محترمہ فوزیہ اختر رداؔ صاحبہ سے خصوصی گفتگو

محمد ثاقب نظامی
7870311360
یقینا ہمارا ہندوستان ہمیشہ سے بے شمار نابغہ روزگار شخصیات، اصحاب قلم اور فکر ادب کا مخزن رہا ہے،متعدد اہل علم و فن نے اپنے اپنی ہمہ گیر خدمات سے اس دنیائے رنگ و بو کی عطر بیزی کی ہے  لیکن ایسی شخصیتیں بہت کم رونما ہوئی جو مردم ساز اور عہد آفریں  ہوں  جن کی علم و ادب کی وسعت ،فکر و فن کی گہرائی اور ان کی گونا گوں خصوصیات و کمالات کی جامعیت اپنے اندر دور رس اور گہرے اثرات رکھتی ہو،  انہی اہم شخصیات  میں سے ایک قابل قدر شخصیت محترمہ فوزیہ اختر درا صاحبہ کی ہے آپ نہایت فعال اور باصلاحیت شاعرہ ہیں،آپ ایک ایسی شاعرہ ہیں جس کے اندر بےپناہ انفرادیت ہے اور اپنی اس انفرادیت پہ اعتماد  کی وجہ سے آپ اوروں سے کہیں آگے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں ،آپ ایک ایسی شاعرہ ہیں جس کی شاعری میں رنگ بھی ہے اور رس بھی یقیناً آپ کی شاعری میں زندگی اور زندگی سے وابستہ اشیاء کے بارے میں بہت خوبصورت شاعری ملتی ہے۔  قول محال کی قوت بخش مجودگی بھی ملتی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کا اقرار بھی ملتا ہے  آپ نے زندگی کی نفسیات سے ایک بڑی وسیع لغت ترتیب دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نےاردو ادب کے سنجیدہ حلقوں میں بہت جلد اپنی ایک الگ پہچان اور اعتماد بنالی ہیں۔ہم جب محترمہ فوزیہ اختر درا صاحبہ کو پڑھے اور سننے  گے تو انکی انفرادیت کا احساس ہوگا۔
قارئین کرام آج ہم محترمہ فوزیہ اختر درا صاحبہ سے کچھ خصوصی بات چیت کریں گے۔
ثاقب نظامی ۔السلام علیکم
فوزیہ اختر درا ۔وعلیکم السلام
ثاقب نظامی
۔آپ اپنی ولدیت جائے پیدائش اور خاندانی پس منظر کے متعلق مختصر جائزہ قارئینکو پیش کریں۔
فوزیہ اختر ردا
۔ میری پیدائش شہر کولکاتہ میں ہوئی میرے والد کا نام اختر حسین ہے ۔میرے والد ماجد اب اس دنیا میں نہیں رہے البتہ میری والدہ باحیات ہیں اور میں ان کی دعاؤں اور شفقتوں سے اپنے منزل کی طرف گامزن ہوں۔میں اپنے دو بھائیوں کی ایک لوتی بہن ہوں زمیندارانہ اور  مہذب خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔
ثاقب نظامی
۔آپ کی تعلیم کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور آپ نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی مختصر بتائیں؟
فوزیہ اختر ردا
