شموئل احمد کی افسانہ نگاری پر نوجوان اسکالر محمد اقبال کی خامہ فرسائی پر تبصرہ

نام کتاب : شموئل احمد کی افسانہ نگاری 
مصنف   : محمد اقبال صفحات :   ۱۵۲ 
سنہ طباعت : ۲۰۲۰ قیمت:    ۲۰۰ روپے 
مبصر: ڈاکٹر وکیل احمد رضوی
پیش نظر کتاب شموئل احمد کی افسانہ نگاری ر یسرچ اسکالر ،رانچی یونیورسٹی رانچی جھارکھنڈ محمد اقبال کی تصنیف ہے  ،تقریبا ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے افسانے  کے فن کے  باب میں اردو فکشن ( داستان ،ناول ، افسانہ ) پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اس کی ابتدا ،ارتقائی تاریخ ،مختلف فنی لوازم اور خصوصیات اور ناقدین ادب کی تعریفات و اقوال کو بھی پیش کردیاہے ۔تقریبا ۵۴ صفحات پر مشتمل اس  باب میں فکشن کے رموز ونکات کو جامع انداز میں بیان کیا ہے ،اس سے  ادب کا قاری اور طالب علم بہت کچھ استفادہ کرسکتا ہے ۔فکشن کے حوالےسے اتنے سارے مواد کو ایک جگہ جمع کردینا یقینا قابل ستائش کام ہے ۔کتاب چونکہ شموئل احمد کی افسانہ نگاری کا احاطہ کرتی ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس افسانہ نگار کا ایک مختصر خاکہ پیش کردیاجائے جس سے مصنف کے مزاج ، ماحو ل خاندان ،علاقہ اور مشاغل کا ایک محتصر خاکہ قاری کےذہن میں رہے ،چونکہ فن کار کی تخلیق میں کہیں نہ کہیں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں جسے وہ الفاظ وعلامات کے پردے میں لاکھ چھپائے عیاں ہو ہی جاتاہے ۔ نور سے معمور اور روشنی سے بھر پور چاند کےداغ کو بھی انسانی نگاہ دیکھ ہی لیتی ہے ۔ شموئل احمد کی شخصیت ان فنکاروں سےقدرے مختلف ہے جو باطن میںکچھ ہیں اور ظاہر میں کچھ اور ظاہر کرتے ہیں ۔وہ اپنے احساسات کے اظہار میں کسی حصار وقیود کےپابند نہیں ۔والد نے انہیں انجینئر بنایا لیکن ہوش سنبھالتےہی یہ سوشل انجینئرنگ میں دلچسپی لینے لگے ۔عنفوان شباب میں ہی فکرو تجسس اس قدر درجہ کمال کو پہنچ جاتاہے کہ زمین بنجرہے یا زرخیز اور اس میں ہل کون چلارہاہے زمیں کامالک یاکوئی اور اس کی پہچان اور گرفت کرلیتے ہیں بہرحال محمد اقبال نے شموئل احمد کے ہم عصر افسانہ نگاروں پر گفتگو کرتے ہوئے اسے تین نسلوں میں تقسیم کیاہے ،پہلی وہ جو شموئل احمد کےپیش رو رہےدوسری وہ جس میں خود شموئل احمد اور ان کےہم عصر افسانہ نویس کی ایک جماعت موجودہے اور تیسری وہ جو انکے بعد افسانہ میں لکھنے میں مصروف ہے ۔اور یہ سفر جاری وساری ہے ،کتاب  کے مصنف نے شموئل احمد کےہم عصر افسانہ نگار وں کا بھی مختصر فنی تعارف کرایا گیاہے،ان کے افسانوں کےحوالے سے جس میں نیر مسعود ،طارق چھتاروی ،اور مہدی جعفر ،کےعلاوہ احمد نیر ،نذر الحسن ،اسرارگاندھی ،صدیق عالم ،عبد الصمد ،انجم عثمانی ،دیپک بدکی ،ترنم ریاض ،صغیر رحمانی ،قمر جمالی ،فریدہ زین ،مشرف عالم ذوقی اور کچھ خواتین افسانہ نگار وں میںغزال ضیغم ،صادق نواب ناشائستہ فاخری ،نگار عظیم ،کہکشاں پروین ،قمر جہاں  وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔ 
خصوصی طور پر افسانوی مجموعہ سنگھاردان کاتنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے اس مجموعے میں شامل افسانوں کا ذکر کیا ہے۔ان میں شامل بیشتر افسانوں کا مرکزی خیال عورت اور مرد کےدرمیان ناجائز جنسی تعلقات کورکھا گیا ہے ایسے تعلقات عام طورپر بےپردگی ،جنسے بےراہروی ،آزاد خیالی اور اپنی مرضی کو  مقدم رکھنے کی وجہ کر ظہور پزیر ہوتے ہیں ،یہ شرعی اور سماجی دونوں اعتبار سے غلط ہوتےہیں ،محمد اقبال نےشموئل احمد کےافسانہ ‘‘ تیل ‘‘ کا جائزہ لیتےہوئے اسے سماج میں پنپتے ہوئے ذات پات ،فرقہ پرستی اور رشوت خوری کو نمایاں کرنے والی کہانی قرار دیا ہے ۔افسانہ جھاگ ،کہرے، آنگن کا پیڑ ، بدلتے رنگ آدمی اور مین سوئچ اور بگولے ،تمام افسانے مردوزن کےتعلقات ، بیڈ اور بستر کے ارد گرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں ، کہیں کہیں سے دہشت گردی اور انسانی نفسیات سے جوڑنےکی کوشش کی گئی ہے ۔
