نایاب قطعات کا مجموعہ’’ طوافِ آرزو‘‘ کے حوالے سے

 آسمان ِ شاعری کا درخشاں ستارہ ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ
از قلم  : مظفر نازنین،کولکاتا
9088470916
جنوبی ہند کے مایہ ناز ،باعث افتخار، آسمانِ شاعری کا درخشاں ستارہ ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ محتاج تعارف نہیں ۔ موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ وہ بیک وقت شاعر‘ ادیب‘ مدرس اور صحافی ہیں اورایک بابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ ان کی کتاب ’’طوافِ آرزو‘‘ جو نایاب قطعات کا مجموعہ ہے۔ 128صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ہر ہر لفظ گوہر نایاب کی مانند ہے۔ اور ایسا لگتا ہے جیسے موصوف نے اپنے قلم کو جنبش دیکر درِّنایاب صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ اس کتاب کو انہوں نے مظہر بھائی کے نام سے منسوب کیا ہے جن کے ساتھ ان کی سنہرے ماضی کے حسین لمحوں کی یادیں جڑی ہیں۔ مظہر بھائی جو اپنے علاقہ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شخصیت تھے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے صرف۲۹سال کی عمرمیںداعی اجل کو لبیک کہہ دیا ہے۔ خداانہیں (مظہر بھائی) کو کروٹ کروٹ جنت بخشے۔ ان کی مغفرت کرے۔ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ بس ان کے لئے یہ شعر ہی کافی ہے۔    ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
زیر مطالعہ قطعات کا مجموعہ’’طوافِ آرزو‘‘ کی اشاعت 2019 ؁ء میں ہوئی۔ اور اس کے ناشر اوصاف پبلی کیشن لاتور مہاراشٹر ہیں۔ ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب کی یہ بارہویں کتاب ہے۔ اس سے قبل گیارہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوئی ہے۔ جن میں بطور خاص چند اہم شعری مجموعے ہیں۔ جن کے نام ’’شہرِ دل‘‘، ’’برگِ صحرا‘‘، ’’سمندرکی لہریں‘‘اور اب طوافِ آرزو ہیں۔
کتاب کی فہرست یوں ہے۔
۱۔  تیز ہوائوں میں چراغ روشن کرنے والا فنکار  ۔  از:  ڈاکٹر محمد کلیم ضیاء (ممبئی)
۲۔  ماہر ِ علم و فن ،ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ ۔ از:ڈاکٹر نوید عبدالجلیل (ظہیر آباد)
۳۔  بیباک صحافی و لفظوں کا کھلاڑی ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ ،  از:  انصاری مشیر احمد (ممبئی)
۴۔  حسن وعشق سے معمور قطعات کا مجموعہ’’ طوافِ آرزو‘‘  از:  ساجد حمید(شموگہ)
۵۔  عشقیہ اور رومانی قطعات کا شاعر، ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ ۔ از: خلیل مامون(بنگلور)
۶۔  برگِ صحرا کے بعد۔۔۔  از:  ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ
۷۔  حمدیہ قطعات
۸۔  نعتیہ قطعات
۹۔  قطعات
ڈاکٹر محمد کلیم ضیاء صاحب (سابق صدر‘ شعبۂ اردو اسماعیل یوسف کالج جو گیشوری(مغرب) ممبئی صفحہ ۵ پر یوں رقمطراز ہیں۔
’’انہوں نے(ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ) عمر کی قلیل مدت میں یعنی زمانۂ طالبعلمی میں ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور یکے بعد دیگر  ایم۔اے اردو اور پھر عربی میں  گولڈ میڈل حاصل کئے۔ 