۔۔میری تعلیم کی ابتدا میرے گھر سے ہی ہوئی میں نے دینی اور عصری دونوں  کی بنیادی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر روایتی تعلیم کے پیش نظر والد ماجد نے میرا داخلہ انجمن گلس ہائی اسکول میں کروایا میں نے ۱ تا ۱۰ درجوں تک کی تعلیم محنت اور لگن سے حاصل  کی  اور انجمن گلس ہائی اسکول سے ممتاز نمبرات سے میٹرک کا امتحان پاس کیا میٹرک میں کامیابی کے بعد والد ماجد نے آئی ایس سی کے لئے بھوانی پور کالج میں داخلہ کروایا  میں نے سکینڈ پوزیشن سے آئ ایس سی کا متحان پاس کیا پھر بی ایس سی کی ڈگری بنگال باشی مارننگ کالج کولکتہ سے فرسٹ ڈویژن سے حاصل کی۔
ثاقب
۔تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کا اب تک کا کیا مشغلہ رہا ؟۔
ردا
۔میں اپنی روایتی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اب تک تعلیم سے متصل ہوں بی ایس سی کے امتحان کے بعد کئی راستے میرے سامنے کھلے لیکن میں نے ٹیچنگ کو اپنایا اور کئی اسکولوں میں مجھے تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا آج بھی میں اس عظیم خدمات کو انجام دے رہی ہوں۔
ثاقب
۔آپکے لکھنے کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب سے ہوئی؟
ردا
۔جب میں چودہ برس کی تھی اور دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھی تو اسکول میگزین میں میری پہلی تخلیق "احساس شکست" (کہانی) شائع ہوئ تھی۔۔ پھر جب ایک قلمی دوست بنی تو اس سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ ڈائجسٹ پڑھنےکا بھی شوق لگ گیا تھا۔ اس طرح اردو زبان سے جڑی رہی ۔پھر 2012 میں فیس بک پر کچھ شاعروں کو پڑھنے کے بعد خود بھی لکھنے کا جذبہ پھر سے بیدار ہوا اور چونکہ یہاں قاری کا ردعمل  فورا سامنے آتا تھا اور داد و تحسین پانا بھی اچھا لگتا تھا۔ اس طرح حوصلہ افزا کمنٹس اور کچھ معتبر شعرا کی ہمت افزائی اور رہنمائ پر لکھنے کے دور کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
ثاقب
۔آپ کا قلمی نام کیا ہے؟
ردا
۔شروع کے دور میں اختر لکھا کرتی تھی لیکن اب فوزی یا ردا لکھا کرتی ہوں۔
ثاقب
۔آپ نے سب سے پہلے کس صنف میں طبع آزمائی کی اور وہ کس اخبار کی زینت بنی؟
ردا
۔پہلے تو میں نثر لکھتی تھی لیکن وہ اخبار و رسائل میں شائع نہیں ہوا کرتی تھی البتہ میں نے ۲۰۱۲ سے نظمیں لکھنا شروع کی میری  سب سے پہلی نظم یوں ہے۔
اشکوں کا بہانا اچھا ہے
۔سب کچھ سہانا اچھا ہے۔ 
کوئی نہیں ہے اپنا اب
۔ تنہا رہنا اچھا ہے
سیرت سے کیا لینا ہے۔
۔دلہن گہنا اچھا ہے
شور بہت ہے سینے میں
۔کہ دو کہنا اچھا ہے
عید کا جورا برسوں تک
۔بھیا پہنا اچھا ہے
قسمت نے کب ساتھ دیا
۔خود کچھ کرنا اچھا ہے
میری یہ نطم کولکاتہ کے ایک مشہور اخبار (اخبار مشرق) کولکاتہ میں شائع ہوئی اور فیس بک کے قارئین نے خوب حوصلہ افزائی فرمائی ۔