 اس افسانوی مجموعہ کا نام ہی اس میںشامل پہلا افسانہ سنگھار دان کےنام سےرکھا گیا ہے ،اور کتاب کےمصنف نے بھی شموئل احمد کی افسانہ نگاری کا جائزہ سنگھار دان کےخصوصی مطالعہ کے حوالےسے لیا ہے ، اس لئے بھی یہ افسانہ زیادہ اہم ہوجاتاہے ، کہ آخر اس میں کس خصوصی افسانوی فن کا استعمال کیا گیا ہے کتاب کےسرسری مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ افسانہ نگار بھاگلپور فساد کےموقع پر وہاں موجود تھے اور انہوں نےبہت کچھ دیکھا جھیلا اور محسوس کیا ہے اسی لئے وہاںکےسوہن حلوہ اور سلک کےکپڑوں کا بھی ذکر ملتا ہے ،اس فساد سےایک نہیں سیکڑوں کہانیاں جنم لیتی  ہیں جو دل کو دہلانےاورآنکھوں کو رلانےکےلئے کافی ہیںلیکن شموئل احمد کو اس فساد میں برج موہن کےذریعے مسلم طوائف کےگھر سے اس کا موروثی سنگھاردان ہی زیادہ پسند آتاہے جو ہزارمنتوں کےباوجود اسے نہیں چھوڑتا اور گھر لیجاتاہے اور اس آئینہ کااستعمال کر کرکے اس کی بیوی اور دونوں بیٹیاں خود رنڈی بن جاتی ہیں اور برج موہن اپنی بیوی اور بیٹیوںکےلئے گاہک تلاش کرنےوالابھڑوا بن جاتاہے جس طریقے سےافسانہ نگار نے مردو عورت کےجنسی تعلقات اور شہوانی کیفیات کی منظر کشی کی ہےاس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار خود ماہر نفسیات سے زیادہ ماہر جنسیات ہے ، یہ افسانوں کو مارکٹنگ کےغرض سےلکھاگیا ہے، تاکہ جوان نسل کےاردو داں طبقہ کےدرمیان ی زیادہ مقبول ہو ، میراخیال ہے کوئی بھی ادیب یا ادیبہ خود تو اسےپڑھ سکتاہے لیکن اپنی جواں سال بیٹے بیٹیوںسے اسے پوشیدہ رکھے گا ،  افسانہ نگار نے طوائف  کےسنگھار دان کو جنسی شہوت کامحرک قرار دینےکی کوشش کی ہے، وہ میرے خیال میں درست نہیںہے ، نسیم جان اپنے سنگھاردان کےساتھ خود برج موہن کےگھر نہیں آگئی ،آئینہ انسان کےظاہری خدوخال کوظاہر کرتاہے ، ایسا محسوس ہوتاہےکہ برج موہن کا خاندان خود ہی آزاد خیال اور عیاش طبع  ہوگا ، آئینہ اسے برباد نہیں کرسکتا ،اگر ایساہی ہے تو فسادیوں کے ذریعے لاشوںکو چھپانے کےلئے اسے کھیتوں میں گاڑکر اس پر اگائی گئی سبزیوںکو کھاکر لوگوں کو بھی فسادی ہوجانا چاہئے تھا جس کا ذکر انہوںنےاپنے افسانہ میںکیاہے ، سنگھار دان فساد کے پردے  میںشہوانیت کی کہانی ہے ۔
 جو شہوانیت کا محرک بن سکتی ہے اس میں کوئی تعمیری پہلو نہیں ۔ برج موہن نے سنگھار دان لوٹ کر اپنی بیوی اور بیٹیوںکی عزت لٹوادی اور ادھر افسانہ نگار اپنے قائین کےخاندان کی عزت وعصمت پر شب خون مارنا چاہتاہے  چونکہ سنگھاردان کی طرح قلم دان بھی ایک آئینہ ہوتاہے ایک ظاہری ہیئت کو پیش کرتاہے تو دوسر اآپ کےباطن کا عکس  دکھاتاہے طارق چھتاروی کےاس طنز کو سمجھنےکی ضرورت ہے جس میںوہ کہتے ہیں ‘‘ مجموعی طور  پر دیکھاجائےتو شموئل احمد سنگھار دان والے کی حیثیت سےجانے پہچانے جاتے ہیں ‘‘ حالانکہ بعد میں وہ لنگی والے کے نام سے بھی مشہور ہوئے ۔
 بہر حال محمد اقبال نے اپنے تنقیدی جائزے میں بالکل درست کہا ہےکہ شموئل احمد کےافسانےگھریلو مسائل،جنسی معاملات اور سیاسی المیہ کی کہانیاں ان کےافسانوں کامحور ہیں  انہوں نے افسانہ سنگھاردان کا اصل متن شامل کرکے بہت کچھ قارئین پر چھوڑ دیا ہے ،کتابت ،کاغذ اور طباعت اچھی ہے اور قیمت بھی مناسب ہے،پروف ریڈنگ میںکچھ اغلاط جگہ پاگئے ہیں امید ہے مصنف اسے آئندہ ایڈیشن میں دو ر کرلیںگے ۔