اردو کی عظیم شخصیت :پروفیسر گوپی چند نارنگ

پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کا ایک ممتازو معروف نام ہے۔ایک ایسی بے لوث شخصیت جنھوں نے اپنی پوری عمرِ عزیز اردو زبان و ادب کی آبیاری میں صرف کردی۔اردو ادب کی چند گنی چنی معروف شخصیات میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک اہم مقام پر فائز ہیں۔انھوںنے اپنی خدمات سے اردو زبان و ادب کو عروج و اعتبار بخشا ہے۔اسی لیے آج ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اردو زبان کو ایسی خدا داد صلاحیت والی شخصیت نصیب ہوئی ہے جس کا نام پروفیسر گوپی چند نارنگ ہے۔جس نے حقیقاًاس زبان کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور اس کی تن من دھن سے خدمت کی۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بحیثیت محقق، بحیثیت نقاد،بحیثیت ماہرِ لسانیات ،بحیثیت استاد اوربحیثیت منتظم بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ان کی ہمہ جہت شخصیت انھیں نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر ممتاز و مقبول بناتی ہے۔جہاں تک تحقیق و تنقید کا معاملہ ہے تو طالب علموں ،ریسرچ اسکالروں یہاں تک کہ اساتذہ صاحبان کے لیے بھی نارنگ صاحب کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں ممدو ومعاون ثابت ہوئی ہیں۔بحیثیت ایک قاری مجھے نہیں لگتا کہ اردو ادب کا کوئی اہم موضوع ان سے اچھوتا رہاہوگا۔بلکہ موصوف ہر موضوع پر ہمیشہ بے باکی اور ایمانداری کے ساتھ تحریری یا زبانی طور پر اپنی دانشورانہ رائے سے نوازتے رہے ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اب تک اسی سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔اگر یہاں صرف ان کی تحریرو تصنیف کردہ کتابوں کے نام لیے جائیں تو کئی صفحات محض کتابوں کے نام گنانے میں صرف کرنے ہوں گے ۔جو نئے قارئین ان کی سوانح یا ان کی کتابوں سے روشناس ہونے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ وکی پیڈیا، ریختہ، پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ویب سائٹ یا ایسی درجنوں ویب سائٹس ملاحظہ کر سکتے ہیں جہاں انھیںپروفیسر موصوف کی ہمہ جہت شخصیت کا بہ خوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ بچپن ہی سے بہت ذہین وفطین اور نرم طبیعت کے واقع ہوئے ہیں۔وہ بہت ملنسار،خوش مزاج اورشریف النفس شخصیت کے حامل ہیں۔اردو زبان و ادب میں ان کے شغف کو دیکھتے ہوئے پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے انھیں اردو کی طرف راغب کیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نارنگ صاحب نے آگے چل کر شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی ہی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں یہیں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ان کی خدمات ، قابلیت اور ہمہ جہت شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں پروفیسر ای میریٹس کے اعزاز سے نوازا گیا۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری اورپدم بھوشن جیسے اعزازات سے بھی سرفراز کیا۔گوپی چند نارنگ صاحب کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز بھی حاصل ہوا ہے ۔اس کے علاوہ انھیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر درجنوں انعامات و اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔حال ہی میں انھیں مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے اقبال سمان سے بھی سرفراز کیا گیا۔گوپی چند نارنگ کو زبان شناس کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔نارنگ صاحب اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں پر بھرپور دسترس رکھتے ہیں۔بلکہ مذکورہ زبانوں میں ان کی کئی تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔جن کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی چند اہم تصانیف میں ’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘،’غالب:معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘،’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘، ’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں‘،’کلیات ہندوی امیر خسرو‘،’سفر آشنا‘،’راجندر سنگھ بیدی‘،’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘،’فکشن شعریات تشکیل و تنقید‘ ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری‘، ’جدیدیت کے بعد‘،’کربل کتھا لسانی مطالعہ‘،’قاری اساس تنقید‘،’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘،’اردو زبان و لسانیات‘، ’اسلوبیاتِ میر‘،’انیس شناسی‘،’بلونت سنگھ کے منتخب افسانے‘ اور’املا نامہ ‘وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔گوپی چند نارنگ کی یوں تو سبھی کتابیں اہم ہیںلیکن یہاں طوالت سے اجتناب برتتے ہوئے چند ہی کتابوں کے نام لینے پڑ رہے ہیں۔ان کتابوں کے مطالعہ سے ذہن کے دریچے وا ہوتے ہیں اور کئی نئے موضوعات جنم لینے لگتے ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ بہت گہرائی و گیرائی اور دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں آج بھی موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ خسرو شناسی،میر شناسی،انیس شناسی وغیرہ کی وجہ سے بھی ان کا قد اونچا ہوا ہے۔انھیں کئی کاموں میں اولیت حاصل ہے مثلاً بلونت سنگھ پر پہلا معتبر اور جامع تحقیقی فریضہ نارنگ صاحب ہی نے انجام دیا۔اردو ادب میں جو اہم تحریکیں اور رجحانات موضوعِ بحث بنے ہیں ان میں رومانی تحریک،ترقی پسند تحریک،جدیدیت اور مابعدجدیدیت سرفہرست کہے جا سکتے ہیں۔جدیدیت کے بعد جو آخری تحریک یا رجحان قارئین اورادبا و شعرا کی توجہ کاخاص مرکز بنا وہ مابعدجدیدیت ہے۔اس حوالے سے کئی اہم کتابیں اور مقالات تصنیف کیے گئے۔کہنے کا مقصد صاف ہے کہ مابعد جدیدیت کے بانی پروفیسر گوپی چند نارنگ ہی ہیں۔ان کی تحقیقی و تنقیدی اور تصنیفی خدمات پر ہندوپاک کی کئی جامعات میں تحقیق ہورہی ہے۔نیز کئی محققین و ناقدین کی اہم کتابیں منظرِ عام پر بھی آچکی ہیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ جہاں بھی گئے وہاں انھوںاپنے نقش چھوڑے ۔جس کام کو ہاتھ لگایا اسے سونا بنا دیا۔ان کی تحریر میںجو متانت ،شائستگی اور سنجیدگی نظر آتی ہے اس میں ان کے استاد محترم مرحوم پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کا رنگ جھلکتا ہے۔یہاں یہ کہنا بھی واجب ہے کہ موصوف نے خواجہ احمد فاروقی پر بھی ایک مستند مجموعہ کی اشاعت بھی عمل میں لائی،اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ استاد کی حلق تلفی یا احسان ناشناسی نارنگ صاحب کو بالکل راس نہیں ہوتی۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو زبان کو کئی قابل استاد، نقاد اور محقق دیے اوراس فریضے سے وہ کبھی عہد بر آ نہیں ہوئے۔نارنگ صاحب آج بھی ادبی محفلوں ،مذاکروں میں شریک ہوتے ہیں۔انھیں دوسروں کی عیب جوئی پسند نہیں بلکہ وہ ہمیشہ اپنے معاصرین اور نئی نسل کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اردو دوستی اور ناقابل فراموش ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اسے سنہرے حروف میں رقم کیا جائے گا۔