دریائے نیل کا دنیائے اردو کو بے مثال تحفہ

مصر میں بسنے والی ڈاکٹر ولاجمال العسیلی، اُردو کے عشق میں سرشارمیں نیل کے کناروں پہ بستی 
ہوں، لیکن میری نگاہوں میں گنگا، جمنا روی اور چناب رہتے ہیں : ڈاکٹر ولا جمال العسیلی
محمد اشفاق
دریائے نیل کے زرخیز کنارے، پراسرار طور پر خاموشی میں لپٹے ہوئے اہرام مصر کے بارے میں سوچتے ہوئے یہی چیزیں ہمارے ذہن سے ٹکراتی ہیں۔ لیکن دنیائے اردو کے سپاہی جب اس پر اسرار سرزمین کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان چیزوں کے علاؤہ اہرام مصر، دریائے نیل کی زرخیز مٹی اور فرعونوں کی زندگی کی پر اسراریت کے علاؤہ بھی ایک خیال ذہن کے گوشوں سے ٹکرا جاتا ہے ایک ایسی شخصیت کا خیال جس نے ناقابل یقین حد تک عربی النسل ہوتے ہوئے مصر کی پر اسرار سرزمین پہ اردو کی آبیاری کر رہی ہیں اور پچھلے کئی برسوں سے پیدائشی طور پر اردو بولنے اور لکھنے والوں کو اپنی لاجواب تخلیقات کے ذریعے حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ برصغیر میں اُردو شاعری و ادب کے ساتھ شغف رکھنے والاہر شخص ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا نام ضرور جانتا ہوگا، اس نام میں ایک راز پنہان ہے،بالکل مصر کی پر اسرار سرزمین کی طرح، یہ نام ایک عربی خاتون کا ہے لیکن، اس نام کے ساتھ دنیائے اردو کی کئے شعری، اور افسانوی مجموعے منسوب ہیں۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں رہنے والی یہ خاتون ادیبہ ،قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں بطورِ ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، لیکن عربی ماحول میں پرورش پانے والی یہ شاعرہ اور ادیبہ برصغیر کے کسی اردو کے مرکز میں رہنے والی لگتی ہیں، اگر مصر میں برصغیر میں رہنے والا کوئی شخص ان سے گفتگو کر کے تو اسے گمان تک نہیں ہوگا کہ جس شخصیت کے ساتھ وہ محو گفتگو ہے وہ مصر کی مستقل راہشی ہیں۔
ڈاکٹر ولاجمال العسیلی، خود اپنے بارے میں لکھتی ہیں۔
"میں نیل کے کنارے بستی ہوں، لیکن نگاہ میں گنگا جمنا، روی اور چناب ہیں"
یعنی کہ ہندوستان ڈاکٹر ولا ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب سے بے حد متاثر ہیں اور ہندوستان کے باشندوں کے ساتھ انہیں محبت ہے۔ڈاکٹر ولا کی اردو شاعری افسانے اور مضامین تو متاثر کن ہیں ہی، لیکن ساتھ میں ان کی شخصیت بھی انتہائی متاثر کن ہے، طبعیت میں ٹھہراؤ، نرم گوئی، مہذبانہ رویہ ، اور حاضر جوابی ان کی شخصیت کے اچھوتے پہلو ہیں۔ڈاکٹر ولا جمال جہاں اپنی درد بھری شاعری اور سبق آموز افسانوں کے ذریعہ اُردو شعر و ادب  کے ہزاروں متوالوں کے دلوں پہ راج کرتی ہیں وہیں مصر کی مختلف روایات، رسومات اور تواریخ کے متعلق اردو میں لکھ کر برصغیر میں مصریات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں پر احسان عظیم بھی کر رہی ہیں۔ڈاکٹر ولا جمال السعیلی، اُردو زبان میں کئی کتابیں لکھ چکی ہیں جن میں شعری اور افسانوی مجموعوں کے علاؤہ مضامین بھی شامل ہیں۔ان کی کی لکھی ہوئی کتابوں میں ، دیفداسی (شعری مجموعہ) سمندر ہے درمیان،  الملاح، اردو شاعری میں قومیت اور وطنیت کے تصورات، اور عربی و اردو میں معاصر حسینی شاعری کے نام قابل ذکر ہیں۔ان کتابوں کے علاؤہ ڈاکٹر ولاجمال درجنوں مضامین،  فیچرز، اور انشائیے بھی مصر سے دنیائے اردو کو تحفے میں پیش کر چکی ہیں۔اُردو شعر و ادب کے ساتھ جنون کی حد تک دلچسپی رکھنے والی ڈاکٹر ولا جمال العسیلی، کو دنیائے ادب کے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔مصر کی سرزمین پہ اردو زبان کی خوشبو کو بکھیرنے والی یہ شاعرہ اردو ادب پہ جو احسان کر رہی ہیں وہ آج کے اردو مخالف دور میں ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے بہر حال ڈاکٹر ولاخود لکھتی ہیں "کہ مجھے اردو سے عشق ہے " اور ہر عقلمند انسان عشق کی خصوصیات سے واقف ہے، عشق خدا سے ہو کسی شخص سے ہو یا کسی چیز سے ہو انسان کو عاشق، ولی اور پروانہ بنا دیتا ہے۔