راحت اندوری کی نعتیہ شاعری : ایک جائزہ

  فاطمہ حق
ایم-اے( گولڈ میڈلسٹ) 
ریسرچ اسکالر 
رانچی یونیورسٹی ،رانچی
رابطہ نمبر -9507542057
اردو کی ادبی تاریخ میں نعتیہ شاعری ایک مستقل صنف کی حیثیت سے بے حد مقبول ، شیریں اور دل نشیں صنف بن گئی ہے۔ ابتدا سے عہدِحاضر تک اردو میں نعت نگاری کا سرمایہ موجود ہے ۔ اس کا بھر پور محاسبہ کرنے کے بعد اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اردو میں بہ مشکل کوئی ایسا شاعر ملے گا جس نے ایک بھی نعتیہ شعر نہ کہا ہو ۔
نعت گوئی سے مراد وہ شاعری ہے جس میں خالصتاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی جائے۔ اوصاف حمیدہ اور محاسنِ پاک بیان کئے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ممدوح سے بے پناہ عقیدت شامل ہو اور جب تک یہ پُرخلوص عقیدت اپنی تجلّی نہیں دکھاتی اور نعت گوئی میں خون جگر کے ساتھ عقیدت و محبت کی آمیزش نہیں ہو تی ۔ نعت بے جان ہوجاتی ہے ۔ اس صنف میں جادو اعجازِ محبت سے جاگتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ جتنی مستی اور سرشاری کی کیفیت اُبھرے گی اتنا ہی کلام میں سوز، نکھار ، دل آویزی ، دل نشینی اور طرحداری پیدا ہوتی ہے ۔ ہیئتی اعتبار سے نعت گوئی کی شاعری کو غزل ، قصیدہ ، مثنوی، رباعی، قطعہ ، مربع، مخمس، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند ، مستزا وحتٰی کہ آزاد و معرّا کے پیکروں میں نظم کی جاسکتی ہے ۔
اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک اہم اور نمایاں نام ڈاکٹر راحت اندوری کا ہے ۔ راحت اندوری کئی دہائیوں تک اردو مشاعرے کا سرتاج رہیں۔ مشاعرے کے سامعین نے انہیں تالیوں سے اُچھلایا اور واہ واہ سے بلند کیا۔
اپنی شاعری کے ضربِ کلامی سے راحت بے فصاحیت طاقتوں کی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کے بُت کو لہولہان کردیا۔ مجھے راحت کی نعتیہ شاعری پر اظہارِ  خیال کرنا مقصود ہے -ان کی نعتیہ شاعری کا اختصاص یہ ہے کہ ان کے یہاں حضور اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت کی خوشبو آتی ہے ۔ حضور اکرم ؐ کے فضائل محامد کو اس عقیدت اور فنکا رانہ ہنرمندی سے راحت نے پیش کیا ہے ۔ یہ ان کے جذبے کی آئینہ دار ہے ۔
اپنی باتوں کی تائید میں چند اشعار پیش کرنا چاہوں گی    ؎
امینِ حرف و صدا بھی یہیں کہیں ہوگا
شفیع روزِ جزا بھی یہیں کہیں ہوگا
یہ عاشقانِ رسولِ خدا کی محفل ہے
مجھے یقین ہے خدا بھی یہیں کہیں ہوگا 
 -------
تمام ذرے ستارہ صفت نہ ہوجائے
یہ رہ گزر ہے یہی کہکشاں نہ ہوجاتی
اگر حضورؐ کا سایہ زمین پہ پڑجاتا
تو یہ تمام زمیں آسماں نہ ہوجاتی
اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حُبّ ِ رسول ہی راحت کی زندگی کا ماحصل ہے اور احساسات و جذبات کااصل مرکز ومحور ہے ۔
یہ تمام اشعار دل کی گہرائیوں سے اُبھرتے ہیں۔ الفاظ سادہ اور شفاف ہوتے ہوئے بھی شاعرانہ لطافت سے خالی نہیں ہیں۔ اشعار میں آنحضرت ﷺ سے والہانہ شیفتگی کی صاف اور روشن تصویر نظر آتی ہے ۔ اس سلسلے میں چند اشعار ملاحظہ ہوں جو سنجیدہ اور متین ہیں۔ ساتھ ہی جوش و عقیدت کے نور سے معمور بھی  ؎
بند آنکھیں ہیں چارسو ہیں آپ
اس اُجالے کی آبرو ہیں آپ
نعت پڑھتا ہوں اور لرزتا ہوں
