
مسجد جعفریہ میں مرحوم ابوذر عثمانی کی یاد میں تعزیتی نشست کا انعقاد الحیات نیوز سروس رانچی: مجلس ادب کے زیر اہتمام مسجد جعفریہ کیمپس میں حضرت مولانا سید تہذیب الحسن رضوی کی سرپرستی میں مرحوم ابوذر عثمانی کی یاد میں تعزیتی نشست و دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت سید غفران اشرفی نے کی اور نظامت نوجوان شاعر سہیل سعید نے کیا۔ نشست کی شروعات نوجوان حافظ دانش ایاز شبلی کی تلاوت قران پاک سے ہوئی۔ تعزیتی نشست میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس، سینیئر صحافی مظفر حسن، سینیئر صحافی وکیل احمد رضوی، غفران اشرفی، سماجی کارکن سمیع آزاد، دلشاد نظمی، سنٹرل محرم کمیٹی کے جنرل سیکرٹری عقیل الرحمن، سید نہال حسین سریاوی، اقبال فاطمی، اشہد کریم، قصر الزماں، محمد غالب نشتر، سید ہارون خمار، ڈاکٹر زاہد حسین، عزیر حمزہ پوری، سید عرش، اردو شکچھک سنگھ کے امین احمد، مقصود عالم،ایس علی، محمد اقبال، عبدالحد، محمد مکرم، سیدنہال احمد، محمد احسان الحسن، ایس ایم آصف، مقصود ظفر، سید اقبال، صحافی عادل رشید، ان میں سے کئی لوگوں نے پروفیسر ابوذر عثمانی سے اپنے رشتے اور ان کے کیے ہوئے کاموں کے بارے میں بتایا۔ دعا کرو اللہ مغفرت کرے ان کی، ستون اردو ادب تھے ابوذر عثمانی۔ وہیں حضرت مولانا سید تہذیب الحسن رضوی نے اپنے درینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابوذر عثمانی بے زر سے ابوذر بنے۔ وجہ صرف ان کا اپنا کردار تھا۔ ابوذر عثمانی اردو کے ستون کا مینارہ تھا۔ آج وہ نہیں ہے، مگر ان کی تحریریں اور ان کی فکریں قوم کے ساتھ ہیں۔ وہیں صحافی مظفر حسن نے کہا کہ ابوذر عثمانی زبان ہی کے محافظ نہیں تھے، بلکہ قوم کو اعلی مقام دینا چاہتے تھے۔ سینیرصحافی ڈاکٹر وکیل احمد رضوی نے کہا کہ ابوذر عثمانی صاحب کی زندگی اردو انکا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب گئے۔ ایس علی نے کہا کہ ہم ابوذر صاحب کے مقصد کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ سینٹرل محرم کمیٹی کے عقل الرحمن نے کہا کہ ابوذر صاحب اردو کے تناور درخت ہے جو سوکھ گیا۔ مگر سماج میں ہریالی پیدا کر گیا۔ وہیں اقبال احمد نے کہا کہ ابوذر عثمانی کی فکر کو زمانہ ہمیشہ سلام کرے گا۔ سماجی کارکن سمیع آزاد نے ابوذر صاحب کو اخلاق و مروت کا پاسبان بتایا۔ غفران اشرفی نے ابوذر صاحب کو قوم کے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ تھا جو ہم سب سے رخصت ہو گیا۔ انکے علاوہ کئی لوگوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