کانگریس طے کرے جمہوریت کے ساتھ ہیں یا مودی کے ساتھ ؟

مرکز کے آرڈیننس کو روکنے کی تیاری میں اروند کیجریوال کی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سے ملاقات 
الحیات نیوز سروس 
رانچی ،02؍جون:دہلی میں افسران کے ٹرانسفر پوسٹنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ آرڈیننس لایا تھا۔ اس کے خلاف دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اپوزیشن سے حمایت مانگ رہے ہیں۔ انہیں اب تک کئی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم اس معاملے پر کانگریس کا موقف ابھی تک نظر نہیں آرہا ہے۔دریں اثنا، جمعہ کو کیجریوال نے کہا کہ ہم نے کانگریس سے وقت مانگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ وہ ضرور وقت دیں گے اور پارلیمنٹ میں اس آرڈیننس کو گرانے میں بھی مدد کریں گے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی بھی جماعت اس آرڈیننس کے حق میں کیسے ووٹ دے سکتی ہے؟جیسا کہ میں نے کہا، یہ میری لڑائی نہیں، پورا ملک دیکھ رہا ہے اورپورا ملک دیکھے گا۔ کانگریس کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جمہوریت، آئین اور ملک کے 140 کروڑ عوام کے ساتھ ہے یا مودی جی کے ساتھ۔کیجریوال نے یہ باتیں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سے رانچی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد کہیں۔ وہ مرکز کے آرڈیننس کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیمنت تک پہنچے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جھارکھنڈ کے وزیر اعلی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ دہلی کے لوگوں کو آج جھارکھنڈ کے لوگوں کی حمایت ملی ہے۔20 مئی کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر آرڈیننس لایا تھا۔ اس کے بعد 21 مئی کو نتیش کمار نے اروند کیجریوال سے ملاقات کی۔ نتیش نے کجریوال کا ساتھ دیا۔ 22 مئی کو بہار کے سی ایم نتیش نے اس معاملے پر کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد خبریں آئیں کہ کانگریس نے بھی اس معاملے پر کیجریوال حکومت کی حمایت کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم بعد میں پارٹی رہنماؤں نے اس کی تردید کی۔کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی نے 29 مئی کو دہلی اور پنجاب کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ میٹنگ میں اس بات پر غور کیا گیا کہ آیا کانگریس کو مرکز کے آرڈیننس کے خلاف اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کی حمایت کرنی چاہیے۔
 کیجریوال کی حمایت کو لے کر پارٹی لیڈر دو گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر مرکزی حکومت راجیہ سبھا کے مانسون اجلاس میں آرڈیننس سے متعلق کوئی بل لاتی ہے تو ہمارے ممبران پارلیمنٹ اس کی مخالفت کریں گے۔