاور عیش و عشرت کے لوازمات نہ سہی لیکن اپنائیت ، محبت اور جذبات کے جو سرمائے ہیں وہ سب سے زیادہ بیش قیمت ہیں۔۔۔ ان کا مول کون لگا سکا ہے اب تک؟۔۔۔۔۔۔ سونی ناسمجھ تھی وہ اوپر اوپر سوچتی تھی کبھی اداس ہوجاتی کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟الجھنیں پہلے ہی کیا کم الجھن تھیں کہ اب تو قید کی زندگی میں خوف و خطر کے ساتھ جی رہے ہیں۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتیں معصوم کیف آگیں لمحات کی توانا ئی دھوپ کے سائے میں چلنااور چاند کی روشنی کا نہارنا۔۔۔۔۔ یہ سب کہاں کھو گئے ممّی کیوں۔۔۔ سونی کا معصوم سوال احتجاج کی صورت میںابھرتا۔۔۔۔ اور اسے کوئی جواب نہیں بنتا تھابس کہتی۔۔۔۔۔ یہی دنیا ہے اور اس کے کارنامے بھی ہیں بس یہ سوچ لے کہ سب کچھ رہے اور میں نہ رہوںتو تجھے کیسا لگے گا؟ کیا تو میرے بغیر ان تمام مسرتوں سے فیض یاب ہوسکے گی ۔وہ تمام آسائش تجھے بے چین نہیں کریںگی۔
سونی کی آنکھیں ماں کے چہرے کو تکتی رہتیں پھر وہ اس سے لپٹ جاتی نہیں نہیں ممّی مجھے سب قبول ہے یہ چھوٹا گھر یہ روکھا سوکھا کھانا،سورج اور چاند کو ترسنا بلکہ یہ لاک ڈائون کی قید بھی ٹی وی کے خبروں کی ہولناکیاں بھی ۔۔۔۔ میں سب سہہ لوںگی مگر تمہاری جدائی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم ساتھ رہو۔۔۔۔
واقعی جب سے وہ پیدا ہوئی تھی کبھی دونوں کا ساتھ چھوٹا نہیں تھا۔ دونوں اپنے کاموں سے باہر جاتیںتو عارضی جدائی کے دوچار گھنٹے کسی طرح گذر جاتے پتہ نہیں چلتا گھر واپس آکر ایک دوسرے کا دیدار دونوں کے اندر مسرت اور اطمینان کی ایک توانا لہر دوڑا دیتا۔۔۔۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ آج وہ دس دنوں سے اسپتال کے اس بیڈ پر پڑی تھی دس روز سے اس نے سونی سے کوئی بات نہیں کی تھی نہ دیکھا تھا۔ بس نیم بے ہوشی کے عالم میں وہ یہاں تھی اور سونی اکیلی زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھی۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا کیسے ہوا وہ تمام احتیاط برتتی تھی اسے اپنی زندگی سے زیادہ سونی کی فکر تھی۔۔۔۔ اسی لیے وہ اپنی صحت کا خاص خیال رکھتی تھی کہ کون ہے سونی کی دیکھ بھال کرنے والا۔۔۔۔ لیکن تمام احتیاط و ضوابط رائیگاں چلی گئیں۔۔ اسے بخار آگیا۔۔۔۔ اس نے گھروں میں رکھی دوائیاں فوراً کھایا۔۔۔ دوسرے دن بخار اتر گیا لیکن اسے اپنے سینے میں عجب سی جکڑن اور جسم میں نقاہت محسوس ہونے لگی۔۔۔ وہ تمام گھریلو ترکیبیں آزماتی گئی لیکن کوئی فاقہ نہ ہوا۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ اس موذی مرض نے اسے پکڑ لیا ہے۔۔۔ پاس پڑوس کو خبر ہوجاتی تو جانے کیا ہوتا ابھی تو ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا سلسلہ بند تھا لیکن اس بیمار ی کا علم ہوجانے کے بعد تو جیسے آس پاس کی فضا میں عجب سی نفرت انگیز تنائو پیدا ہوجاتا ۔ وہ رات دن دعائیں مانگتی کہ جلدی ٹھیک ہوجائے اس کی بوڑھی ساس تو اپنی زندگی جی چکی ہے وہ کسی چوراہے پر بیٹھ کر خیرات کے سہارے بچی کھچی عمر کے لمحات گذار لیتی مگر سونی کو کون پوچھے گا اس کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔ الہڑمعصوم لڑکی۔۔۔ اس نفرت انگیز ماحول میں اگرکوئی آگے بڑھے گا تو بھی بس ہوس اورلوٹ کھسوٹ کے جذبات سے مجبور ہوکر ایسا انسان اب کہاں ہے جو بغیر کسی مفاد کے کسی کے کام آسکے لیکن اس کی تمام دعائیں بھی بے اثر رہیں ۔ حالت بگڑی تو خبر پھیل گئی آخر سبھوں کے اصرار پر اسے اسپتال میں بھرتی کرا دیاگیا۔ ۔۔ محلے کے کچھ لوگوں نے اتنی ہمدردی دکھائی کہ اسے بیڈ مل گیا۔ مگر بیڈ ملنے سے کیا ہوتا۔۔۔۔ علاج کے اصول تو نرالے ہی تھے۔ جب وہ ایڈمٹ ہوئی تو سونی ساتھ تھی۔۔۔۔ اس نے سونی کو مایوس نظروں سے دیکھا اور بولی۔۔۔ ’’دھیان رکھنا اپنا۔۔۔۔‘‘ سونی ہر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر اس سے لپٹ کر رونے لگی۔۔۔ بڑی مشکلوں سے ڈانٹ ڈپٹ کر وہاں کی نرسوں نے دونوں کو الگ کیا اور پھر وہ جیسے اپنے بیڈ کی زینت بن گئی۔۔۔ کب ڈاکٹر آئے کب نرس اسے دوا دیتی اسے کسی بات کاہوش نہیں تھا اس کے ذہن میں بس اپنا گھر اور اس گھر میں رہ رہی سونی کی تصویر لہراتی رہتی۔۔۔ لبوں پر پانی اور کھانا مانگنے کی بجائے صرف سونی کی تکرار ہو تی۔۔۔۔ جب وہ کسی قدر ہوش میں ہوتی تو نگاہیں چاروں طرف سونی کو تلاش کرتی رہتیں۔۔۔ سونی تو نہیں تھی مگر اس کا ہیولی آس پاس گھومتا رہتا۔۔۔۔ اس ہیولے نے ایک دن چپکے سے اس کے کانوں میں کہا۔۔۔۔ خود کو نہیں سنبھالے گی تو میرا سہارا کون بنے گا۔چل اٹھ کر ہمت کر اور حوصلہ باندھ یہ جنگ تجھے جیتنا ہے۔ ‘‘
ان سرگوشیوں سے اسے جیسے نئی طاقت کا احساس ہونے لگا وہ تو ہر حادثہ ، ہر پریشانی کو خوش اسلوبی سے جھیلتی آئی تھی کیا اس مرض کو وہ شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو گی۔۔۔۔ جس سونی کا وجود اسے کمزور کررہا تھا وہی اچانک ایک بڑی طاقت بن کر اس کے اندر سما گیا۔۔۔ دوسرے دن اس نے سونی کی تکرار کی بجائے پہلی بار کھانا مانگا۔ پانی مانگا۔۔۔ اور اسے ایسا لگا کہ وہ اب جلد ہی ٹھیک ہوکر سونی سے ملے گی پھر دونوں ایک ساتھ مل کر زندگی کی چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیوں کو ساتھ مل کر منائیںگی ۔ حال کی بدحالی کو نظر انداز کرکے وہ مستقبل کی خوش آئند خیالوں سے خود کو بہلائیںگی۔۔۔ ان ہی سوچوں میں اسے یہ احساس تک نہ ہوا کہ کب اس کے آس پاس خون آشام بھیڑ نے آکھڑے ہوئے پورا وارڈ مریضوں سے بھرا تھا لیکن لیکن شام ہوتے ہوتے ایک ملگجی سی میلی روشنی والابلب تاریکی کو دو رکرنے میں ناکام تھا۔۔۔۔
