اردو جریدہ " کلیم عاجز نمبر " کی دستاویزی حیثیت

 ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی
اردو اسسٹنٹ پروفیسر
ایم آئی ٹی بی ایڈ کالج، پٹنہ
موبائل نمبر:9199726661
مولانامظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی، پٹنہ کے سابق پرو وائس چانسلر و بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفر پور کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر توقیر عالم اردو دنیا میں محتاج تعارف نہیں ۔ وہ نہایت فعال، متحرک اور سرگرم انسان ہیں۔ ہمہ وقت علمی، ادبی اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے جمود وتعطل کے خول اور سرد بستے میں کبھی بھی خود کو قید وبند نہیں رکھا۔ ان کے اندر فلک پر کمندیں نصب کرنے کا جذبہ وحوصلہ پایا جاتا ہے۔ 1980سے ہی وہ اردو کی تعلیم وتدریس سے ہمرشتہ رہے ہیں۔ اب تک ہزاروں طلباء و طالبات ان سے فیضیاب ہوچکے ہیں۔ ان کے فیض یافتگان ملک وبیرون مملک میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہو کر کار ہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ اپنی صلاحیت وقابلیت کی بدولت انہیں بہار یونیورسٹی سینیٹ، سنڈیکٹ، اکیڈمک کونسل، فائنانس کمیٹی، آڈٹ کمیٹی، پلاننگ اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی، بہار یونیورسٹی پریس، یونیورسٹی کلچرل کمیٹی، اسپورٹس کمیٹی اور ریسرچ کونسل کا ممبر بننے کا اعزاز وافتخار بھی حاصل ہے۔ انہوں نے اساتذہ کانسٹی چوئنسی سے ایم ایل سی کا انتخاب بھی لڑا تھا۔ وہ عہد طالب علمی سے ہی علمی، ادبی اور تعمیری سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگراں وہ تمام طرح کی صلاحیت، قابلیت، استعداد اور استدراک سے لیس ہیں ۔ اس کا تحریری اعتراف پروفیسر عبد الواسع، سابق صدر شعبہ اردو، بی آر اے بہار یونیورسٹی، مظفرپور نے بھی کیا ہے :
" توقیر عالم صاحب میں لیڈر شپ کی بڑی صلاحیت ہے۔ تعلیم کے دوران اسٹوڈنٹس یونین کے صدر وسکریٹری رہے۔ سماجی وسیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا، بزم سخن ایل ایس کالج کے جنرل سکریٹری، ایل ایس کالج کامن روم کے سکریٹری ، ایتھلیٹک کلب کے سکریٹری، این ایس ایس کے گروپ لیڈر بنے اور پانچ سال تک رہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی نے انہیں چاندی کا تمغہ دیا اور اس طرح جہاں رہے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ " (اردو جریدہ:کلیم عاجز نمبر، مارچ 2018، ص:38) 
 پروفیسر عبد الواسع کی مذکورہ باتوں سے میرے لیے اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ۔ بلاشبہ پروفیسر توقیر عالم جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں، وہاں اپنی تعمیری سرگرمیوں اور گراں قدر کارناموں کے سبب اپنی موجوگی درج کراتے اور دوسروں کو اس کا احساس دلاتے رہتے ہیں، بلکہ تاریخ بھی رقم کرڈالتے ہیں۔ انہوں نے 2014 میں مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی پٹنہ میں بحیثیت پرو وائس چانسلر جو خدمات انجام دیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ اسی طرح بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفر پور میں 2012 سے 2014 تک نیز 2017 سے 2018 تک صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے جو کارہائے گرانمایہ انجام دییے وہ یونیورسٹی کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ انہوں نے شعبہ اردو کو وقار، اعتبار اور معراج عطا کیا، تعلیمی معیار کو کافی بلند کیا، طلباء اور طالبات کے اندر اردو زبان وادب سے شغف پیدا کیا ۔ انہیں تحقیقی مزاج عطا کیا۔ اردو میں ریفریشر کورس کا آغاز کیا۔ فیض احمد فیض پر مارچ 2012 میں، علامہ جمیل مظہری پر 2013 میں اور کلیم عاجز پر 2018 میں عظیم الشان یکےبعد دیگرے تین قومی و بین الاقوامی سمیناروں کا نہایت تزک واحتشام کے ساتھ انعقاد کرایا اور یونیورسٹی میں تاریخ رقم کرڈالی ۔ ان کے کارناموں کا پروفیسر عبد الواسع نے بایں الفاظ اعتراف کیا ہے اور ان کے لیے دعاؤں کا نذرانہ پیش کیا ہے:
 " شعبہ اردو کے لیے جوکام میں خواہش کے باوجود نہیں کرسکا ، اس کی تکمیل توقیر عالم نے بحسن وخوبی انجام دی جس کے لیے میں انہیں دعائیں دیتا ہوں۔ " ( اردو جریدہ: کلیم عاجز نمبر، ص:39)
 پروفیسر توقیر عالم کی کوششوں سے مذکورہ سیمناروں میں بہار اور دوسری ریاستوں، بلکہ انگلینڈ اور بنگلہ دیش وغیرہ کے بڑے بڑے قلمکاروں وفنکاروں نے شرکت کی تھی اور بیش قیمتی مقالے پیش کئے تھے۔ پروفیسر توقیر عالم نے عالمی شہرت یافتہ شاعر کلیم عاجز کے حوالے سے پڑھے گئے مضامین و مقالوں کو شعبہ اردو کے اردو جریدہ، مارچ 2018 کے شمارے میں شائع کیا تھا۔ اس شمارہ کی اہمیت، افادیت اور معنویت کا بخوبی اندازہ اس کے مشمولات و محتویات سے لگا یا جاسکتا ہے۔ 
  اداریہ: مدیر( ص: 5) ، بہار یونیورسٹی، شعبہ اردو اور اساتذہ کرام: پروفیسر عبد الواسع (ص:9) ، جدید کلاسک:کلیم عاجز:پروفیسر توقیر عالم (ص:41) ، کلیم عاجز میرے ہم جماعت، میرے ہم جلیس:پروفیسر نجم الہدیٰ (ص:55) ، کلیم عاجز-یادیں باتیں:پروفیسر عبدالواسع (ص:61) ، کلیم عاجز کاایک شعر : پروفیسر فاروق احمد صدیقی(ص:66) ، کلیم عاجز بحیثیت نظم نگار :پروفیسر محمد توقیر عالم(ص:69) ، کلیم عاجز کا اسلوب نثر :ڈاکٹر ممتاز احمد خان (ص:77) ، کلیم عاجز کی شاعری سماجی شعور کے آئینے میں :پروفیسر نبی احمد (ص:84) ، کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری کا اختصاص :ڈاکٹر منظر حسین (ص:90) ، کلیم عاجز کے سفر نامے :ڈاکٹر ہمایوں اشرف(ص:94) ، کلیم عاجز کی غزلوں میں عصری حسیت کے عناصر:ڈاکٹر سید آل ظفر (ص:101) ، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو :تفصیل احمد (ص:105) ، قطعات کلیم عاجز :یاسمین خاتون (ص:116) ، کلیم عاجز کی شاعری میں درد وکسک :محمد اشتیاق( ص:124) ، کلیم عاجز سے متعلق ناقدوں اور ادیبوں کے خیالات :لطیف احمد خان (ص:130) ، کلیم عاجز کی شاعری :ناظرہ نعیمہ بیگم (ص:135) ، کلیم عاجز ایک شاعر :عقیل احمد (ص:140) ، آفتاب سخن کلیم عاجز :آفتاب عالم(ص:143) ، منتخب اشعار :کلیم عاجز :محمد ولی حسن (ص:148)
 راقم السطور نے جب اس خصوصی شمارے کا مطالعہ کیا تو بخوبی یہ احساس ہوا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد توقیر عالم نے اپنے فنی کمالات اور مدبرانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اس کو کئی ناحیے سے  دستاویزی حیثیت دلانے میں صد فی صد کامیاب ہیں ۔ اس کے لیے میں انہیں صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 
پروفیسر توقیر عالم نے اس خصوصی شمارہ میں بقلم خویش اداریہ تحریر کیا ہے ۔اس میں انہوں نے بہار یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے اپنی وابستگی کو اپنی خوش نصیبی اور اس شعبہ کو اردو شعر و ادب کی تدریس و تحقیق کا مرکز قرار دیا ہے ۔ اس حقیقت کا بھی انکشاف کیا ہے کہ وہاں پروفیسر عبد الماجد اختر، پروفیسر عطا کاکوی، پروفیسر علی حیدر نیر ، پروفیسر اختر قادری، پروفیسر محمد سلیمان پروفیسر شمیم احمد، پروفیسر نجم الہدیٰ پروفیسر متین احمد صبا، پروفیسر عبدالواسع، پروفیسر ناز قادری، پروفیسر ناز قادری، پروفیسر فاروق احمد صدیقی، پروفیسر منور گیلانی جیسے جید ادیبوں، شاعروں، محققوں اور زبان وادب کے ماہرین نے برسوں تدریس وتحقیق کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے اپنے عہد صدارت میں دو ریفریشر کورس اور تین بڑے شاعروں فیض احمد فیض، علامہ جمیل مظہری اور کلیم عاجز کے حوالے سے قومی وبین الاقوامی سمیناروں کے انعقاد اور ان کے شرکاء مثلاً ڈاکٹر حسن جمیل مظہری (انگلینڈ) ، پروفیسر شارب ردولوی ،(دہلی) ، پروفیسر معین الدین جینا بڑے(دہلی)، پروفیسر شہناز نبی (کلکتہ) وغیرہم کا تذکرہ کیا ہے۔ تینوں سیمیناروں کو تاریخی اہمیت کا حامل بتایا ہے۔ ساتھ ہی انہیں شمالی بہار کی ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد کئے جانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ 
" اردو جریدہ کا یہ خصوصی شمارہ "کلیم عاجز نمبر" اس توقع سے پیش کیا جارہا ہے کہ طلبہ، اساتذہ اور اسکالرز کے علاوہ کلیم عاجز کی شخصیت اور شاعری سے محبت کرنے والے دوسرے حضرات بھی اس سے محظوظ اور مستفید ہوسکیں گے۔ اس خصوصی شمارہ کے مطالعہ سے اردو کے طلبہ میں کلیم عاجز کی شاعری اور نثر نگاری کے مزید مطالعہ کا شوق و شغف پیدا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت کام آئی اور میرا مقصد پورا ہوا۔ "(ص: 8 )
اس شمارہ میں پروفیسر عبد الواسع کا مضمون بعنوان " شعبہ اردو اور اساتذہ کرام بہار یونیورسٹی کی خدمات " ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ اس میں بی آر اے بہار یونیورسٹی کا پٹنہ میں 1952 کے قیام سے لے کر 1960 تک اور پھر 1960 میں پٹنہ سے یونیورسٹی کے ہیڈکوارٹر کی مظفرپور منتقلی کی پوری تاریخ درج ہے۔ انہوں نے ایل ایس کالج کے قیام (1899) کا منظر پس منظر، کالج میں شعبہ اردو اور فارسی کھولے جانے، وہاں بابو اودھ بہاری سنگھ  اور سید عبد الماجد کی بحیثیت اساتذہ تقرری اور وہاں سے پروفیسر شمیم احمد، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر شین اختر، پروفیسر طیب ابدالی، مظہر امام، منظر امام، ناشاد دربھنگوی اور پروفیسر حفیظ اللہ جسے مشاہیر ادباء کے پرائیوٹ طور پر ایم اے کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ 1960 سے لے کر ابتک بہار یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے جتنے لیکچرر اور پروفیسر  سے وابستہ ہوئے ہیں ان کی حیات اورخدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً پروفیسر سید شاہ اختر قادری، پروفیسر محمد سلیمان، پروفیسر محمد شمیم احمد، پروفیسر متین احمد، پروفیسر نجم الہدیٰ، پروفیسر عبد الواسع، پروفیسر عبد الوہاب اشرفی، پروفیسر زبیر احمد قمر، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی، پروفیسر حاتم ماہر رامپوری، پروفیسر ناز قادری، پروفیسر نعیم کوثر، پروفیسر فاروق احمد صدیقی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈاکٹر محبوب اقبال، ڈاکٹر سید آل ظفر، ڈاکٹر محمد اشفاق احمد، ڈاکٹر سید صابر حسین، ڈاکٹر ابو منور گیلانی، پروفیسر ڈاکٹر محمد توقیر عالم اور ڈاکٹر نفیس فاطمہ کے نام شامل ہیں۔ 
شمارہ کی دستاویزی حیثیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں جتنے بھی مضامین شامل ہیں وہ سب کے سب بہت ہی جامع اور مدلل ہیں اور کلیم شناسی کے لیے ریفرنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر نجم الہدیٰ، پروفیسر فاروق احمد صدیقی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈاکٹر ہمایوں اشرف اور ڈاکٹر سید آل ظفر کے مضامین بہت ہی گراں قدر ہیں۔ ان کی شمولیت سے اس شمارے کی اہمیت مزید دوبالاہوگئی ہے۔ 
