اردو کا مسئلہ ہمارے آئین اور قومی یک جہتی کا مسئلہ ہے: ڈاکٹر نیرج سنگھ
آل انڈیا اردو کنونشن میںہندستان کے معروف ہندی اور اردو کے مصنفین اور ری سرچ اسکالروں کا اجتماع
الحیات نیوز سروس
رانچی: ۶؍ اپریل: اردو زبان کی دو اہم خصوصیات ہیں، ایک اس کا تلفظ اور دوسرے اس کا رسم الخط۔اور ان دونوں کا تحفظ بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کے تحفظ اور بقا کے لیے انجمن جمہوریت پسند مصنفین اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ آل انڈیا اردو کنونشن کے اس کانفرنس میں نئی نسل کے افراد کافی تعداد میں شریک ہوئے ہیں اور یہ اس کنونشن کو نمایاں حیثیت عطا کرتا ہے۔ مندرجہ باتیںانجمن جمہوریت پسند مصنفین کے ذریعہ منعقد’’ آل انڈیا اردو کنونشن‘‘ میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر علی امام نے کہیں۔
آل انڈیا اردو کنونشن کی استقبالیہ کمیٹی کے چیرمین پروفیسر فیروز احمد نے خطبۂ استقبالیہ میں جھارکھنڈ کے ادبا و شعرا کو یاد کیا اور خصوصی طور پر الیاس احمد گدی، غیاث احمد گدی، ش۔ اختر، وہاب دانش،پرکاش فکری، زکی انور،وہاب اشرفی، صدیق مجیبی،صریر کابری، مہجور شمسی، نادم بلخی ، شعیب راہی، منظرکاظمی، شیدا چینی، ظہیر غازی پوری، گربچن سنگھ کی خدمات کا اعتراف کیا۔
اس سے قبل انجمن جمہوریت کے ذریعہ منعقدہ دو روزہ ’’آل انڈیا اردو کنونشن-۲۰۲۳‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو(ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے فرمایا کہ اردو کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک آپ کے بچے اردو نہ پڑھیں۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اردو ہندی کو اپنے وجود کی لڑائی تو لڑنی ہی ہے، اسی کے ساتھ تمام اہم ہندستانی زبانوں کی لڑائی بھی لڑنی ہوگی۔
آل انڈیا اردو کنونشن کے افتتاحی اجلاس میں انجمن ترقی پسند مصنفین، رانچی کے صدر مہادیو ٹوپو نے اردو کی تاریخ کے حوالے سے اہم گفتگو کی اوراردو ہندی کے جھگڑے کی بنیادی وجہ انگریزوں اور ان کی پالیسی کو بتایا۔ اسی زمانے سے اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ روا رکھا گیا ہے لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمیں اردو اور ہندی کو گیان کی بھاشا کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔جن سنسکرتی منچ کے صوبائی سکریٹری جناب زیویئر کوجور نے اپنی تقریر میں سی اے اے اور این آر سی اور دیگر سابقہ واقعات کا ذکر کیا جس کے ذریعہ مذہبی منافرت پھیلانے کا کام ہوا ہے اور ہندی اردو اور دیگر زبانوں کے ادبا و شعرا کو مل کر اس کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔اس کنونشن کے ذریعہ اردو ہندی اور آدی باسی ادب کو ایک دوسرے سے قریب ہونے میں مدد ملے گی۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت انجمن جمہوریت پسند مصنفین کے کارگزار قومی صدر ڈاکٹر چنچل چوہان نے ملک میں اردو کی صورتِ حال اور اس کے ساتھ ہونے والے برتاو پر روشی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو کے ساتھ مل میں جو رویہ ہے اس دیکھ کر کافی تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن دیگر زبانوں کا بھی حال اچھا نہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی ہوگی ۔ ہماری بکھری ہوئی کوششوں کی وجہ سے ہی ہمیں کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔ لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت آل انڈیا اردو کنونشن کے کنوینر جناب ایم ۔ زیڈ۔ خان نے کی۔ انھوں نے کنونشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اس پروگرام کے سلسلے سے کی گئی کاوشوں کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کنونشن میں جھارکھنڈ کے مایہ ناز ادبیوں اور شاعروں کو خصوصی طور پر یاد کیاگیا ہے۔الیاس احمد گدی، غیاث احمد گدی، ش۔ اختر، وہاب دانش،پرکاش فکری، زکی انور،وہاب اشرفی، صدیق مجیبی، مہجور شمسی، نادم بلخی ، شعیب راہی، منظرکاظمی، شیدا چینی، ظہیر غازی پوری، گربچن سنگھ یہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے جھاکھنڈ کو نمایاں شناخت عطا کی ہے۔ ہم نے ان کے نام سے خصوصی باب پروگرام میں لگوائے ہیں تاکہ ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔
پروگرام کا پہلا سیشن ’اردو ہندی کے تخلیقی رشتے: ماضی اور حال‘‘ کے عنوان سے تھا۔ اس کے تحت کولکاتا سے تشریف لائے ڈاکٹر سنت رام نے لسانی اور تاریخی حوالوں سے اردو اور ہندی کے تخلیقی رشتے پر روشی ڈالی۔ انھوں نے امیر خسرو اور رحیم و رس خان کے کلام سے لسانی ہم آہنگی کے نمونے پیش کیے اور بتایا کہ قدیم دور سے لے کر اب تک کس طرح اردو اور ہندی زبان کی روایت آپس میں مل کر چلتی رہی ہے۔ڈاکٹر سنت رام کے علاوہ ڈاکٹر تسنیمہ پروین نے ’’اردو ہندی کے تخلیقی رشتے: ماضی اور حال‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا اور ڈاکٹر عالم آرا نے ’’اردو اور ناگ پوری زبان کا رشتہ ‘‘ عنوان سے کافی دل چسپ مقالہ پیش کیا۔اجلاس کی نظامت انجمن جمہوریت پسند مصنفین کے جنرل سکریٹر ڈاکٹر سنجیو کمار فرما رہے تھے۔
افتتاحی اجلاس میں آل انڈیا اردو کنونشن کے یادگاری مجلہ کا اجرا بھی کیا گیا۔ ساتھ میں زاہد خان کی ہندی کتاب’پودے‘ جو کہ کرشن چند کااجرا ہوا۔یہ ایک رپورتاژ ہے جس کا ہندی ترجمہ اس کتاب کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ اردو کنونشن اردو کے فروغ اور اردو ہندی کے رشتوں کو بحال کرنے میں میل کا پتھر ثابت ہو، ایسی امید کی جاتی ہے۔ کنونشن کے دونوں اجلاس میں کثیر تعداد میں ادبا ، شعرا اور اردو اساتذہ اور ری سرچ اسکالروں نے شرکت فرمائی۔ کل بھی اس آل انڈیا کنونشن کے باقی اجلاس اور اختتام پر مشاعرہ کا انعقاد کیا جائے گا۔