
الحیات نیوز سروس
ہزاری باغ : ریٹائرڈ ڈپٹی لیبر کمشنر شاہ نواز احمد خاں نے چیرمین مولانا آزاد اسٹڈی سرکل کی حیثیت سے اپنے در غریب پگمل محلہ واقع الفلاح کالونی ہزاری باغ میں چند اہل ادب کی معیت میں مولانا آزاد کی 67ویں/برسی کے موقع پر مولانا آزاد کو ان کی ہمہ جہت ملکی، دینی، صحافی اور سیاسی خدمتوں کے تناظر میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ مولانا آزاد کو خراج عقیدت پیش کیا۔اپنے ابتدائیہ کلام میں شاہنواز احمد خاں نے کہا کہ آزاد ہندوستان کی سیاست میں آبروئے حریت بن کر ابھرے۔جب الہلال اور البلاغ کی پے در پے شعلہ بیانی سے قیصر ہند کے آنکھوں کی نیند حرام ہو گئ تو حکومت برطانیہ نے مولانا کے وجود کو اپنی سلطنت کے لئے مضر جانتے ہوئے بنگال سے ان کے اخراج کا حکم صادر کردیا۔ہندوستان کی کوئی ریاست آزاد کو اپنے قلمرو میں پناہ دینے کو تیار نہ ہوئی۔ناچار آزاد کے لئے رانچی کی سرزمین نے آزاد کا استقبال کیا جہاں مولانا آزاد نے نظربندی کے پونے چار سال گذارے لیکن یہاں بھی انھوں نے قوم وملت کی شیرازہ بندی کے لئے پر عزم ہو کر خدمت خلق کا کام کیا۔پہلے انجمن اسلامیہ کا قیام کیا انجمن کے قیام میں رانچی کے ہندو بھائیوں نے دل کھول کر مولانا کا ساتھ دیا۔اس کے بعد ١٩١٧/ میں آزاد نے رانچی کے مسلمانوں کے لئے مدرسہ اسلامیہ اپر بازر کی بنیاد رکھی اس مدرسہ کی سنگ بنیاد مہاراجہ راتو نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔مولانا کی اس کوشش سے ہندو مسلم کے درمیان ایسی یگانگت بڑھی جس کی مثال اس ہندوستان میں نہی ملتی رانچی کے ہندو بھائ مولانا کو ایک اوتار کے روپ میں دیکھتے تھے۔انھوں نے مولانا سے گذارش کی کہ وہ ان کا پربچن سننا چاہتے ہیں چنانچہ ان کی خواہشوں کی تکمیل میں آزاد نے اپر بازار کی مسجد میں انھیں بلایا اور وہ بصد شوق مولانا آزاد کا پربچن ہر جمعہ کو سننے لگے۔جناب خان نے اپنی تقریر کی وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ آزاد کی متحدہ قومیت کے باب میں خدمت عالیہ ہندوستان کے ہر شہری کے لئے مثالی ہے آج کے حالیہ تناظر میں اس پر کھلے منچوں سے گفتگو ہونی چاہئے۔دوسرے مقرر ڈاکٹر ظفراللہ صادق نے اپنے دادا مولانا حبیب اللہ کے حوالہ سے کہا کہ وہ مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ کے اولین فارغین میں تھے ان کی علمی اور قومی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آزاد نے انھیں مدرسہ اسلامیہ رانچی کی معلمی سونپی یہ ایک بڑا اعزاز تھا جو مولانا کی خصو صی توجہ سے ان کے دادا مرحوم کو نصیب ہوا۔مولانا حبیب اللہ نے مولانا کی رانچی سے روانگی کے بعد ایک لمبے عرصہ تک اپر بازار کی مسجد میں خطابت کی ذمّہ داری سنبھالی رانچی والے انھیں آزاد ثانی کے نام سے جانتے تھے۔ڈاکٹر موصوف نے اپنے تاثرات کے آخری جملہ میں حسرت بھرے انداز میں کہا کہ آج کی نسل مولانا آزاد کے ساتھ اپنے اکابرین کو بھی بھولتی جارہی ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ابوالفیض ہاشمی عرف نٹ کھٹ عظیم آبادی نے مولانا آزاد کی ایک غزل پڑھی جس کا ایک مصرع تھا پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی۔عربی کے اسکالر راذی ابو ذر نے کہا کہ مولانا آزاد صحیح معنوں میں مفکر اسلام اور مفسر قرآن تھے وہ زندگی کے ہر مسائل میں براہ راست قرآن سے رجوع کرتے تھے ان کی تمام نگارشات اس کی گواہ ہیں۔ملت ایکڈمی کے ڈائرکٹر اختر حسین نے کہا کہ مولانا آزاد ہندو مسلم ایکتا کی منھ بولی تصویر تھے انھوں نے آخری وقت تک ٹو نیشن تھیوری کو قبول نہی کیا۔ملک کے بٹوارے کا انھیں شدید غم تھا وہ عالم انسانیت کے مستند ترجمان تھے۔
نشست کی صدارت کرتے ہوئے ونوا بھاوے یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ہمایون اشرف نے موقع پر اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ محفل آراستہ کی گئی ہے اس کے لئے اس کے منتظم کار ماہر ابو الکلامیات جناب شاہنواز احمد خان مبارکباد کے مستحق ہیں- حاضرین مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستانی تاریخ کی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں- بیسویں صدی کی مذہبی، فکری اور سیاسی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس پر مولانا آزاد اثرانداز نہ ہوئے ہوں-
مولانا نے ایک طرف قید و بند اور دار و رسن کی آزمائشوں میں زندگی گزاری اور دوسری طرف اپنی قوم بالخصوص مسلمانوں کی فکری قیادت کا مشکل فریضہ انجام دیا-سر سید نے مسلم فرقے کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا اور مذہب کو عصری زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی-مولانا آزاد نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے سر سید کے اس مشن کو آگے بڑھایا لیکن سیاسی نظریات میں ان سے اختلاف کیا - سرُسید برطانوی حکومت کے حامی تھے اور اپنے فرقے سے بھی وہ یہی مطالبہ کرتے تھے لیکن مولانا آزادُ ابھی نوجوان ہی تھے جب ان میں غیر ملکی تسلط کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا اور اسی جذبے کے زیر اثر انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی کی رہنمائی کی -
مولانا آزاد بڑی متنوع شخصیت کے مالک تھے- عالم دین، سیاسی مدبر، تاریخ داں، فلسفی، ادیب، خطیب، صحافی اور ہر حیثیت میں منفرد-ایسے غیر معمولی انسان بار بار پیدا نہیں ہوتے- ہمیں اپنے اسلاف کو یاد کرتے ہوئے ان کے منفرد اور عظیم الشان کارناموں سے واقف کرانے کے لئے اس طرح کے تقاریب کا اہتمام کرنا چاہئے- امید قوی ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا-۔آخر میں اس مذاکرہ کو اس عہد کے ساتھ موقوف کیا گیا کہ اہل ہزاری باغ گاہے گاہے اپنے بزرگوں کو یاد کرتے رہیں گے۔