خوف(افسانہ)

ترجمہ: شمس تبریز عزیزی
شعبہ فرنچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
سردی کا موسم تھا، ہم فرانس کے ایک جنگل میں تھے ، اس دن آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے اس لیے معمول سے پہلے ہی رات ہو گئی اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا . ہوا کی سنسناہٹ کے بیچ درختوں کے نیچے اس تنگ راستہ پر چلنے کے لئے مجھے ایک راہگیر کا سہارا لینا پڑا جو میرے ساتھ ہی چل رہا تھا. درخت کی شاخوں کے درمیان بادل اس طرح گزر رہے تھے گویا کوئی ڈراؤنی چیز ان کا تعاقب کر رہی ہو. میں وہاں شکار کی غرض سے گیا تھا، رات کو اس جنگل کے مالک کے گھر قیام کرنا تھا، گھر وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا. میرا رہبر کبھی کبھی آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا اور کہتا کہ موسم خراب ہو رہا ہے. پھر وہ مجھ سے اس کے بارے میں بات کرتا جس کے گھر ہم جا رہے تھے. "اس کے باپ نے دو سال پہلے ایک مویشی چور کی جان لے لی تھی، تبھی سے وہ ہمیشہ اداس اور غمگین رہتا ہے، گویا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خوف اس پر طاری ہو گیا ہے" اس کے دونوں لڑکے شادی کر چکے ہیں اور سب ساتھ ہی رہتے ہیں.رات تاریک تھی. مجھے اپنے ارد گرد کچھ نظر نہیں آ رہا تھا. آخر کار ایک روشنی دکھائی دی اور تھوڑی ہی دیر میں میرے ساتھی نے دروازہ پر دستک دی، گھر کے اندر سے عورتوں کی آوازیں آئیں، پھر ایک آدمی نے پوچھا کون ہے... ؟ میرے ساتھی نے اپنا نام بتایا اور ہم اندر داخل ہوگئے.اندر داخل ہوتے ہی ہم نے دیکھا ایک غیر معمولی پینٹنگ لگی تھی. ایک بوڑھا آدمی جس کے بال سفید ہو چکے تھے ہاتھ میں بندوق لئے کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا. اس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا. وہیں دو جوان لڑکے ہاتھوں میں کلہاڑی لئے دروازہ پر نظر رکھے ہوئے تھے. ایک تاریک کونے میں دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور دیوار کی اوٹ میں اپنے چہروں کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں.لوگوں نے مجھے صورت حال سے آگاہ کیا. بوڑھے آدمی نے اپنی بندوق دیوار سے لگائی اور میرا کمرہ درست کرنے کے لئے کہا، لیکن عورتیں ابھی بھی اپنی جگہ پر تھیں. بوڑھا آدمی جلدی میں مجھ سے بولا، "جناب! دو سال قبل اسی رات میں نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا" اگلے ہی سال وہ بدلے کی غرض سے میرے پاس آ دھمکا (شاید اس کی روح تھی، جوش انتقام میں میرے آس پاس بھٹک رہی تھی) آج رات اسی کا انتظار ہے اور ہم بھی مقابلہ کیلئے پوری طرح تیار ہیں.جس قدر مجھ سے ہو سکا میں نے اسے تسلی دی. مجھے خوشی ہے کہ میں اس رات وہاں تھا اور اس توہماتی خوف کا عینی شاہد بنا. ان کی تسلی کی خاطر میں انھیں ادھر ادھر کی کہانیاں سنانے لگا اور کسی حد تک انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گیا.آگ کے پاس ایک مونچھوں والاکتا تھا، شاید اندھا تھا، اور ڈر کے مارے اپنا منھ اپنی ٹانگوں میں چھپا رکھا تھا.