بعد ازاں مراٹھی اور تاریخ سے بھی ایم۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بی ایڈ کے بعد ایم ایڈ (اسکول مینجمنٹ) اور پھر بیچلر آف جرنلزم اینڈ میڈیا سائنس(BJ&MS)کی ڈگری حاصل کی۔ علم کی پیاس انہیں دکنی ادب سے پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ اور وہاں بھی گولڈ میڈلسٹ رہے۔ یہ تھی موصوف کی تشنگی علم جو انہیں بحرِ علم میںغوطہ زن ہوکر سیراب ہونے پر مجبور کیا۔‘‘
 جناب ڈاکٹر نوید عبدالجلیل (نائب صدر ادارہ ادب اسلامی کمیٹی ظہیر آباد ) لکھتے ہیں 
’’ریاست مہاراشٹر ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی قاضیؔ ،جو ایک سہ لسانی شاعر ہیں۔ وہ بیک وقت اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور مراٹھی جیسی زبان میں اپنے فن کے جو ہر دکھارہے ہیں ‘‘۔
صفحہ ۱۹ پر جناب انصاری مشیر احمد مدیر اعلیٰ ماہنامہ اردو آنگن(ممبئی) یوں رقمطراز ہیں کہ ان کی تحریر کردہ قطعات نفسِ مضمون کو جامع طریقہ سے بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں جن میں ان کی سوچ ان کی فکر ۔ ان کے تجربات مشاہدات نمایاں ہیں۔ صفحہ ۲۰ پر جناب ساجد حمید‘ شموگہ، کرناٹک نے اس کتاب کا جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں جہاں انہوں نے بہت سے رومانی‘ حسن و عشق سے معمور قطعات کہے ہیں وہیں انہوں نے عصر حاضر کی پیچیدہ زندگی‘ انتشار اور مرور وقت کے عکس کو بھی فنکار انہ انداز میں پیش کیا ہے۔ صفحہ ۲۵ سے باقاعدہ قطعات کا آغاز حمدیہ قطعات سے شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلا حمدیہ قطعہ ملاحظہ کریں جس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے موصوف بارگاہِ رب العزت کے دربار میں سجدہ ریز ہوکر دستِ بستہ ہاتھ پھیلائے ۔ دل شکستہ، چشمِ پرنم خدا سے لو لگائے ہوئے ہیں۔   ؎
پروردگار سُن میرے پروردگار سُن
ٹوٹے ہوئے دِلوں کی شکستہ پکار سُن
قاضیؔ خلیل تجھ کو سنائے گا بار بار
روداد زندگانی کی تو باربار سُن
حمد کے بعد صفحہ ۲۶ پر نعتیہ کلام میںڈاکٹرقاضیؔ خلیل بھی چاہتے ہیں نظر کے سامنے خیر الوریٰ کا آستانہ ہو۔ یوں رقمطراز ہیں  ۔   ؎
گنبدِ خضریٰ کی تھوڑی سی ہوا ہونا ہے
دل کی سوکھی ہوئی کھیتی کو ہرا ہونا ہے
اس لئے طالب دیدار ہے قاضیؔ کی نظر
اس کو سرکارِ مدینہ پہ فدا ہونا ہے
اپنے قطعہ میں ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں اور ماحول کا نقشہ آج وطنِ عزیز ہندوستان کی سیاسی، ثقافتی، معاشی منظر نامے سے متاثرہوکر صفحہ ۳۳ پر کہتے ہیں۔   ؎
پاگل ہوا سے برسر پیکار دیکھ کر
جلتے ہوئے مکانوں کا انبار دیکھ کر
قاضیؔ خلیل ناشتہ کرنے سے پیشتر
آنکھوں میں آنسو آگئے اخبار دیکھ کر
بلا شبہ کسی تصویر کو دیکھ کر مصوّر کی ،کسی تحریر کو دیکھ کرمحرر کی، کسی اشتہار کو دیکھ کر مشتہیرکی‘  تو کسی فن کو دیکھ کرفنکارکی صلاحیتوں کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح شاعری احساس کی ترجمانی ہے اور جذبات کی عکاسی۔شاعراپنے دور کا عکاس اور ترجمان ہوتا ہے۔ پھر زندگی میں اندازِ گفتگو کی بہت اہمیت ہے۔ جس کا ذکر ماضی میں فیض احمد فیض کیلئے کسی شاعر نے کہا تھا   ؎
تجھ سے پہلے حکایت، حکایت نہ تھی
کھردرے  پیکروں میں لطافت نہ تھی
تلخ باتوں میں اپنی حلاوت نہ تھی
اتنا چمکا نہ تھا گفتگو کا ہنر
اے مر ے ہمسفر ، اے مرے راہبر
اسی انداز سے خلیل قاضیؔ صاحب صفحہ ۴۹ پر اندازِ گفتگو کے تعلق سے کہنا چاہتے ہیں کہ تلخ باتوں کو بھی خوبصورت انداز میں حسین اور لطیف پیرائے میں ادا کرنا بھی بہت بڑا فن ہے۔ قطعہ ملاحظہ کریں   ؎