پہلے تو اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنے برسوں کے بعد اس کے جسم کو کس کا لمس لگا ہے۔ کون اسے چھو رہا ہے۔ نہیں یہ تو اسدؔ نہیں ہوسکتا۔ ۔۔ وہ کبھی اتنی سختی نہیں کرتا تھا وہ تو لطافت اور نرمی کاایک مکمل نمونہ تھا ۔ اچانک اس کے ناتواں جسم کو کون اتنی بے دردی سے روند رہا ہے۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی چلّا نہیں پارہی تھی پہلے ہی کسی نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔ سونی۔۔۔۔۔ سونی۔۔۔۔ وہ تو زندگی کی طرف مائل ہو چکی تھی پھر موت کا فرشتہ بن کر کون آگیا تھا۔۔۔۔ حیوانیت کا کھیل کب تک کھیلا گیا اور کھیلنے والے کتنے تھے ۔
اس کاعلم اسے نہیں ہوسکا وہ تو اپناحواس پہلے ہی کھو چکی تھی نیم مردہ جسم کو جھنجھوڑنے کا عمل جاری تھا اور وہ اذیت کی انتہا تک پہنچ کر ہر احساس فراموش کرچکی تھی۔ پتہ نہیں کتنا وقت گذر گیا۔۔۔۔
’’ممّی ممّی یہ کیا ہوگیا۔‘‘ دور سے سونی کی آواز بھررہی تھی۔۔۔۔
ممّی تو اچھی ہورہی تھی پھر کیا ہوا۔۔۔۔ بار بار سونی روہانسی ہوکر بول رہی تھی۔
سونی کی آواز سے اس کے حواس کچھ لوٹ آئے۔۔۔۔ اس نے سونی کو اشاروں سے اپنی بپتا سنانی چاہی ۔۔۔۔ بار بار وہ پائوں کی طرف اشارے کررہی تھی سونی نے پتہ نہیں کیا سمجھا۔ اس نے چادر ہٹائی تو دنگ رہ گئی۔۔۔۔ بیس سالوں سے ماں کا بے داغ جسم آج زخموں اور آلائشوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ وہ دیوانہ وار چلّانے لگی۔۔ کس نے کیا یہ سب ؟
وارڈ میں ایک بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔۔۔
ممّی ممّی۔۔۔ وہ اس کے پاس جھک گئی ۔
’’سونی ۔۔۔۔۔ سونی ۔۔۔‘‘کلونت کور نے کیوں مارا ایشر سنگھ کو ؟ ایشر سنگھ کہاں ہو تم ؟
ایشر سنگھ کہاں ہو تم ۔ وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی رورہی تھی ۔
ممّی کس کلونت کورکی بات کررہی ہے کس ایشر سنگھ کو پکار رہی ہے۔ اس سے سونی بالکل انجان تھی۔ وہ اپنی ماں کو آخری الفاظ کو سمجھ نہیں سکی ۔ بس پھوٹ پھوٹ کر روئے جارہی تھی۔ اس کے آنسو اس وقت رکے جب اوٹ پٹانگ سوالوں سے اسے سامنا کرنا پڑا۔ ان سوالوں اور اسپتال والوں کے عجیب و غریب رویوں سے اس کے دکھوں پر غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ اس کی ماں کے زخمی وجود کو نظر انداز کرکے اس کے لبوں سے ادا ہونے والے آخری الفاظ پر بحث کررہے تھے۔۔۔۔ اس سے دریافت کررہے تھے اور وہ جواب دینے سے قاصر تھی۔ جب ہنگامہ خیز حالات میں ماں کے آخری سفر پر روانہ کرکے وہ گھر آئی تو غم و غصے سے بالکل نڈھال ہو چکی تھی۔۔۔۔ اس نے روتی ہوئی آنکھوں سے گھر کے درو دیوار کو دیکھا ۔ چاروں طرف ویرانی برس رہی تھی ۔ بوڑھی دادی ایک طرف بیٹھی آنسو بہار ہی تھی۔۔۔۔ سونی اسے دلاسے نہ دے سکی کیوں کہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی اب تو جی بھر کر رونے کا وقت تھا ۔ بوڑھی دادی کے لیے ہی ٹھیک تھا۔ کیوں کہ بغیر برسے بادل آسمان کے ساتھ ساتھ زمین کو بھی بوجھل کردیتے ہیں۔ سونی کو اسپتال کے تمام مناظر یاد تھے وہ ماں کے آخری الفاظ کی تکرار خود اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ کیا کسی کو بتا تی لیکن اس کا جواب ضروری تھا ۔ کیوںکہ سوال و جواب کا ایک سلسلہ ابھی باقی تھا جس کا اسے سامنا کرنا ہی تھا ۔ اس نے ماں کے مختصر سامان کو دیکھنا شروع کیا ۔ سامان تھا ہی کیا لوہے کی پرانی شیلف پر کتابیں ، ایک بکس میں اس کی سوتی چند ساڑیاں اور کونے میں پڑی دو چپلوں کے جوڑے، اس کی ماں قناعت پسند تھی ، اس کو کسی چیز کی چاہت نہیں تھی بس فرصت کے اوقات میں وہ کتابیں پڑھتی اور اکثر بازار سے پرچے خرید کر لاتی۔۔۔۔ سونی نے کم وقت میں سب دیکھ لیا۔ کہیں کچھ نہ تھا ، اس نے شیلف پر رکھی کتابوں کو دیکھا تو سب سے اوپر ایک کاپی رکھی ہوئی تھی۔ دھڑکتے ہوئے دل سے اس نے کاپی کھولی۔۔۔۔ بہت پرانی تھی۔۔۔۔۔ شاید کالج کے نوٹس تھے۔ ۔۔۔ اس میں کئی مضامین، افسانے، غزلیں لکھی ہوئی تھیں ۔ سونی نے غور سے سب کچھ پڑھا۔۔۔۔۔ اور بہت کچھ سمجھ گئی۔۔۔۔ ایک جو جگہ نوٹ کی شکل میں اس کی ماں کی ہی تحریر تھی ۔لکھا تھا۔
’’کلونت کور نے بہت جلد بازی کی ۔ ایشر سنگھ کے اندر انسانیت کی رمق ابھری تھی وہ بھی اس کے ساتھ ختم ہو گئی۔‘‘ سونی نے سمجھ لیا تھا صبح ہوتے ہی اس نے تھانے کا رخ کیا۔ اپنی ماںکے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی شکایت درج کروانے کے بعد وہ بولی آج میں آپ کو پوچھنے سے پہلے ہی بتاتی ہوں کہ میری ممّی نے جس کلونت کور اور ایشر سنگھ کو پکارا تھا وہ آج کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ پہلے بھی نہیں تھے یہ صرف ایک افسانہ نگار کے تخیل کی پیداوار ہیں۔۔۔ شاید اس زمانہ میں ایشر سنگھ کے اندر انسانیت کی بچی کھچی رمق چنگاری بن سکتی تھی۔ ۔۔۔ لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ ایشر سنگھ کے وجود کے ساتھ اس کے اندر کی وہ خالص خوشبو زائل ہوچکی ہے ۔ میری ماں کو اس بات کا غم تھا۔۔۔ اور ۔۔۔۔مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ آج کلونت کور بھی نہیں ہے جس نے سزا دینے میں کسی حیل و حجت کی بجائے اپنے جذبات کو اولیت دی ۔ کتنی کھری تھی اس کی عدالت۔‘‘
سونی کی آواز میں آنسوئوں کی سسکیاں شامل تھیں۔