
ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
بابا! کب تک ہم یہ ظلم سہتے رہیں گے؟
بابا! کب تک یہ ستم کوش انسان ہم پر ستم کے پہاڑ توڑتے رہیں گے؟
آخرظلم کی اس کالی سیاہ رات کی انتہا کب ہوگی بابا؟
بابا! آخر کب ہمارے نومیدی زدہ تاریک آنگن میں صبحِ امید کی کرنیں پھوٹیں گی؟
بابا! کب ہمارے وہ خوشیوں بھرے دن لوٹ آئیں گے؟
بابا! آخر کب تک ہم اس حبس زدہ گھر میں قیدِ تنہائی کی صعوبتیں جھیلتے رہیں گے؟
بابا! ہم تو جنتِ ارضی کے رہنے والے ہیں نا؟ پھر جنت میں ہمیں بے آرام کیوں کردیا گیا ہے؟
بابا! آپ نے کتنے مان ارمان سے مجھے پال پوس کر جوان کیا تھا، اور کس شان بان سے میری شادی رچانے کی سوچ رکھی تھی، لیکن زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ حالات نے ہمیں اس دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ جہاں سے کوئی راستہ میرےحسین جذبات اور آپ کے خوبصورت تصورات تک جاتا نظر نہیں آتا۔
بابا! کیا ہماری قوم کے سارے محافظ ابدی نیند سوگئے ہیں یا پھر ان کے لہو کی گردش ماند پڑ گئی ہے؟
بابا! آج میں اور میری طرح نہ جانے کتنی دکھیاری بیٹیاں اور غمزدہ بہنیں ظلم کی چکی کے دونوں پاٹوں کے بیچ پِس رہی ہیں، اغیار کی حریصانہ نگاہیں خواہشاتِ حیوانیہ کے زیرِ اثر ہمارے دلکش وجود کا طواف کر رہی ہیں، ہماری آہ و بکا سے زمین سہم سی گئی ہے اور آسمان کے جگر چاک ہو رہے ہیں،مگر قوم کی ان بےبس بہنوں کے محافظ بھائی اور مجبور بیٹیوں کے نگراں باپ کی رگِ حمیت میں بالکل بھی پھڑپھڑاہٹ پیدا نہیں ہوتی۔
ورنہ ایک وقت تھا کہ جب قوم کی ایک بیٹی کو پردیس میں ایک حریص اور بدکردار بادشاہ نے اپنی قید میں رکھ لیا تھا تو اس قوم کے ایک بھائی کا دل انتقام کی آگ سے جل اٹھا تھا، اس پر حمیت کی دیوانگی طاری ہوگئی تھی، اس کی آن پر مر مٹنے کو اپنی زندگی کا ہدف بنالیا تھا اور پھر جب تک اس بادشاہ سے اس نے بدلہ نہ لے لیا تھا انتقام کے وہ شعلے سرد نہیں ہوئے تھے۔
آخر ہم بھی تو اسی قوم کی بیٹیاں ہیں، اسی قوم کی بہنیں ہیں، پھر آخر کیوں ہماری آہیں ہمارے بھائیوں کے دلوں کو مرتعش نہیں کرتیں؟ ہماری فرمادیں ان کے جگر کو پاش کیوں نہیں کرتیں؟ ان کے کردار کی بلندی آخر کہاں روپوش ہوگئی ہے؟ ان کے جذبوں کی رفعت آخر کہاں دفن ہوگئی ہے؟ اور ان کے ولولوں کی عظمت کہاں سرد پڑگئی ہے؟
آنسووں کی روانی میں ڈوبی ہوئی یہ زخم خوردہ سرگوشیاں ایک مظلوم لڑکی نائلہ وقار کی تھیں جو وہ اپنے باپ وقار سے ایک محبوس کوٹھری میں کئے جا رہی تھیں ، اور اس کا باپ وقار تھا کہ بےجان پتھر کا مجسمہ بنا اس کی باتیں سنتا جا رہا تھا، اس کی پیش آمدہ حالت اور چہرے کی درد آمیز سلوٹوں سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہ تھا کہ وہ رنج و کرب کے گرداب میں ہلکورے مار رہا ہے، وہ بظاہر نائلہ کی باتیں سن تو رہا تھا لیکن اس کا ذہن بزمِ تصور میں آزاد نگری کی ان حسین وادیوں میں پرواز کر رہا تھا جہاں زندگی کو رنگین بنانے اور اس کو حسن جمال سے ہم آہنگ کرانے کے سارے اسباب موجود تھے، ان کی زندگی کی گاڑی انہی حسین شاہ راہوں پر بڑی تیزگامی سے محو سفر تھی کہ اثناءِ سفر اچانک ایک ایسا موڑ آیا جس نے ان کی زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔
نائلہ نے جس خطے میں آنکھیں کھولی، اور پل پوس کر عالمِ شباب تک پہونچی تھی وہ خطہ قدرتی حسن کا ایک گہوارہ اور فطرتی جمال جہاں تاب کا ایک طلسم کدہ تھا، جہاں زندگی کو حسین سے حسین تر بنانے کے ہر عناصر موجود تھے، جہاں کی ہر شام شام اودھ اور ہر صبح صبحِ بنارس کا روح پرور منظر پیش کرتی تھی۔
جہاں ہر طرف تاحد نگاہ سبزہ زاروں اور مرغزاروں کی خوبصورت چادریں پھیلی ہوئی تھیں، لالہ و گل اور بیل بوٹوں کی خوش رنگ قناتیں تنی ہوئی تھیں، سبزپوش پہاڑوں کی خوشنما چوٹیاں ناظرین کو دعوت نظارہ دیتی تھیں، ہری بھری ٹہنیاں لچک رہی تھیں، ننھی کلیاں چٹک رہی تھیں،نوع بنوع درختوں پر پھلوں کے گچھے جھول رہے تھے،خوبصورت کیاریوں میں پھولوں کی پنکھڑیاں مسکرارہی تھیں، فضاء میں خوش گوار ہوائیں راگنیاں گا رہی تھیں، دریاؤں کی لہریں جلترنگ بجارہی تھیں اور آبشاروں کی تانیں آزادی کے گیت گنگنا رہی تھیں۔
جب خزاں کے بطن سے پیدا ہوا موسمِ بہار جوبن پر ہوتا اور ہلکی ہلکی پہاڑی گھٹائیں افق پر خلا نوردی کر رہی ہوتیں تو نائلہ کبھی پھولوں سے لدی ان حسین کیاریوں کی طرف نکل جاتی، جہاں وہ لطیف ہواؤں کی سرسراہٹ، موسمِ بہار کے خوش نوا پرندوں کی مترنم نغمگاہٹ، کونپلوں پر تتلیوں کا رقص اور پھولوں کی پنکھڑیوں پر بھونروں کی منڈلاہٹ کے دل آگیں منظر سے کافی محظوظ ہوتی۔
کبھی نائلہ چلتے چلاتے اور گھومتے گھماتے پہاڑیوں کے دامن کی بھول بھلیوں میں ان تدریجی ڈھلوانوں کی طرف چل نکلتی جہاں سے دور افق پر اس کی نگاہ راہ چلتے مسافروں کے ان قافلوں پر جا کر ٹہر جاتی جو دھول اڑاتی پگڈنڈی پر آ جا رہے ہوتے، جنہیں دیکھ کر وہ رومانی تصور کی اس کائنات میں کھوجاتی جس کی کسی گزرگاہ پر وہ اکیلی ہی چل پڑتی ہے، اس پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوتا ہے، اس کا دلکش وجود مارے خوف کے پسینے میں تھرتھرا رہا ہوتا ہے اور اس کے قدم سنبھل سنبھل کر زمین ناپ رہے ہوتے ہیں کہ یکلخت زمین کے پردے کو پھاڑ کر اس کے سپنے کا شہزادہ اس کے سامنے آن کھڑا ہوجاتا ہے، جس کے تصور سے ہی اس پر جذباتیت کا ہیجان طاری ہوجاتا ہے، آنکھیں لجا جاتی ہیں، دل پر خوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور پھر وہ اس تصوراتی شہزادے کی انگلیاں پکڑکر نشانِ منزل کی تلاش میں چل نکلتی ہے۔
