احمد صغیر تنقید و تحقیق کے آئینے میں

تبصرہ وتعارف
نا م کتا ب : بہار میں اردو فکشن اور
ایک تنقید ی مطالعہ
مصنف : ڈاکٹر احمد صغیر 
سن اشا عت اول :  2014 
قیمت :       300 سو روپئے
مطبع عفیف پرنٹرس دہلی 
مبصر :  ڈا کٹر وکیل احمد رضوی 
ڈاکٹر احمدصغیر ادبی میدا ن کے بڑے کثیر التصنیف شخصیت کا نا م ہے ۔ خصوصی طور پر افسا نوی ادب میں ان کی در جنو ں کتا بیں مو جو د ہیں علا وہ ازیں ان کے اندر تنفید ی بصیرت بھی زبرد ست ہے ۔ بہا ر میں اردو فکشن ان کی تیسری تنقید ی کتا ب ہے چو نکہ اس  سے قبل ان کی دو کتا بیں‘‘ اردو افسا نے میں احتجاج کی با ز گشت‘‘ اور’’ اردو افسا نے کا تنقید ی جا ئزہ ‘‘آج سے تقر یبا چا لیس سال پہلے شا ئع ہو چکی ہے ۔ پھر انہوں نے اردو فکشن میں ہی ناو ل کو مخصوص کرکے اردو نا ول کا تنقید ی جا ئزہ (1980کے بعد) منظر عا م پر لایا ۔ تنقید  اور تحقیق میں چو نکہ بڑا گہر ا رشتہ ہو تا ہے لہذا، انہوں نےتحقیق کے طو ر پر بھی ایک ضخیم کتا ب اردو دنیا خصو صی طو ر پر بہا ر کی یو نیو ر سٹیو ں میں اردو با ن و ادب کی توسیع وا ر تقا کا احاطہ کر تےہو ئے ایک ضخم تنقید کتا ب بہار کی یو نیو ر سٹیو ں میں’’ اردو زبا ن و ادب کی تو سیع و تر قی میں اسا تذہ کی خدمات‘‘ کے عنوا ن سے منظر عا م پر لایا۔ یہ کتا ب 2016 میں شا ئع ہو ئی ان کی تنقید ی اور تحقیقی کتا بوں کی ایک خا ص بات یہ ہو تی ہے کہ ان کی تصنف کر دہ کتابیں محض کتب خا نو ںکی زینت نہیں بنتیں بلکہ وہ اپنے  مو ضو عات اور عنوانات کے اعتبا ر سے اردو ادب کے طا لب علموں اور اسا تذہ کے لئے بھی لائق استفادہ ہو تی ہیں ۔ چو نکہ وہ کتابوں میں اتنا موا د جمع کر دیتے ہیں جسے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے طلبا ء کے در میا ن اس کی تلا ش رہتی ہے۔ 
بہر حا ل !یہا ں احمد صغیر کی تما م کتابوں کااس مختصر مضمو ن میں ذکر کر نا کوئی آسان کا م نہیں بلکہ ان کی تنقید ی کتابو ں میں ‘‘ بہا ر میں اردو فکشن (ایک تنقید ی مطالعہ ) پر سر سری نظر ڈا لنا اور ادب کے قارئین کے در میا ن اس کا مختصر تعا رف کر ا نا مقصود ہے ۔ ان کی تحریر وں کے مطا لعہ سے ایسا اندا زہ ہو تا ہے کہ انہیں اس با ت کا شد ید احسا س ہے کہ تنقید کے شعبے میں بہا ر کے فکشن نگاروں کے سا تھ ویسا انصا ف نہیں کیا گیا جیساکہ ان کی نگارشا ت متقا ضی ہیں ۔ شا ید اسی احسا س نے انہیں اس جا نب ما ئل اور متو جہ کیا حالانکہ وہ خود اس با ت کا اعتراف کر تے ہیں کہ ان کی اس نتقید ی کتا ب میں انہوں نے تنقید سے ذیا دہ تجزیا تی اندا ز سے کا م لیتے ہو ئے بہا ر میں افسانوی ادب (افسا نے اور نا ول ) کو اپنا مو ضوع بنا کر اس کا احا طہ کیا ہے ۔ اس کتا ب کی اہمیت اس لئے بھی بڑ ھ جاتی ہے چو نکہ انہوں نے بہا ر کے افسانوی ادب کا تذکر ہ ابتدا یعنی 1876سے لے کر 2013 تک تقر یبا  38 سا ل کی طویل مدت کا احاطہ کر تے ہوئے کیا ہے ۔ احمد صغیر چونکہ خود ایک اہم اور مقبو ل افسا نہ نگا ر ہیںاس لئے انہوں نے فکشن نگا روں کے ساتھ اتنی رعا ئت ضرور کی ہے کہ اسے سنا ر کی پر یا نی سے تو لنے کی بجائے ترا زو پر وزن کرنے کی کو شش کی ہے جس میں تھوڑا بہت پاسنگ کی گنجائش ہو تی ہے۔ اس کا اعتراف موصوف کچھ اس طر ح کر تے ہیں ۔ 
