تم بھی دیکھ لو ہماری در ماندگی کو !!!

ڈاکٹر عقیل خان
پروفیسر وہیڈ ( ریٹائرڈ)
پوسٹ گریجویٹ ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ
 آف بایو کیمسٹری،آر ٹی ایم
 ناگپور یونیورسٹی، ناگپور، مہاراشٹر، انڈیا
 9890352898
سوامی ناتھن ہمیشہ اعلی سرکاری عہدوں پر فائز رہا  اور عوام الناس سے متعلق جو زمینی حقیقتیں تھیں وہ ان سے اتنا ہی واقف تھا جتنی اس ضمن میں حکومت کی معلومات ہوتی تھیں! وہ سخت محنتی اور بنیادی طور پر ایماندار آفیسر سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ تھا بھی۔ اسکی زندگی عالی شان دفتروں،پانچ ستارہ ہوٹلوں، بے انتہا آرام دہ سرکاری گیسٹ ہاؤس و بنگلوں میں گزری تھی۔ریٹایر مننٹ کے بعد زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح وبہبود کی وزارت نے اسے زراعت سے متعلق پالیسیاں بنانے کی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس کام کو مکمل کرنے کے لئے وہ لمبے عرصے سے مصروف رہا تھا۔ رپورٹ حکومت کو پیش کر دی گئی تھی۔ اب وہ  وسط ہند کے ایک پہاڑی علاقے کے  سرکاری گیسٹ ہاؤس میں اپنی بیوی کےساتھ چند دنوں سے مقیم تھا۔ جسے کوویڈ کی سرکاری پابندیوں کے ساتھ کھول دیا گیا تھا۔ پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے  بیچ اس گیسٹ ہاؤس میں تمام جدید قسم کی ضروریات مہیا تھیں اور اس میں امراء، روساء، سرکاری افسران و سیاسی رہنما آیا کرتے تھے علاقے میں زیادہ تر قبائلی لوگ آباد تھے۔ سوامی ناتھن کو ا پنی ذہانت اور حساسیت سے ایک بات کا احساس تو ہو چلا تھا کہ مقامی قبائلی لوگ بے انتہا غربت و استحصال کا شکار تھے۔ وہ غیر مقامی لوگوں کے کھیتوں، کارخانوں، ہوٹلوں، اسکولوں، کالجوں،دفتروں، دوکانوں میں مزدوری اور نچلے درجے کا کام کرتے تھے اور کام باقاعدگی سے نہیں ملتا تھا۔ کبھی کبھی  حکومت کی کچھ اسکیموں کے تحت مالی امداد ان لوگوں کے لےء آتی تھی لیکن زیادہ تر وہ بچولیوں کی جیب میں چلی جاتی تھی۔ 
 ہزاروں سالوں سے یہاں بسنے والے یہ قبائلی لوگ بے انتہا مفلسی اور شکست خوردگی کا شکار تھے۔ حالانکہ وہ آبادی کے لحاظ سے غیر مقامی لوگوں سے کئی گنا زیادہ تھے!!!
آج چوتھا دن تھا۔اور وہ یہاں سے دیڑھ اور دوسو کلو میٹر دور کے کیء علاقے بھی گھوم آئے تھے۔ کبھی پھوار تو کبھی تیز بارش پڑتی تھی۔ موسم نے چار سو رعنایاں اور مستیاں بکھیر دی تھیں۔ گیسٹ ہاؤس اونچے مقام پر واقع تھا۔ قریبی نچلے حصے میں مکیء کے کھیتوں کے بیچ کلتھی کے پودے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کھیتوں میں ننگ دھڑنگ مزدور پیڑوں کے نیچے پناہ لیتے دکھایء پڑتے تھے۔کھیتوں کے ایک طویل سلسلے کے عقبی حصے میں مزدوروں کےکچے جھونپڑے دکھائی پڑتے تھے۔ شمال مشرقی حصے میں پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے پھیلے ہوئے تھے اورجب کبھی ہلکی سی دھوپ نکلتی توان کہساروں کے دامنِ میں  بہتی ہوئی ندی ایک پتلی سی چاندنی کی لکیر دکھائی دیتی تھی۔قدرت نے ایک دلکش ہری چادر کہساروں اور زمین پر تان دی تھی۔ سوامی ناتھن اور اس کی بیوی بے انتہا خوش و مسرور تھے۔معمول کی طرح آج بھی وہ ڈرائیور اور ایک سرکاری گایڈ کے ساتھ کار میں کسی نئی منزل کی جانب رواں تھے ! 
