میرے لوگ بلاتے ہیں مجھے

افسانہ
ڈاکٹر عقیل خان
پروفیسر وہیڈ ( ریٹائرڈ)
پوسٹ گریجویٹ ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ آف بایو کیمسٹری، آر ٹی ایم 'ناگپور یونیورسٹی ' ناگپور ' مہاراشٹر
رابطہ و واٹس ایپ فون:
9890352898
 مالی اعتبار سے سنجے اعلیٰ متوسط خاندان سے متعلق تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ! اسکے والدین اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔انھوں نے اپنے بیٹے کی پرورش اس انداز سے کی تھی کہ وہ ایک مضبوط اور نیک انسان بنے اپنے فیصلے خود کرسکے اور دنیا سے مقابلہ بھی کر سکے۔ انھیں اسکی ذہانت کا پورا اندازہ اور مستقبل میں کامیابی کا پکا یقین تھا- چنانچہ بارھویں کے امتحانات میں زبردست کامیابی کے بعد اس نے جب امریکہ میں آگے کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے حامی بھر لی۔ کئی معیاری امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے امتحانات میں کامیابی کے بعد آخر میں اس نے پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت اسکے والدین نیو جرسی میں اسکے ساتھ تھے۔ اس نے پرنسٹن سے بی ایس اور اسکے بعد پرنسٹن کے ہی نامور مالی کیولر بایولاجی ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے کر ایم ایس کیا۔ اور اسی ڈپارٹمنٹ میں کینسر کے ایک اہم پہلو پر ریسرچ کرنے کے بعد پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی۔ اس کے تحقیقی مقالات جب معیاری اعلی و نامور بین الاقوامی جرنلوں میں شایع ہوئے تو کینسر سے متعلق سائنسدانوں و محقیقین نے جانا اور اعتراف کیا کہ کینسر کے علاج کے تعلق سے ایک نیا دریچہ کھلا ہے! سنجے کو انعامات سے نوازا گیا۔ ایسے مواقعوں پر اسکے والدین ہندوستان سے آکر اس کے ساتھ میں ہوتے تھے۔ ویسے وہ تقریباً ہر سال ہندوستان ہو آیا کرتا تھا۔ پی ایچ ڈی کے بعد مالی کیولر بایو لاجی ڈیپارٹمنٹ میں ہی کینسر کے علاج کے تعلق سے مزید پہلوؤں پر بحیثیت پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ فیلوکام جاری رکھا۔ تقریباً دو سال سے وہ اس حیثیت سے کام میں مصروف تھا۔ اسکا معاوضہ اسے معقول سے زیادہ ملتا تھا۔ پرنسٹن جیسی ممتاز ' نامور و اعلیٰ بین الاقوامی یونیورسٹی میں پڑھائی و ریسرچ کرنے سے امریکہ کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں اسکا مستقبل محفوظ تھا ! جولائی مہینے میں جب کوویڈ کے لاک ڈاؤن سے رہائی ملی اور بین الاقوامی پروازیں شروع ہوئیں تو ستمبر کے مہینے میں وہ والدین سے ملنے عارضی طور پر ہندوستان آیا۔اپنے پروگرام کے مطابق ایک ہفتہ والدین کے ساتھ رہنے کے بعد جنوبی ہندوستان کے ایک سیاحی مقام پر پہنچ گیا۔ جو بارش میں سیاحت کے لیے بہت مشہور تھا۔ اسے ایک اونچے پہاڑی مقام پر کافی کی کاشت کاری کے بیچ ایک اچھے ہوٹل میں سویٹ گیا تھا۔ پانچ دنوں تک آبشاروں، جھرنوں، جھیلوں، کافی کی کاشت کاری، رین واک اور میوزک بینڈ کا لطف اٹھانے کے بعد چھٹے دن ہوٹل میں رہنے کی ٹھانی ! 
 اور اب وہ اپنے سویٹ کی بالکنی میں بیٹھا محو نظارہ تھا۔ زمین سے کمان کی طرح اٹھتی ہوئی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں جن پر کافی کے کاشت کئے ہرے پودے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں ہرےپودوں پر بے انتہا خوبصورت سفید پھول مسکراتے تھے۔پودوں، مٹی اور پھولوں کی ایک شوخ گمنام سی خوشبو ماحول میں پھیلی تھی۔ بہت دور اٹھکی لیاں کرتے پربتوں کو بوسہ دیتے ہوئےبادل کسی شرابی کی طرح ادھر ادھر ڈولتے تھے۔ پہاڑیوں کے ڈھلانوں پر کہر آلود دھندلکے میں  بارش سے بھیگتے اونچے پیڑ بڑے پر اسرار سے لگتے تھے۔ ہری چادر اوڑھے پہاڑیوں کے دامن سے الجھی ایک وسیع جھیل کو  سنجے نے ایک روحانی سکون سے دیکھا۔ چاروں سو ایک اتھاہ اور گہرا سکون چھایا تھا......