ثاقب
۔کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا؟ جیسے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کا شوق ہوتا ہے ؟
ردا 
میں نے کوئی پلان نہیں کیا تھا ۔البتہ گریجویشن کے بعد کچھ ٹیوشنز مل گئے تو جانا کہ اچھی ٹیچر بن سکتی ہوں۔ پھر جب میری تحریر کی تعریف ہوئی تو مجھ سمجھ میں آیا کہ اچھی رائٹر بھی بن سکتی ہوں بس اسی طرح یہ سلسلہ چل پڑا اور آج میں کچھ شاعری کر رہی ہوں۔
ثاقب
۔آپ کو ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے؟
ردا
۔شاعری اور نثر دونوں ہی مجھے پسند ہیں۔
ثاقب ۔آپ نظم یا غزل میں کس سے متاثر ہوئے؟
ردا
پٹنہ،  بہار کے جناب عالم خورشید کی شاعری مجھے بے حد پسند ہے۔۔ وہ میرے استاد بھی رہ چکے ہیں۔
ثاقب
۔ شاعری کے بارے میں آپ کیا کہیں گیں شاعری کیا ہوتی ہے اور  شاعری کا ذاتی زندگی پر کیا اثر  پڑتا ہے ؟
ردا
۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ شاعری لطف بھی دیتی ہے اور دانشمندی  بھی ، تہذیب بھی سکھاتی ہے اور فلسفہ و تاریخ سے بھی آگاہ کرتی ہے  ، زبان کی تربیت بھی کرتی ہے اور سماعت کی بھی ۔ ثقافت کو بھی محفوظ کرتی ھے اور سماجی تاریخ بھی مرتب کرتی ہے۔ یہ اجتماعی اور انفرادی نفسیات کا مقیاس بھی ھے اور ذہنی ارتقا کا پیمانہ بھی۔میں نے شاعری کے وسیلے سے خود کو جانا۔ بعض اوقات اپنے ہی کہے ھوئے شعر کے معانی خود پر اس انداز میں کھلتے ہیں کہ میں دنگ رہ جاتی ہوں۔ شاعری نے مجھ پر بہت مثبت اثر ڈالا اور میں یہ سمجھتی ہو اچھے شاعروں  کے مطالعے سے قارئین کی زندگی پر  ایک خاص اثر پڑتا ہے۔
ثاقب
آپ نے ادب کی کس صنف میں زیادہ کام کیا؟
ردا
۔میرا زیادہ رحجان شاعری کی طرف ہے اسلئے میں نے شاعری میں زیادہ کام کیا ۔
ثاقب
۔شاعری تصانیف کی تعداد اور نام؟
ردا
فی الحال ایک ہی کتاب منظر عام پر آئی ہے "سپنک ” دوسری پر کام ہو رہا ہے۔
ثاقب
۔نثری تصانیف کی تعداد اور نام؟
ردا
۔میں نے صرف افسانہ لکھا ہے جن میں سر فہرست یہ ہیں۔
وجود ۔احساس۔پردیس
ثاقب
اب تک کہ آپ کا تمام کلام شائع ہو گیا ہے یا آپ کی دوسری کتاب کے ساتھ ہو جائے گا یا اس کے علاوہ بھی غیر مطبوعہ ہے؟
ردا
۔۔جی نہیں میری دوسری کتاب صرف نعت و حمد پر مشتمل ہے۔ البتہ اب تک کا میرا کلام کسی نہ کسی اخبار میں شائع ہوچکا ہے۔
ثاقب
۔ آپ کا کوئی تازہ کلام ۔
ردا
۔جی میں نے ایک تازہ ہزلیہ کلام لکھی ہوں۔شوہر نامدار۔کچھ یوں ہے۔
لب پہ اشعار امیدوں کے سجے رہتے ہیں
میرے سرتاج خوشامد میں لگے رہتے ہیں
 
