نفرت انگیز تقریر پر سپریم کورٹ کا سخت موقف

ریاستوں کو ہدایات، مذہب کو دیکھے بغیر درج کریں ایف آئی آر
نئی دہلی،28؍اپریل(ایجنسی) نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات میں، ملزمان کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، تاکہ آئین کے دیباچے میں تصور کیے گئے ہندوستان کے سیکولر کردار کی حفاظت کی جاسکے۔ جمعہ کو یہ تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریر کے معاملے میں فوری طور پر ایف آئی آر درج کریں۔عدالت نے کہا کہ کسی بھی قسم کی نفرت انگیز تقریر میں ریاستوں کی پولیس کو کسی رسمی شکایت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے اور خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرنا چاہئے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ایسے معاملات میں کسی قسم کی کوتاہی کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ جہاں کہیں بھی کسی قسم کی نفرت انگیز تقریر کی جائے گی، وہاں کی پولیس بغیر کسی تفریق کے فوری طور پر اس کا نوٹس لے گی اور ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومتیں اس سلسلے میں اپنے عہدیداروں کو ہدایات جاری کریں، تاکہ جلد از جلد مناسب قدم اٹھایا جاسکے۔عدالت نے اس سے قبل دہلی، اتراکھنڈ اور یوپی پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ نفرت انگیز تقریر کے معاملات میں اپنے طور پر ایف آئی آر درج کرے۔ لیکن اب ملک کی تمام ریاستوں کو ایسا کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔گزشتہ کچھ وقے میں نفرت انگیز تقاریر کے کئی واقعات دیکھے گئے ہیں۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔ ان مقدمات میں عدالت نے حکومتوں کے خلاف سخت تبصرے بھی کیے گئے۔ گزشتہ ماہ ہی سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریر سے متعلق اسی معاملے میں کہا تھا کہ جب سیاست اور مذہب کو الگ کر دیا جائے گا اور لیڈر سیاست میں مذہب کا استعمال بند کر دیں گے تو نفرت انگیز تقریر بند ہو جائے گی۔ انہوں نے ملک کے سابق وزرائے اعظم جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپائی کی تقریروں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ لوگ انہیں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