جھیل کے منظر کے ساتھ کوئی یادوں میں بس گیا........یکایک سنجے کو محسوس ہوا کوئی اسکی تنہائی میں شامل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایمیلیاتھی۔۔۔۔۔۔۔اسکی ہمدم۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی دوست۔۔۔۔۔۔ اسکی ہمراز۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اکثر پرنسٹن یونیورسٹی کے کارنیگی جھیل میں ایمیلیا کے ساتھ سیر کی تھی ۔اسکے کنارے بیٹھ کر وہ گھنٹوں ایکدوسرے کو تکا کیے۔۔۔۔۔سب یاد آیا اسے۔۔۔۔۔۔۔ موسم سرما میں یونیورسٹی کی سڑکوں اور میدانوں پرجمی ہویءبرف پرایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ چلنا۔ کیمپس میں درختوں، عمارتوں اور رہ گزاروں پر گرتی ہوئی اور جمتی ہویء برف  کو تکتے رہنا۔  میکارٹر تھیٹر میں ساتھ میں تفریحی پروگرام دیکھ کر کینٹن میں کافی پینا۔ ویک اینڈ پر لیبوریٹری میں ایک کا دوسرے کے کام کا ختم ہونے کا انتظار کرنا اور کبھی کبھار لمبی کار ڈرائیو کے لےء نکل پڑنا ۔۔۔۔۔۔وہ ساتھ گزارے ہوئے وقت میں کوئی بھی ایسی بات نہ تھی جو وہ بھلا سکے۔
 ایمیلیا پرنسٹن یونیورسٹی کے مالیکیولر بایولوجی ڈپارٹمنٹ کے لیبوریٹری میں پی ایچ ڈی پروگرام میں اسکی جونیر تھی اور اسپین کی رہنے والی تھی۔ اس نے اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی سے ایم ایس کرنے کے بعد پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ سنجے نے ایمیلیا کے پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے کے لئے جو نصابی اور علمی ضروریات تھیں اسمیں کافی مدد کی تھی۔ رفتہ رفتہ دونوں میں قربت بڑھتی گئی۔ ذہنی ہم آہنگی ہونے سے ایکدوسرے کو پسند بھی کرنے لگے تھے ۔ایمیلیا خوبصورت لڑکی تھی اور سنجے کی قابلیت کی معترف بھی!
اتنے دلفریب موسم میں اتنی حسین یادوں کے ساتھ وہ سویٹ کے ہال میں لوٹا اور ٹی وی شروع کردیا۔
ایک سانحہ اسکا منتطر تھا!!!
ٹی وی پر بتایا جارہا تھا کہ اس کے ہی شہر سے کچھ دور ایک گاؤں میں ایک مخصوص چھوٹی ذات کی ١٩ سالہ لڑکی پر اونچی ذات کے کچھ افراد نے بہیمانہ حملہ کرکے اس کی عزت لوٹی تھی۔ مبینہ طور پر اسکی ماں نے جب اسے دیکھا تو وہ برہنہ لیٹی تھی ۔زبان کٹی اور آنکھیں باہر کو نکلی ہویء تھیں ۔ منھ گردن اور شرمگاہ سے خون نکل رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے پاس بھی خون تھا۔ ماں نے اسے فوراً کپڑے سے ڈھاکا۔ مدد کے لئے لوگوں کو پکارا۔ ماں اور بھائی اسے قریب کے پولیس اسٹیشن لے گئےلیکن پولیس حکام نے کہا " اسے یہاں سے لے جاؤ"!!! خاندان کے لوگ اسے پھر ایمبولینس میں لاد کر ایک اسپتال میں لے گےء جہاں اسے دو گھنٹے ویسے ہی رکھا گیا! اسے پھر قریب کے دوسرے اسپتال لے جایا گیا۔ 
 سنجے کا سارا سکون جاتا رہا۔ وہ بے انتہا بے چین ہو گیا تھا۔ ساری رات اضطراب میں گزری۔ پروگرام کے مطابق دوسرے دن اسے اپنے شہر جانے کے لیے سفر کرنا تھا۔
اپنے شہر لوٹنے کےبعد آنے والے تین ہفتوں کے واقعات نے سنجے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔مظلوم لڑکی کے خاندان کے افراد کو گرفتارکر لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔تقریبا دو ہفتے کے بعد لڑکی کی موت اسپتال میں ہوگئی۔۔۔۔۔۔ لڑکی کی لاش کو پولیس نے اسکے خاندان والو‌ں کی غیر موجودگی میں جلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت کے مطابق جن لوگوں نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا وہ سازش رچ رہے تھے۔ان میں سے کچھ لوگوں کے خلاف پولیس نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کر لی تھی !