’’ایک با ر پھر میں اپنی با ت دہرا دوں کہ میں نا قد نہیں ہوں  اس لئے میں نے ان تخلیقی کا وشوں کو نا قد کی نگا ہ سے نہیں دیکھا ہے بلکہ ایک فکشن نگا ر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میر ا زور صرف متن پر رہا ہے ، موضوع پر رہا ہے یا اسلوب پر رہا ہے۔ نیز فن کو ملحو ظ خا طر رکھا ہے ۔‘‘ 
مذکو رہ کتا ب کے آغا ز میں مو صو ف نے ’’ بہا ر میں اردو نا ول ۔ آغا ز اور ار تقا ‘‘ کے عنو ان سے ایک تفصیلی اور تخقیدی مضمو ن لکھ کر شاد عظیم آبا دی کا نا ول صورت الخیال معرو ف بہ ولایتی کی آپ بیتی (1876) سے لیے کر آچا ریہ شو کت خلیل کا نا ول ’’ اگر تم لو ٹ آتے ‘‘ (2003) بلکہ اس کے بعد 2013 کے بھی کچھ ناول نگا روں کی نگا رشا ت کا جائزہ لیا ہے ۔ احمد صغیر نے اس کتا ب میں بہا ر سے تعلق رکھنے وا لے تما م فکشن نگارو ں کےاحوال و کوا ئف اور ذاتی تفصیلا ت سے عا م طور پر صر ف نظر کر تے ہوئے ان کے ادبی کا رنا مو ں کے ذکر تک ہی خود کو محدو د رکھا ہے ۔ ان کے ذریعہ تصنیف کردہ نا ولو ں کا نا م ، ان کا مختصر تعا رف ، تاریخی اور سیا سی پس منظر ، اور سماجی مسائل کے سا تھ ان کے اسٹا ئل اور اسلوب کا بھی جا ئزہ لیا ہے علاوہ ازیں ان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مختلف ناقدین ادب کی آرا ء کو بھی حوالے اور حواشی کے طو ر پر پیش کیا ہے۔ مو صوف نے مذکورہ 34 نا ول نگا روں جس میں سا ت خوا تین بھی شا مل ہیں جن کے نا ولوں کا جا ئزہ پیش کیا گیا ہے ۔ کتا ب کے دوسرے حصے میں بہا ر میں اردو افسا نہ ۔ آغا زو ارتقا کے عنوان سے بھی ایک مفصل تحقیقی مضمو ن شامل ہے ۔ جس میں اختر اورینوی سے لے کر عشر ت ظہیر اور خود احمد صغیر تک کے اسما ئے گر امی کو شامل کیا گیا ہے ۔ علا وہ ازیں مزید گیا رہ مر د اور 21 خواتین افسا نہ نگا روں کے بھی مختصر تعارف کرا ئے گئے ہیں ۔  
میر ے خیا ل میں یہ تنقیدی یا تجزیاتی کا وشوں کے سا تھ ایک بڑا تحقیقی کام بھی ہے چو نکہ اس طویل فہرست میں انہوں نے تقریباًتما م اہم نا موں کو شامل کر لیا ہے ۔ ان سب کی تلا ش و جستجو ہی ایک دشوار کن اور کٹھن مر حلہ ہو تا ہے ۔ چہ جائے کہ سب کا مطا لعہ کر نے کے بعد ان کا تذکرہ اور تجزیہ کر نا یقینا ً قا بل ستا ئش کا م ہے۔ موجو دہ یا آنے والی نسل کے ناقدین ، محقیقن اور ریسر چ اسکا لرز کے سامنے بہا ر میں اردو فکشن نگاری کی تا ریخ اور آغا و ارتقا پر کا م کر نے کے لئے مو اد احوا لہ جا ت کے طو ر پر احمد صغیر کی یہ کتا ب دیگر کتا بوں کے سا تھ میز پر ضرور رکھنی ہوگی انہوں نے مر د حضرا ت کے سا تھ ساتھ خوا تین فکشن نگاروں کو بھی ملحو ظ خا طر رکھا ہے ۔ اس کتا ب میں اردو فکشن نگاروں کی ایک طویل فہر ست شا مل ہےاور یہ فہر ست متحدہ بہا ر پر پر مشتمل ہے جس میں کل کا خطہ جنو بی چھوٹا نا گپو ر اور آج کا جھارکھنڈ بھی شا مل ہیں ۔ بہا ر میں اردو فکشن (نا ول اور افسا نہ ) کے حو الے سے مطا لعہ کے لئے یہ کتاب بے حد مفید اور معلو ما تی ہے جس کا مطا لعہ ادب کے طالب علمو ں کے لئے نا گزیر ہے ۔