باہر زور کا طوفان تھا، بادل کی گرج مکان کی دیواروں کو ہلا رہی تھی، میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو درخت ہوا کی شدت سے آپس میں ٹکرا رہے تھے اور بجلی کی چمک سے روشن ہو رہے تھے.میری تمام تر کوششوں کے باوجود مجھے یہ محسوس ہوا کہ گہرے خوف نے انھیں جکڑ رکھا ہے. جیسے ہی میں اپنی بات روکتا ان کے کان کھڑے ہو جاتے. میں کہانیوں سے تھک چکا تھا اور اب سونے جا رہا تھا،کہ اچانک بوڑھا آدمی اپنی کرسی سے اچھل کر کھڑا ہوا، اس نے پھر سے بندوق تھام لی اور گھبرائی ہوئی آواز میں بولا "وہ رہا...! وہ رہا...! مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے". دونوں عورتیں پھر سے گھٹنوں کے بل کونے میں بیٹھ گئیں اور لڑکوں نے ہتھیار اٹھا لئے. میں انھیں دوبارہ شانت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ سویا ہوا کتا جاگ اٹھا اور دلگیر آواز میں کراہنے لگا. سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے، وہ اپنی جگہ سے حرکت تک نہیں کر رہا تھا، گویا کسی غیبی طاقت نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہو. وہ کسی انجان غیر مرئی شے کی طرف چلا جا رہا تھا جو یقیناً خوفناک تھی کیونکہ کتے کے جسم کے سارے بال کھڑے تھے. بوڑھا آدمی بولا "یہ اسے دیکھ رہا ہے! یہ اسے دیکھ رہا ہے! یہ وہاں موجود تھا جب میں نے اس کا قتل کیا تھا". دونوں عورتیں اپنی جگہ پر تھیں اور کتے کے ساتھ زاروقطار رو رہی تھیں.کتا ایک گھنٹے تک بغیر کسی حرکت کے بھونکتا رہا. اب مجھ میں کپکپی طاری ہو گئی تھی،میرے اندر بھیانک خوف داخل ہو گیا تھا؛ آخر خوف کس چیز کا؟ کیا میں اسے جانتا ہوں؟ نہیں، صرف ایک خوف طاری تھا بس.
اس خوفناک لمحہ کے انتظار میں ہم لوگ اسی حال پر تھے، مارے خوف کے ہمارا رنگ پھیکا پڑ رہا تھا، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں، ذرا سے شور سے بھی ہم پریشان ہو جاتے. اس کتے نے ہمیں پاگل کر دیا تھا. آخر کار وہ آدمی کتے پر جھپٹا اور اسے گھر کے باہر کر دیا.ہم اب بھی گھبرائے ہوئے اور خاموش تھے، اچانک ہمیں ایسا لگا کہ جنگل سے کوئی چیز دیوار سے لگتے ہوئے اندر داخل ہوئی، پھر دروازہ پر چلی گئی، ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اسے کسی چیز کی تلاش ہو. پھر چند لمحوں کیلئے ہمیں کچھ سنائی نہیں دیا، ہم خوف کے مارے مفلوج ہو کر رہ گئے تھے. وہ پھر سے واپس آ گیا اور دروازہ کو اپنے پنجوں سے نوچنے لگا، اچانک شیشے کے باہر ایک سر نظر آیا، سفید بال اور جنگلی جانوروں جیسی چمکتی آنکھیں، اس کے منھ سے پرسوز اور مبہم آوازیں آ رہی تھیں.پھر کچن سے ایک عجیب شور سنائی دیا، بوڑھے آدمی کو مارا جا رہا تھا. خدا کی قسم بندوق کی آواز نے جس کی مجھے ہرگز امید نہیں تھی میرے دل و جان میں ایسی اذیت پہنچائی کہ مجھے لگا کہیں خوف سے مر نہ جاؤں.صبح تک ہم وہیں رہے، نقل و حرکت کی طاقت نہیں تھی اور نہ کچھ بولنے کی. بالآخر جب ہم نے دروازہ کھولا تو پتہ چلا کہ کتا مرا پڑا ہے، اس کے سر پر گولی لگنے کا نشان ہے.اس رات درحقیقت کوئی خطرہ نہیں تھا، لیکن ان تمام لمحوں میں سب سے زیادہ پر خطر وہ لمحہ تھا جب گولی چلی تھی.