  اس واقعہ نے سوشل میڈیا ' ٹی وی اور اخبارات میں کہرام مچا رکھا تھا۔ ایسے واقعات تو ہندوستان میں ہو تے ہی رہتے ہیں تو سنجے کیوں اس مخصوص واقعہ سے اتنا متاثر تھا؟
اس دل دہلا دینے والےسنگین واقعہ کے تین ہفتوں کے بعد ایمیلیا کو جو پرنسٹن میں ہی موجود تھی سنجے نے ای میل میں لکھا " تمہیں یہ سن کر تعجب ہوگا کہ میں نے پرنسٹن کی پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ چھوڑ دی ہے۔ اسکی اطلاع یونیورسٹی کو بھی بھیج دی ہےء اور ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کسی ذاتی وجہ سے نہیں بلکہ اسکی وجہ وہ واقعہ ہے جو کسی بھی معقول آدمی کی روح تک ہلا دے۔ اور یہاں تو میرے اور میرے اپنے لوگوں کے وجود کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے" اور اس نے جو ١٩ سالہ دوشیزہ کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی ہوئی تھی اسکے ذکر کے ساتھ ہندوستان میں ذات پات پرمبنی طبقاتی تقسیم تفصیل سے بیان کرنے کے بعد لکھا " میں بھی اسی ذات سے متعلق ہوں جو متوفی لڑکی کی تھی۔ عموماً میری ذات کے لوگ بے انتہا پچھڑے غریب اور ہر طریقے سے استحصال کا شکار اور غیر منظم ہیں"- پھر لکھا " تم سوچتی ہونگی کہ میں اس سلسلےمیں کیا کرسکتا ہوں؟  مجھے احساس ہوا کہ ہمارے جیسے پڑھے لکھے باشعور لوگ ہندوستان میں رہتے ہوئے یقینا ایسے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اپنے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اور میں کرونگا ! فی الوقت میں نے اور میرے والدین نے ہمارے علاقے کے با شعور لوگوں سے مل کر کلکٹریٹ آفس کے باہر احتجاج کیا اور اس کی رپورٹ صوبے کے حاکم کو بھیجی ہے۔ یہ محض شروعات ہےء !  یہاں مجھے پرنسٹن کی اعلیٰ تعلیم و ریسرچ کے صلے میں اچھے جاب مل جاینگے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میں ایسا کچھ کرونگا! میں سارا وقت اپنے لوگوں کے وقار اور انکی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ پرنسٹن نے  میری شخصیت کو جو نکھار اور استقامت دی ہےء اسی نے مجھے اس مشکل اور دقیق کام کرنے کے لئے حوصلہ بھی دیا ہےء۔ پرنسٹن میں دس سال کے لمبے عرصے میں انسانی حقوق ومساوات کے تعلق سے جو میں نے سیکھا ہے وہ یقیناً میرے لےء مشعل راہ ثابت ہوگا. میں چاہونگا کہ تم وہاں طلباء فیکلٹی اور ریسرچ اسکالرز میں اس گھناؤنے واقعہ کا ذکر کرو کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہاں ایسے مواقع میسر ہیں! تمہیں یاد ہوگا کہ ہم دونوں ایسی ہی ایک تحریک سے پرنسٹن میں وابستہ تھے!
سنجے نے اس تحریر میں بارھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے تک اور والدین کیساتھ ذات کی بناء پر جاب کے دوران جو امتیازی سلوک ان کے ساتھ ہوتا تھا ا س کا بھی ذکر کیا تھا۔آخری میں اس نے لکھا تھا " ایلیمیا تمہیں ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ یہ پوری تحریر جو میں نے تمہیں بھیجی ہے۔ اسے ہماری حکومت اینٹی نیشنل بھی ثابت کر سکتی ہے!!!"