ڈاکٹر علامہ اقبال کی شاعری آج بھی قوم وملت کیلئے مشعلِ راہ

ازقلم:حسین قریشی
شعبہَ اردو ۔ ڈائیٹ بلڈانہ (مہاراشٹر)
 شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی یوم پیدائش کے موقع پرہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو سے محبت رکھنے والے اور اردو کی بقاء و ترقی کے لئے تن من دھن سے کوشش کرنے والے یوم اردو تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ جو ایک مؤثر و مفید عمل ہے۔ اردو سے ہماری اپنائیت ، انسیت اور محبت کو عیاں کرتی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے تمام عمر اردو ادب کی ترقی کے لئے وقف کیا تھا۔  پوری دنیا میں اردو ادب کو بلند مقام حاصل ہے۔ یہ ہمارے شعراء ، مصنف ، مضمون نگار اور دیگر ادباء کی دین ہیں۔ جس میں صفِ اول پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا نام درج ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اسی کالج سے علامہ اقبال نے شاعری کی ابتداء کی تھی۔ اپنے فن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی تھی۔ لاہور کے ایک جلسے میں انکے اس شعر کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ کئی ادبی شخصیتوں نے علامہ اقبال کو ابھرتا ہوا ستارہ قرار دیا تھا۔ 
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
رفتہ رفتہ یہ کوہ نور ہیرے نے دنیا کو سیراب کیا۔ علامہ اقبال نے نظم ،غزل بچوں کی سبق آموز نظمیں میں طبع آزمائی کی ہے۔ بچوں کے لئے بہت سی نظمیں لکھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلا مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل و تصور کا جز بنا دیا۔ آپ کی تحریر کردہ دعا پوری دنیا کے بچوں میں آج بھی مقبول ہے۔ آج بھی اسکولوں میں اسے پڑھایا جاتا ہے۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔
علامہ اقبال نے اپنے دور کے تمام پہلو پر موثر اور کارگر واقعات کو شاعری میں پیش کیا ہے۔ نوجوانوں میں حوصلے کا جذبہ ، عمدہ اوصاف اور بہتر اخلاق پر بہت سی نظمیں گیت اور کلام پیش کیا ہے‌۔ جس سے مثبت تبدیلیاں رو نما ہوئی۔ علامہ اقبال کے کلام میں جدیدیت تھی‌۔ وہ طلبِ علم کی غرض سے مختلف مقامات کے مسافر بنے۔ جہاں سے انھوں نے مختلف نظریات کا حصول کیا۔ لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897 تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا۔ علامہ اقبال جب 1905 میں قانون کی پڑھائی کے لئے بیرون ملک گئے تو وہاں پر فلسفۂ مغرب کو سمجھا۔ یورپی فلسفے کے بنیادی رجحانات سے واقفیت ہوئی۔ یہاں سے ہی علامہ اقبال کو ایک نئی سوچ ملی۔ ان کی شاعری میں ملت کے نام  پیغامات ، درس اوراسبا ق ملتے رہے۔ انھوں نے مغرب کے علوم و فنون اور انکے منصوبوں کو بھاپ لیا تھا۔ ان سے بیزاری کا اظہار انہی کی زبانی سنیے س طرح نظر آئی۔ کہ
 حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر 
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
 ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنیاد پر تعمیر
مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان میں قومی جذبہ پروان چڑھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جب 1911 میں بنگال کی تقسیم ہوئی۔  تو انھوں نے مسلمانوں کی جانب ذیادہ توجہ دی ہے۔ گرچہ وطن الگ الگ ہو مگر ہم ایک ہے۔ اس بات کو علامہ اقبال نے یوں سمجھایا ہے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہے ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
علامہ اقبال کی شاعری میں اردو کی انسیت اور اپنائیت نظر آتی ہے تو وہیں پر مسلمانوں کی کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی نوجوانوں کو بیدار کرتے ہیں ض۔ تو کبھی ہمارے رہنماؤں کو نئی سوچ ، نئی فکر دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری کی خاص خصوصیت یہ بھی  ہے کہ ان کی شاعری میں قرآن کی تفسیر نظر آتی ہے تو سنتوں کا بیان نظر آتا ہے جو قوم وملت کی دنیاوی و اخروی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے اہم ہے۔ اقبال کی تصانیف آج بھی کافی مقبول سمجھی جاتی ہے۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے اردو ادب کو پوری دنیا میں مشہور و مقبول کیا۔ جس کے ہر ملک میں ، ہر زبان میں قدر دان موجود ہیں۔ آج بھی علامہ اقبال کی شاعری ہمیں راہ دکھاتی ۔ امید، ہمت ، جذبہ ، مثبت سوچ  اور اخلاقیات کا درس ہم انکے کلام میں تلاش کر سکتے ہیں۔ انکے کلام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت اور الرام و تحریم کے ساتھ عظمت کے پھول ملتے ہیں۔ جو ایمان کو تازگی بخشتے ہیں۔  عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوکر وہ ہمیں درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 
شبے پیش خدا بگر یستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ این قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند
غرض ڈاکٹر علامہ اقبال کی تصانیف ، انکے کلام آج بھی قوم وملت کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بچے ہو ، نوجوان ہو یا بزرگ سبھی کی تشنگی کو سیراب کرتے ہیں۔ انھوں نے نئی نسل میں اسلامیت کی روح کو تروتذہ کیا۔ دنیا و آخرت کی فلاحی و کامیابی کا درس دیا۔ انکے فلسفۂ خودی کو آج بھی پوری توجہ کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ خود شناسی کے عنصر کو پیش نظر رکھنے سے انسان دونوں جہاں کی فلاحی حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح کے بے شمار کلام ملتے ہیں۔ 
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا ، نہ بن ، اپنا تو بن
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کوانتقال کر گئے۔ تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے۔ جو ہمیشہ قوم وملت کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