 کچھ نئےپہاڈی مقامات گھومتے گھومتے سہ پہر ہوگئی اور اب وہ واپس لوٹ رہے تھے۔ بارش بہت برس کر رکی تھی لیکن اسکا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ یکایک سوامی ناتھن نے گایڈ سے کھیتوں میں چلنے کی خواہش ظاہر کی!  
کھیتوں میں اپنے کاموں میں مصروف مزدوروں نے برساتیوں میں ملبوس ان چار لوگوں کو پگڈنڈی پر چلتے ہوئے حیرت سے دیکھا ! کچھ اور دور چلنے کے بعد اچانک تیز بارش شروع ہوگئی۔ پگڈنڈی کے بائیں جانب کے کھیت کے آخری سرے پر ایک جھونپڑی تھی سوامی ناتھن جو سب سے آگے تھابارش سے بچنے کے لئے اس جانب چل پڑا۔ تینوں نے اسکی پیروی کی۔جھونپڑی کے کھلےہوئے گھانس پھونس کے دروازہ پر سوامی ناتھن جب پہنچا اور اندر جو نظارہ دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے........ گندے لباس میں ملبوس  تیس سال کی حد کو پار کرتی  ایک قبائلی عورت مسلسل برستی بارش کے بہتے ہوئے پانی میں زمین پر بیٹھی تھی۔ اسکی گود میں  ڈھائی- تین سال کی بچی  اس سے چمٹ کر بیٹھی تھی اور دونوں جانب اس نے اپنے ہاتھوں سے نو عمر لڑکا اور لڑکی کو کندھوں سے تھام رکھا تھا- ان کے عقب میں  ایک ٣٠--٣٢ سالہ مرد ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر بیٹھا جونپھڑے کی گرتی ہوئی  چھت کو ایک ڈنڈے سے سنبھالے بیٹھا ہوا تھا۔وہ شاید اس خاتون کا شوہر تھا۔ چھت سے کہیں کہیں پانی رس رہا تھا اور مٹی کی دیوار یں بارش کا پانی پی کر کہیں کہیں سے پھول کر پھٹنے کی طرف مائل تھیں۔ غربت کے دھاگے میں پروئی بیچارگی ' کسمپرسی اور مجبوری کا دل دہلانے والا منظر تھا وہ !!!اس خاتون کی بے انتہا کسمپرسی اور درماندگی سی بھری آنکھیں جب سوامی ناتھن کی طرف اٹھیں تو اسے ایسا محسوس ہوا گویا وہ اس سےکہ رہی تھیں " اپنے احوال میں ہمیں بھول گئے ۔ صدیوں نے ہماری درماندگی کو دیکھا ہے ۔ تم بھی دیکھ لو" سوامی ناتھن ایک حساس، درد مند اور فطری طور پر نیک اور خدا ترس انسان تھا۔ اور شاید اس نے ساری عمر ایسی غربت اور درماندگی نہیں دیکھی تھی۔ اس غیر معمولی دکھ بھرے منظر نے اس کے باطن میں برچھیاں گھونپ دی تھیں!!! وہ پیچھے پلٹا اور اپنے ساتھیوں کو واپس چلنے کا  اشارہ کیا۔
گیسٹ ہاؤس میں بے انتہا ندامت اور صدمے کی حالت میں اس نے اپنی بیوی سے کہا" جو سرکارکو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ان میں  انکی غربت اور بدحالی کا ذکر تو بہت ہوتاہے، اور حکومتیں ایسے بتاتی ہیں جیسے ان لوگوں کی فلاح کے لیے بہت کام کر دیئے ہوں"۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے اپنی رپورٹ میں ان کے تعلق سے جو بھی لکھا ہے  صورتحال اس سے زیادہ سنگین ہے۔" اس نے اسی رات ای میل سے حکومت کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا!!!