تہذیب گنگ جمن کی شان ہے! اردو زبان

ازـ: مظفر نازنین، کولکاتا
9088470916
اردو ایک شیریں زبان ہے اور ہندوستان کی مختلف زبانوں سے ملکر بنی ہے گرچہ یہ زبان مکمل ہندوستانی نژاد ہے لیکن جس کی رگوں میں فارسی اور عربی کا لہو دوڑ رہا ہے چوں کہ یہ زبان مسلم دورِ حکومت میں اپنی صورت پا سکی اور بطور خاص اسے اس وقت کی فوجوں کے ذریعہ رواج پا سکی اس لیے لشکری زبان کہلائی۔ اس پیاری زبان میں جتنی چاشنی اور لطافت ہے شاید ہی کسی زبان میں ہو۔ 1724 ء میں اردو کے مایۂ ناز باعث افتخار، آسمانِ شاعری کے درخشاں ستارے میر تقی میرؔ آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شہر آگرہ اپنی لا ثانی میں شاہکار فن تعمیر کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔کیوں کہ یہی وہ شہر ہے جہاں مغل تاجدار شہنشاہ شاہجہاں نے تاج محل جیسی خوبصورت عمارت تعمیر کروائی جس کا شمار آج دنیا کے ہفت عجوبہ روزگار میں ہوتا ہے۔ لیکن میر تقی میرؔ نہ تو کوئی شہنشاہ تھے نہ ہی کسی شہنشاہ کے فرزند۔ ان کے پاس اپنے مال و زر تو نہ تھے کہ تاج محل جیسی خوبصورت عمارت تعمیر کرواتے لیکن اشعار کے گل و خشت سے ایسی عمارت تعمیر کر گئے جس پر آب و آتش، خاک، باد میں سے کچھ بھی اثر نہیں کر سکتا۔تاج محل جسے دیکھنا ہو اسے چل کر جانا پڑتا ہے لیکن میرؔ کے اشعار کسی مقام سے وابستہ ہو کر نہیں رہ گئے بلکہ خفیہ جوگی اور بہتی ندی کسی طرح دیش بدیش میں چلے جاتے ہیں۔ ان کے کلام کی تعریف کرتے ہوئے غالب دہلوی نے کہا تھا  ؎
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
محمد حسین آزاد نے ’’نیرنگ خیال‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ وہ اردو کے میدان میں سوار نہیں بلکہ پیادہ ہیں۔ یہ محض ان کا انکسار ہے۔ وہ سوار ہی نہیں شہسوار ہیں جن کے ہاتھ میں اردو کا علم ہے۔ اس طرح فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جس وقت ہندوستان سیاسی بحران سے گزر رہا تھا پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ مغلیہ سلطنت کا شیر ازہ بکھر رہا تھا۔ اسی اردو زبان کے نظموں اور غزلوں سے قومی کا جذبہ ابھر ا اوران کے اشعار کو پڑھ کر جاں نثارانِ وطن نے وطن عزیز کے لیے اپنی جان تک نچھاور کر دی۔ ہندوستان جب سیاسی بحران سے گزر رہا تھا ۔ اردو شعراء کے ذہن و دل پر گہرا اثر پڑا انہوں نے برادران وطن کے ساتھ مل کر حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ شاعریاں رقمطراز ہے :
برسوں سے ہو رہا ہے برہم سماں ہمارا
دنیا سے مٹ رہا ہے نام و نشاں ہمارا
کچھ کم نہیں اجل سے خواب گراں ہمارا
ایک لاش بے کفن ہے ہندوستان ہمارا
’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر ہندوستان کو انگریزی سامراج کی غلامی کے شکنجے سے آزادی ملی۔ اردو زبان بر صغیر ہند و بنگ و پاک میں پھولی پھلی اور پروان چڑھی۔ تابناک ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو مسلم تو کیا غیر مسلموں نے بھی اردو زبان کی آبیاری کی۔ پنڈت برج نرائن چکبست ، دیا شنکر نسیم، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ، راجندر سنگھ بیدی جیسے عظیم شعراء نے اردو کو گلے لگایا اور اس کی بے لوث خدمت کی۔ سر زمین ہند نے بیشمار شعراء و ادباء پیدا کیے جنہوں نے مرثیہ، مثنوی،قصیدہ اور دیگر اصنافِ سخن میں طبع آزمانی کی اور اسے بام عروج پر پہنچایا۔ ہندوستان کا پہلا خلا باز راکیش شرما نے پہلی مرتبہ چاند کا سفر طے کیا اور چاند کی چاندنی میں اس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ان سے دریافت کیا کہ وطن وعزیز ہندوستان چاند سے دیکھنے پر کیسا معلوم ہورہا ہے تو اس بہادر خلاء باز کا جواب علامہ اقبال کی اس نظم کا پہلا مصرع تھا جسے انہوں نے اردو میں لکھا تھا :