اس قدرتی خطے کے مکینوں کو جو سب سے بڑی نعمت اور بے نظیر دولت حاصل تھی، وہ ان کی فطری آزادی تھی، اس خطے کے مکیں غلامانہ زندگی اور محکومانہ برخورداری کے الفاظ سے نا آشنا تھے، اقتدار پرستوں اور کرسی نشینوں کی پہونچ سے دور وہ فارغ البالی ، خوش حالی اور عیش کوشی کی زندگی گزار رہے تھے، نہ کسی حاکم کی ناراضگی کا انہیں اندیشہ تھا اور نہ ہی کسی فرمانروا کے عتاب کا ڈر، حکمرانی جھمیلوں سے مامون آزادی کی فضا میں سانس لیتے اور قدرتی حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کی زندگی صبح و مساء میں تبدیل ہورہی تھی کہ اچانک۔۔۔
اقتدار پرستوں کی حریصانہ نگاہیں اور کرسی نشینوں کے طامعانہ دل جنت نظیر اس خطے پر جا کر مرکوز ہوگئے، اور اپنی عسکری قوت اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اسے اپنے زیرِ نگیں لانے کے منصوبہ بند طریقے پر کاربند ہونے لگے، اور پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے پورا وہ حسین، جنت نظیر اور روح پرور خطہ فوجی بارکوں اور پولیس کیمپوں میں تبدیل ہوگیا، جہاں کی پرکیف فضاء پر آزادی کے دلکش نغمے بج رہے ہوتے تھے وہاں غلامی کے گیت گائے جانے لگے، ہر طرف موت کا سا سناٹا چھا گیا، ہر سمت ہو کا سا عالم طاری ہوگیا، مکینوں کو پکڑ پکڑکر مکاں بند کردیا گیا، احتجاجی مظاہروں کو نیم بسمل کر کے چھوڑ دیا گیا، اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہونے والے فوجی انسان سے وحشی درندہ بن گئے، خواہشاتِ حیوانیہ سے چور دوشیزاؤں کی ردائے عفت کو وہ تار تار کرنے لگے، غرض یہ کہ ان سے آزادی کی زندگی چھین لی گئی، اور ان کو آزادی کے ایوانوں سے اٹھا کر غلامی اور پس ماندگی کے ان کھنڈرات میں چھوڑ دیا گیا جہاں دور دور تک تاریکی کا ہی بسیرا اور سناٹے ہی کا راج تھا۔
نائلہ نے زندگی کی بدلتی ہوئی ان رُتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، جنہیں دیکھ کر اس کا معصوم دل کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر گیا تھا، اس کے من پر ایک نہایت الم آمیز چرکہ لگا تھا، جس کے زخم کو وہ موہوم امیدوں سے ٹکور کرتی رہی تھی ، اور اس کی کسک کو اپنے سینے میں دفن کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی تھی ،لیکن! آج جب اس کے زخم پرکچھ زیادہ ہی کسک جاگ اٹھی تو وہ اپنے من کو بہلانے اور جی کو ہلکا کرنے کے لئے اپنے بابا سے زمانے کی شکایتیں کرنے بیٹھ گئی۔
نائلہ تو شکایتیں کرکے اپنے گرد و پیش سے بے خبر نیند کی وادی میں چلی گئی، لیکن اس کا باپ کافی دیر تک سر جھکائے یونہی بیٹھا رہا، بدنصیبی اور بےبسی کے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملا رہے تھے، پھر جب اس نے انہی بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی بیٹی نائلہ کی طرف دیکھا تو اسے یوں نظر آیا جیسے اس کی آنکھیں نیند میں بھی آہیں بھر رہی ہوں اور اس کے ہونٹ اپنے دکھ درد کی فریاد کر رہے ہوں، اس کا باپ اٹھا، پیار بھرےلمس کا ایک اثر اس کی پیشانی پر نقش کیا اور پھر اسے اٹھا کر اپنے بازؤوں میں جکڑتے بلک بلک کر رونے لگا ، ایک بے بس باپ اس سے زیادہ اور کر ہی کیا سکتا تھا۔