ایسا لگتا ہے روبرو ہیں آپ
راحت اندوری کا ایک نعتیہ قطعہ جو مدحتِ رسول کا غماز ہے ۔
زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
اے نبی، آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا
یہ اشعار شاعر کے جذبات دروں کے آئینہ دار ہیں۔ خیال میں پاکیزگی اور تقدّس ہے اور جذبات میں گہرائی وگیرائی بھی۔
  راحت اندوری کے نعتیہ کلام پڑھنے سے قارئین کے دلوں میں ایمان و آگہی کے نور کا چشمہ اُبل پڑتا ہے اور روحانی کیف و سرور حاصل ہوتا ہے۔ عقیدت کے اس والہانہ پن میں بھی ادب و احترام کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ایسے اشعار پڑھ کر محبّان نبی پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ دیکھیں یہ اشعار  ؎
کچھ دن سےمرے سوچ کی گہرائی بڑھ گئی
کچھ دن سے مرے فکر کی اونچائی بڑھ گئی
نعلین جب سے آپ کو دیکھے ہیں خواب میں
محسوس ہورہا ہے کہ بینائی بڑھ گئی
اشعار میں جذبات کی سچائی ہے خیالات کی صفائی کو نہایت ہی حسن و خوبی سے برتا گیا ہے اور تمام اشعار اتنے دیدۂ زیب اور جاذب نظر ہیں کہ قاری کی نگاہ جم کررہ جائے ۔ یہ اشعار راحت اندوری کی جدّت طرازی اور قوت ایجاد کے بہترین مظہر ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے پورے خلوص ، عقیدت اورصداقت سے کہا ہے ۔ یہ اشعار اتنے رواں ہیں کہ پڑھنے والے کے دل کو مسرت اور دماغ کو تازگی نصیب ہو تی ہے ۔ راحت اندوری سچّے عاشق رسول ہیں ، عشقِ رسول راحت کا عقیدہ محکم اور ایمان و ایقان ہے۔
ان کی دلی تمنّا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو گنبدِ خضریٰ کی زیارت جلد سے جلد کی جائے ۔ اس کے لیے وہ بیتاب نظر آتے ہیں ۔ اُنہیں چین نہیں ملتا۔ ایسے اشعار عام فہم بھی ہیں لیکن سوز و گداز قلب اور عاشقانہ جذبات سے مملو بھی۔ حُبِّ نبی میں سرشار دیارِ حرم کی خاک کا پیوند بننے کی آرزو لے کر مچلتے ہیں۔
نمونہ کلام چند اشعار یہ ہیں ؎
میں ہندوستان میں ہوں اور مدینہ پاس رہتا ہے
انگوٹھی دور رہتی ہے نگینہ پاس رہتا ہے
لگارکھی ہے لو سرکار کے دربار سے میں نے
اسی دربار سے جنت کا زینہ پاس رہتا ہے
کہیں اب کے برس بھی رہ نہ جائوں زیارت سے
بہت روتا ہوں جب حج کا مہینہ پاس رہتا ہے
نہ جانے کون سی دنیا میں رہتا ہوں وہاں جاکر
نہ مرنا پاس رہتا ہے نہ جینا پاس رہتا ہے
مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ راحت اندوری نے اپنی نعتیہ شاعری کے توسط سے اپنی عقیدت و محبت کا انمول تحفہ جس قدر خلوص و محبت، عاجز و انکساری کے ساتھ پیش کیا ہے وہ اثر آفرینی کے حسن سے مملو ہے-
اس میں شاعر کے شکستہ دل کی فریاد بھی شامل ہے اور ہر شعر بارگاہِ نبوی میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بیتاب ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ راحت اندوری کی نعتیہ شاعری کے مطالعے سے قارئین کے دلوں میں ایمان و آگہی کے نور کا چشمہ اُبل پڑتا ہے اور روحانی کیف و سرور حاصل ہوتاہے۔ بلاشبہ راحت اندوری فنِّ نعت نگاری میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کا نعتیہ کلام خلوص و محبت کے جذبے سے سرشار ، عشق و یقین کی خوشبو سے معطر اور تسلیم و رضا کے رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