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘
شیریں زبان اردو کی اہمیت کا اعتراف شعراء و ادباء ، مصنفین، محققین نے تو کیا ہی ایک بہادر خلاء باز نے آسمان سے بھی کیا۔ یہ ہے ماضی میں اردو کی داستان ، تہذیب گنگ و جمنی کی شان ہے اردو زبان۔
عصر حاضر میں اردو زبان کا جائزہ لیں تو اردو کی زبوں حالی ایسی ہے کہ جن طلبا و طالبات نے اردو میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ہے اورIFS, IAS ، ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، MBA یا دوسرے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، کچھ جو بیرون ملک خصوصاً یورپی ممالک میں آباد ہوئے انہوں نے سدا کے لیے اپنی مادری زبان اردو کو فراموش کر دیا۔ ان کے بعد آنے والی نسلیں اردو لکھنا، پڑھنا اور بعض اوقات بولنا بھی نہیں جانتیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو ان کے گھروں سے اس طرح رخصت ہوئی جیسے بیٹی بابل کا گھر چھوڑ کر زار و قطار آنسو بہا کر میکے سے سسرا ل چلی جاتی ہے اور پھر شاذ و نادر میکے میں قدم بوسی کرتی ہے۔ جو اردو داں ہندوستان میں بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے یہاں بھی کم و بیش ایسا ہی ماحول ہے۔ بچوں کو انگریزی میڈیم یا Convent اسکولوں میں داخلہ کرواتے ہیں۔ جہاں انگریزی فرسٹ لینگوئج ، ہندی یا کوئی ریاستی زبان سکنڈ لینگوئج اور اردو تھرڈ لینگوئج کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں اردو کا سیکھنا مشکل ہے۔ بیک وقت چار زبانوں پر قدرت حاصل کرنا آسان نہیں بقول داغ دہلوی :
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
کسی طرح اگر ٹان گھیسٹ کر پڑھنا آجائے تب بھی تقریری، تحریری اور تحقیقی صلاحیتیں پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
ایک دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اردو کو ذریعہ تعلیم مان کر تعلیم حاصل کی۔ لیکن معقول ذریعہ معاش کے لیے نہایت دشوار یوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بھی تلخ تجربے سے گزرے ہیں اور نہیں چاہتے کہ پھر تاریخ دہرائی جائے اور ان کی اولاد کو بھی ایسے مشکل دورسے گزرنا پڑے۔
کلکتہ یونیورسٹی شعبۂ انگریزی کی ایک ممتاز طالبہ جو اردو کے ماحول میں پلی بڑھی ہیں ۔ انہوں نے بھی اردو زبان کی شیرینی، لطافت کا اعتراف کیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اردو پڑھنے والوں کا دائرہ موجودہ دور میں بہت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ بیشتر لوگ اردو اخبارات اور رسائیل جن میں نصیحت آمیز مضامین شائع ہوتے ہیں پڑھتے ہی نہیں ، اردو لائبریری کی کمی ہے۔
یادِ ماضی عذا ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
خدا کرے ہماری یہ زبان پھولے پھلے پروان چڑھے۔ جس کی رعنائیوں کا اعتراف سنہرے ماضی میں ہندوستان کے نوابوں نے کیا تھا۔ اس ضمن میں ٹی وی اور ریڈیو نشر ہونے والے اردو پروگرام قابل ستائش ہیں۔