اس شمارہ کی ایک اور اہم جو خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ اس پروفیسر توقیر عالم کا ایک مضمون بعنوان "کلیم عاجز بحیثیت نظم نگار" شامل ہے جو یقیناً بہت ہی جامع، مدلل، مستند اور اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کلیم عاجز کی غزلوں کی اہمیت، معنویت اور دیگر گوشوں پر تو بہت کام ہوا ہے، البتہ میری معلومات کے مطابق ان کی نظموں کے حوالے سے کوئی خاص کام  نہیں کیا جاسکا ہے۔ مجھے لگتا ہے ان کی نظموں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ انہوں نے کم وبیش 55 نظمیں بھی کہی ہیں۔پروفیسر توقیر عالم کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ان کی نظموں کو نقادوں، محققوں، قلمکاروں اور فنکاروں نے نظر انداز کیا ہے، چنانچہ انہوں نے ان کی نظموں کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ان کی متعدد نظموں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ بہت سارے نظمیہ اشعار نقل کئے ہیں ، ان کی خصوصیات، امتیازات اور فنی کمالات پر کما حقہ روشنی ڈالی ہے۔ کلیم عاجز کی نظم نگاری کے حوالے سے یہ مضمون بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے آغاز میں وہ شکوہ کناں ہیں :
 " ۔۔۔۔حیرت کا مقام یہ ہے کہ نقادوں نے ان کی نثر نگاری، رباعیات وقطعات یہاں تک کہ نعت گوئی اور سہرا نگاری تک کو موضوع گفتگو بنایا ہے لیکن ان کی ایک اہم صنفی کاوش یعنی نظم نگاری پر توجہ مبذول نہیں کی ہے جبکہ ان کی تحریر کردہ نظموں کی تعداد پچاس (50) سے بھی زیادہ ہے اور ان میں موضوعات کا تنوع بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ " (ص:69) 
پروفیسر توقیر عالم نے اپنے اس مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ 
" عاجز پہلی بار اردو نظم کی طرف اس وقت متوجہ ہوئے جب پٹنہ سائنس کالج کے پرنسپل اور کالج کے" بزمِ سخن " کے صدر ڈاکٹر احسان جلیل نے ان سے ایک استقبالیہ نظم کی فرمائش کرڈالی۔ یہ موقع دراصل وہ تھا جب 1975 میں سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین بہار کے گورنر بن کر پٹنہ تشریف لائے تھے۔ اس موقع سے کلیم عاجز نے ایک نسبتاً طویل نظم بعنوان "مسافر " سپردِ قلم کی جو 33 اشعار پر مشتمل تھی۔۔۔۔کلیم عاجز کی یہ اولین نظم ان کے کلیات میں شامل چوتھے شعری مجموعے "کوچہئہ جاناں جاناں" میں صفحہ 546 پر درج ہے۔" (70-69 )
 پروفیسر توقیر عالم نے نظم "مسافر"، "جشن بہاراں"، "جشنِ آزادی" ، "مبارکباد" ، " یوم شاد" ،" انجم"، "کلیم الدین احمد"، "نانک"، "زاہدہ" اور "حیدرآباد " کو کلیم عاجز کی دس سرفہرست نظموں میں شمار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں واضح کیا ہے کہ
 " کلیم عاجز کی کلیات میں شامل پانچ شعری مجموعوں میں سے ایک  مجموعہ " کوچۂ جاناں جاناں " پورے طور پر نظموں پر مشتمل ہے جبکہ مجموعہ " پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا "۔ میں صفحہ 738 سے761 تک دیباچوں کے ساتھ جستہ جستہ سترہ نظمیں درج کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی نظموں کی تعداد 55 تک پہنچتی ہے جن میں مرثیے، سہرے اور نعتیں شامل نہیں ہیں۔ "(ص: 72) 
بہر حال ! اس پورے جریدہ کے مطالعہ کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہی ہے کہ یقیناً اس خصوصی شمارہ کی دستاویزی حیثیت ہے اور اس کا کریڈٹ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد توقیر عالم کو دیتا ہوں جنہوں نے شعبہ اردو کے اساتذہ اور دیگر قلمکاروں، فنکاروں اور ادیبوں کے مشترکہ تعاون سے اس کو دستاویزی حیثیت دینے میں نمایاں وکلیدی کردار نبھایا ہے۔