میرٹھ کے گاؤں پلڑا میں مسلم مخالف تشدد

گھروں اور فصلوں کو جلا دیا گیا، لوگوں میں خوف و ہراس میرٹھ،12؍اپریل(ایجنسی)میرٹھ کے ہستیناپور علاقہ کے گاؤں پلڑا میں پردھان سے رنجش کی وجہ سے ایک نوجوان کا قتل ہو گیا، جس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک اٹھی۔ ویشو نامی نوجوان کے قتل کے بعد پیر کے روز جب میت کو آخری سفر پر لے جایا جا رہا تھا تو یاترا میں شامل لوگوں نے اقلیتی برادری کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ ان کی فصلوں کو نذر آتش کر دیا۔ مجبوراً متعدد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے۔ گاؤں میں بڑی تعداد میں پولیس کی تعیناتی کی گئی ہے۔ ایس ایس پی خود حفاظت کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ سنگینوں کے سایہ میں امن قائم ہو گیا ہے لیکن خطرہ برقرار ہے۔ آئی جی میرٹھ نچیکیتا جھا بھی گاؤں کا دورہ کر چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 9 اپریل اتوار کو 21 سالہ ویشو کا شام 6 بجے کھیل کے میدان میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل میں شامل لوگ علی الاعلان یہ کہہ کر گئے کہ یہ گاؤں کے پردھان سے رنجش رکھنے کا نتیجہ ہے۔ قتل کے بعد پولیس نے مہلوک ویشو کے والد کی طرف سے گاؤں کے پردھان گجندر سنگھ، انس، عرافات، شاہ نظیر، اکرم اور کیف کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی۔ پولیس نے پردھان گجندر کو گرفتار کر لیا، جبکہ بقیہ ملزمان مفرور ہیں۔ قتل کے اگلے دن مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ فساد کے دوران خواتین اور بچوں نے گھنٹوں دہشت میں گزارے اور نامعلوم مقام پر چھپ کر رہے۔ اس کے بعد وہ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔ بعد میں آئی جی اور ایس ایس پی نے آکر حالات کو قابو میں کیا۔واقعہ کے تیسرے دن بھی گاؤں میں کرفیو جیسا ماحول ہے، لوگ صرف ضروری کاموں کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔ گاؤں کی ایک خاتون اسما کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دو راتوں سے سو نہیں پائی۔ ایک اور شخص افضل کا کہنا ہے کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، پھر بھی اس کی 5 بیگھہ فصل کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ گاؤں کے بھرت سنگھ کا کہنا ہے کہ قتل افسوسناک ہے اور مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔ جن لوگوں نے گھروں اور فصلوں کو آگ لگائی، وہ میت میں شرکت کے لیے آئے تھے اور وہ سب باہر کے لوگ تھے۔جسمانی طور پر معذور آسو کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ کون سی فصلیں اور گھر مسلمانوں کے ہیں؟ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ پرتشدد ہنگامہ آرائی کے دوران نواب الدین کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور مذہبی مقام میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ پولیس نے شرپسندوں کو روکنے کی کوشش کی، تو ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی۔ فسادیوں سمنت، اکشے، منیش، روہت، منگل، سشیل بھڑانہ، راجیش روہلا وغیرہ سمیت 150 کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔منگل کو ارشد، الیاس، عتیق احمد، سعود نے ایس ایس پی سے ملاقات کی اور سیکورٹی اور آتشزدگی سے فصلوں کی تباہی، نصف درجن گھر جلنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایس ڈی ایم موانہ اکھلیش یادو نے بتایا کہ نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے گاؤں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور حالات اب مکمل طور پر قابو میں ہیں۔ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے ایس ایس پی روہت سجوان نے منگل کو بھاری پولیس فورس کے ساتھ گاؤں میں فلیگ مارچ بھی کیا، وہ متاثرہ خاندان کے گھر بھی پہنچے۔پولیس کی یقین دہانی کے بعد بھی گاؤں کی اقلیتی برادری میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ جمیلہ دو دن بعد گاؤں واپس آئی تو اپنے جلے ہوئے گھر اور فصلوں کی راکھ کو دیکھ کر رو پڑی۔ اس نے روتے ہوئے کہا ’’میرا اس جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں۔ جن لڑکوں پر فائرنگ کا الزام ہے وہ ہمارے پڑوسی ہیں اس لیے ہمارے گھر پر صرف اس لیے حملہ کیا گیا کہ وہ پڑوسی تھے۔ ہمارا سب کچھ جل گیا۔ عید آنے والی ہے، مگر ہماری خوشیاں برباد کر دی گئیں، ہمیں کس بات کی سزا ملی؟‘‘