جن کو پیاری ہے کسی حور کی فوراً خواہش
ایسے دلدار غریبی سے بچے رہتے ہیں
 
رات دن اپنی محبت کا جو دم بھرتے ہیں
دست و بازو بھی تو آٹے سے سَنے رہتے ہیں
 
چھپ کے برتن کو بھی دھونے میں کوئی یعار نہیں
ایسے بے دام دکھاوے سے پرے رہتے ہیں
 
میری خدمت سے نہ اپنا کبھی وہ منہ موڑیں
راگ ایسے ہی وہ جپنے میں لگے رہتے ہیں
 
کس کی جرات کہ زباں پہ کوئی ان کے لائے
راز ان کے سبھی دل میں جو دبے رہتے ہیں
 
ہو کے اپنی وہ خطاؤں پہ پشیماں فوزی
شوہر حضرات ندامت سے جھکے رہتے ہیں
ثاقب
۔نثر کی مختصر حالات سے قارئین کو آگاہ فرمائیں؟
ردا
۔دنیا کی عام زبانوں کی طرح اردو میں پہلے شاعری کا آغاز ہوا اور ایک طویل عرصے بعد نثر کے ابتدائی نقوش ابھر کر سامنے آئے۔ آج جو اردو نثر ہمارے عہد میں رائج ہے وہ مختلف تدریجی مراحل سے گزرتے ہوئے اس مرتبہ پر پہنچی ہے کہ آپ اور ہم اپنے خیالات و احساسات کو بہ آسانی  روانی کے ساتھ ادا کرلیتے ہیں۔
ثاقب
ایک قلمکار کو اپنے فن کے ذریعہ قارئین پر اثر ڈالنے کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے کیا خلوص کا بھی اس میں دخل ہے؟
ردا
کہتے ہیں کہ قلم کار سماج کا آئینہ ہوتا ہے- ایک شاعر کے اندر سچائی،  ہمدردی اور خلوص کا جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اس کی نظر کی وسعت اور اس کا مشاہدہ اسے عام لوگوں سے الگ ہٹ کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں- نفسیات کی باریکیاں اور حالات کا تجزیہ اس کے اشعار میں نمایاں ہونے والی چیزیں ہیں۔ وہ اپنے کلام سے اگر قارئین کو چونکانے میں کامیاب ہوا تو سمجھ لیجئے کہ اس نے اپنے فن میں مہارت حاصل کر لی۔
ثاقب
جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ فن شاعری ایک وہبی فن ہے اسے محنت کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا آپ اس کو کتنا سچ مانتے ہیں ؟
ردا
یہ سچ ہے کہ یہ معاملہ بہت حد تک الہام اور آمد کا ہے جو خداداد ہوتی ہیں مگر فن شاعری اصل میں اہل دل اور حساس طبیعت رکھنے والوں کو ودیعت ہوتا ہے- اس کے علاوہ عمر کا تجربہ، ماحول کا اثر،  آپ کے ساتھ روز مرہ کے پیش آنے والے معاملات اور ان باتوں کا اثر ایک فن کار کی حساس طبیعت پر کس قدر پڑتا ہے اس کا اظہار اس کے کلام کے ذریعہ ہوتا ہے۔
ثاقب آج کے دور میں شعرا بھی ہیں ادیب بھی کتابیں لکھی جارہی ہیں لیکن تہذیب کم ہوتی جارہی ہے کیوں؟
ردا
آج قارئین کہاں ہیں۔۔ مجھے تو ہمیشہ ایک عام قاری کی تلاش رہتی ہے۔ اگر تہذیب سیکھنے والے ہی نہیں رہیں گے تو تہذیب کہاں اپنا سر چھپائے گی۔ ہم ہر نصیحت و پند کو سدسری انداز میں لیتے ہیں ۔ ہم نہ ہی کسی فلسفے پر غور کرتے ہیں اور نہ کسی منطق پر تبصرے و مباحثے کرتے ہیں۔ ہم پر علم کے دروازے کھلیں بھی تو کیسے۔ ہم آج مشقت میں پڑنا نہیں چاہتے۔۔ تن آسانی اور سہولت کے غلام لوگ تہذیب کے چلن سے برسوں پہلے نا آشنا پوچکے ہیں اور اب ان باتوں پر سوائے ماتم کرنے کے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔
ثاقب آپ کے خیال میں اچھا ادب کیا ہے؟
ردا
اچھا ادب ہمیشہ موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ فطرت سے کبھی منحرف نہیں ہوتا۔ سچائ کا پابند ہونا اور حق گوئ ہی ایک ادیب کا شعار ہے۔
ثاقب
کیا ایک فنکار اپنے فن سے کبھی مطمئن ہوتا اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے؟
ردا
جس دن فن کار اپنے فن سے مطمئن ہو گیا اسی دن اس کی سوچ کا خاتمہ ہو جانا ہے۔ فن شاعری ہو یا افسانہ نگاری قلمکار کو ہمیشہ تجسس اور تدبر کے راستے پر گامزن رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی پیاس ہے جو کبھی قلم کار کو سیر نہیں ہونے دیتی اور یہی بات اس کے فن کو ہر گذرتے دن کے ساتھ مزید جِلا بخشتی ہے۔
ثاقب
آپ نے اردو دنیا ہی کو کیوں ترجیح دی جبکہ آپ ایک اچھے انگلش ٹیچر ہیں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں کیا محرک بنی؟
ردا
اردو میری مادری زبان ہے۔ اور ایک فن کار اپنی سوچ کا مکمل اظہار اپنی مادری زبان میں ہی کر سکتا ہے- انگریزی زبان سیکھنا اور سکھانا میرا شوق ہے اور یہ میری جاب اور کریئر کا حصہ ہے-
ثاقب ۔آپ کا کوئی پیغام قارئین کے نام  ۔
ردا
آج قارئین و سامعین کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ایک عام انسان کو شعرا کو سننا ضروری ہے۔ یہاں ہر شخص اپنا کردار ادا کر رہا ہے- رائٹرز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن جن کے لئے وہ یہ کام کر رہے ہیں ان تک قلم کاروں کی بات بھی پہنچنی ضروری ہے ورنہ ان کا مقصد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایک قاری کے لئے بھی قلم کار کی حوصلہ افزائی اور اس کی پذیرائی کرنا اہم ہے-