پھول سے چہرے کو پتھر نہیں بولاکرتے
ساغرِ دل کو سمندر نہیں بولاکرتے 
اتنی بے باکی بھی اچھی نہیں ہوتی قاضیؔ
بات کوئی بھی ہو منہ پر نہیں بولاکرتے
ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ نے اپنے قطعے میں زندگی کے مختلف پہلوئوں پر قلم اٹھایا ہے۔ اور حقیقت کااعتراف کیا ہے۔ شیریں زبان اردو کے تعلق سے مہاراشٹر کے اس مایہ ناز شاعر کا قطعہ ملاحظہ کریں جو صفحہ ۶۱ پر رقم کرتے ہیں۔
دیار فکر میں مسکن بنائے رکھّا ہے
گلاب لفظوں سے اسکو بچائے رکھّا ہے
بدلتے وقت کی حاسید ہوا میں بھی قاضیؔ
چراغِ اردو کو میں نے جلائے رکھّا ہے
مندرجہ بالاقطعہ سے صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ موصوف کو اپنی شیریں زبان اردو سے کس قدر لگائو ہے۔ اور انہوں نے اس کی پاسداری کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔ زبان اردو جس کی لطافت،شیرنی، چاشنی، اپنی آپ میں ایک مثال ہے۔ اور اس شیریں زبان کو سلامت رکھنا ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ جیسے عظیم شاعر کا ہی کمال ہے۔ اردو زبان ہماری زبان ہی نہیں ہماری ثقافت ہے۔ ہماری وراثت ہے۔ ہماری تہذیب ہے ۔ہمارے اسلاف کی امانت ہے۔ جس کا تحفظ بلا شبہ ہمارے لئے لازمی ہے۔ اور جنوبی ہند میں ڈاکٹر قاضی اردو کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ صفحہ ۶۳ پر یہ قطعہ ڈاکٹر خلیل صدیقی کی دور اندیش نظروں اور فکری بصارتوں کا ثبوت دیتا ہے۔ 
حصار کھینچ کے اپنے ہی گھر میں رہتا ہوں
نظر بچا کے بھی سب کی نظر میں رہتا ہوں
یہیں سے دیکھتا رہتا ہوں دور کے منظر
میں گھر میں رہ کے بھی قاضیؔ سفر میں رہتا ہوں
دنیا کے سبھی رشتوں میں ’’ماں‘‘ کا رشتہ بہت عظیم ہوتا ہے۔ اور ماں کے سایے کی بات ہی کچھ اور ہے۔’’ماں‘‘ انمول ہستی ہے۔ ڈاکٹر صدیقی حسین انداز میں یوں رقمطراز ہیں ملاحظہ کریں۔
دشتِ پُر خار میں گلزار ملے یا نہ ملے
غم ہستی کا طرفدار ملے یا نہ ملے
ماں کے آنچل کا گھنا سایہ ہے قاضیؔ سرپر
اب تجھے سایۂ دیوار ملے یا نہ ملے
دل میں امڈتے ہوئے جذبات ،ذہنی کرب کے ساتھ غم میں بھی چہرے پر تبسم رقصاں کئے ہوئے نشیب و فراز کو لطیف قطعہ کی شکل دیتے ہیں۔
ہزار غم ہیں مگر مسکراکے جیتا ہوں
میں اپنے ظرف کو خود آزماکے جیتا ہوں
مری کمائی میں قاضیؔ مرا پسینہ ہے
حرام رزق سے دامن بچا کے جیتاہوں
آخر میں پوری کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔ اور اس نتیجے پر پہونچی کہ موصوف ایک بہترین شاعر ہیںجو اپنی نوعیت میں بے مثال ہیں۔ اور ان کے لئے کچھ کہنا یا لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانا ہے،اور شاعر کا صرف یہ شعر ان کیلئے کافی ہے   ؎
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے وہ اتنا ہی خاموش ہے
میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ صاحب کو ان کے اس نایاب شعری مجموعہ’’ طوافِ آرزو‘‘ کی شاہکار تخلیق کیلئے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور دربارِ خدا وندی میں سربہ سجود ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خداانہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے تا کہ اسی طرح ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ کی شخصیت کی صحیح عکاسی اس مصرعہ میں کی گئی ہے کہ   ؎
بظاہر جھیل ہے لیکن پسِ پردہ سمندر ہے