جوانی کی ہوس : ایک سرسری جائزہ

محمد لطیف میر
اسسٹنٹ پروفیسر،گورنمنٹ ڈگری کالج،مہنڈر(جموں و کشمیر)
رابطہ نمبر:9596822463 
کہانیـ ’’ جوانی کی ہوس ‘‘ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’پُرانوں کی کہانیوں ‘‘ میں شامل ہے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ میں نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دلی نے شائع کی۔ اس میں کل بائیس کہانیاں ہیں۔ پُران بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ’’ ہندستانی دیو مالا اور آساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندستانی ذہن و مزاج کی آریائی اور دراوڑی تمدن اور نظریات کے ادغام کی اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے سے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے کہیں نہیں۔‘‘ (۱) 
یہ کہانی جوانی کی ہوس ’’ پانڈئوں کے اگلوں میں گزرے ’’جیاتی ‘‘ نامی ’’راجا‘‘کی سرگزشت ِ خواہشات کو موضوع بناتی ہے کہ ’’ جیاتی ‘‘ جو نہایت ہی بہادر اور جری بادشاہ ہے اور جو ایک کے بعد کئی علاقے فتح کرتا جاتا ہے ،کی شادی شنکرآچاری کی بیٹی’’ دیوبان‘‘ سے ہوتی ہے۔ چناں چہ اس بادشاہ کی عالی ہمتی اور فاتحانہ حوصلوں کو دیکھتے ہوے ’’اِندر‘‘  اسے نہایت ہی برق رفتار رتھ عطا کرتا ہے اور یوں ’’جیاتی‘‘ بدولت اس رتھ کے تمام دنیا کی سیر کرتا ہے اور متعدد ممالک کو فتح بھی کرلیتا ہے۔ وہ اگر چہ کہ اعلی پائے کا مہم جو اور حوصلہ مند فاتح ہوتا ہے، تاہم وہ بڑھاپے سے خوف زدہ ہو جاتاہے اور اس پر قابوپانے کی کمال حکمت عملی سے تدابیر کرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بڑھاپا اُس سے دنیاوی جاہ و جلال اور عیش و عشرت چھین لے۔ لیکن چوں کہ بڑھاپے سے مفر نہیں،  اس لیے اس بابت وہ اپنے گرو جی مہاراج سے استدعا کرتا ہے کہ وہ کیا تدبیر ہے جواُس کی دنیاوی عیش و عشرت کے مانع نہ آئے یعنی بڑھاپے کے عذاب سے نجات کیوں کر ممکن ہے؟۔ 
وہ اب ایسے نسخے کی تلاش میں ہے کہ جس سے اسکی جوانی عود آئے اور وہ اس دنیا کی لذتوں کو کشید کرتا رہے۔وہ اپنے گرو کی اس تدبیر کہ اگر کوئی بیٹا اس کو اپنی جوانی دے دے تو وہ پھر جوان ہو سکتا ہے۔چنانچہ یہ بادشاہ اس امید کے ساتھ کے بہت ممکن ہے کہ اس کا ولی عہد یعنی بڑا بیٹا، بادشاہ کو اپنی جوانی عنایت کرنے کی خدمات انجام دے، اس سے اپنی خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔مگر ولی عہد،  بادشاہ یعنی والد کو کورا جواب دے دیتا ہے کہ دنیا کی لذتوں کو کشید کرنے  کے لیے جو جوانی آپ کو مقصود ہے ، وہ اسے )بیٹے کو (بھی عزیز ہے۔ اس طرح چار بیٹے بادشاہ کی خواہش کہ اس کی خدمت میں اپنی جوانیاں پیش کر دیں، کا کوئی احترام نہیں کرتے مگر پانچواں اور سب سے چھوٹا بیٹا، بادشاہ کی خواہش کا احترام کر اپنی جوانی اس کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح بادشاہ حضور کو جوانی مسیر آجاتی ہے اور وہ جی بھر کر دنیا کی سیر وتفریح کا سامان بہم پہنچاتا ہے مگر آخر مانگے کا اجالاکب تک ساتھ دیتا ۔ بڑھاپا پھر بادشاہ سلامت کی دہلیز پہ آکھڑا  ہوتا ہے۔ وہ پھر اپنے گروہ کی خدمت میںجوانی کی بھیک مانگنے حاضر ہوتا ہے اور ایک بار پھر اس کی مراد  بر آتی ہے۔اور یوں اس کو مزید سیرِ دنیا کا موقع ہاتھ آجاتا ہے اور وہ جی بھر کر دنیا کی لذتیت سے لطف اندوز ہوتا ہے مگر یہ جوانی بھی تھوڑے عرصے کے بعد سراب ثابت ہوتی ہے اور بادشاہ پھر جوانی کی بھیک مانگنے اپنے گرو کے آستانے پر دھونی جماتا ہے اور ایک بار پھر سابقہ طریق کے مطابق اس کو جوانی کا تحفہ میسر آجاتا ہے اور یوں وہ مزید دنیائے رنگ وبوں کی پر کشش بہاروں کے نظاروں کا رس نچوڑنے میںکوئی دقیقہ مزوگزاشت نہیں کرتا۔ مگر دنیا چوں کہ ناپائیدار ہے، اس لیے بڑھاپا پھر آن پہنچتا ہے اور جیاتی  )بادشاہ ( پھر جوانی پانے کی آرزو لے کر اپنے گروہ مہاراج کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے کہ شاید کوئی تدبیر کام آجائے۔حالاں کہ جیاتی اس سے قبل لوگوں سے جو انیا ں مانگ مانگ کر لگ بھگ ہزار سال تک زندگی کو حسیں بناتا رہتا ہے  اور قدرت کی رنگا رنگی کے مزے لوٹتا رہتا ہے۔ اب کی بار گرو مہاراج پوچھتا ہے تو بادشاہ پھر وہی جواب دیتا ہے کہ میری خواہشات ابھی تشنئہ تکمل ہیں اور میرا دل بھی اب تک بھٹک رہا ہے۔ آخر کار اچاریہ گرومہاراج بادشاہ کو نصحیت کرتا ہے کہ"اے راجا! اگر تم لاکھوں سال بھی جوان رہو اور عیش وعشرت میں ڈوبے رہو تو بھی تمہاری خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں۔ خواہشات کے پیچھے بھاگنا  ایسا ہے جیسے آگ میں گھی ڈالنا۔جتنا تم خواہشات کو پورا کرنے کے پیچھے بھاگو گئے اتنی ہی یہ آگ زیادہ بھڑے گی" (۲) 
اچاریہ گرو جی کے یہ الفاظ سننے کے بعد راجہ سوال کرتا ہے کہ مہاراج! پھر من کی شانتی کا کیا راستہ ہے؟ اچاریہ گرو جواب دیتے ہیں کہ خواہشات پہ قابو پانے کی کوشش کرو اور ایسی چیز کی خواہش ہر گز نہ کرو جو تمہاری پہنچ سے باہر ہو۔من کی شانتی صبر کے راستے پر جا کر ملتی ہے۔اب راجہ من کی شانتی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔یہاں جیاتی بے لگام خواہشات اور دینوی لذت کے حصول اور حرص کی علامت ہے جب کہ گرو جی مہاراجہ ترک خواہشات  اور من کی شانتی کی علامت!
ہندوستانی دیومالائی مصادر میں خواہشات کو ترک کرنے پر ہمیشہ زور رہا ہے اور یہ ترک خواہشات  بتدریج ترکِ دنیا پر منتج ہوتا ہے۔  بھگوت گیتا جو اہل ہند کی مقدس مذہبی کتاب ہے اور جو دراصل اہل ہند کے نام شری کرشن جی کا پیغام ہے ، وہ بقول حسن الدین  احمد "ایک فلسفیانہ  اور مذہبی گیت ہے"  (۳)  اس میں خواہشات کو ترک کرنے پر مکتی اور نروان کا وعدہ ہے۔ یعنی یہ وہ مقام ہے جہاں تکمیل ذات کا عمل وجود میں آتا ہے۔بھگوت گیتا میں شری کرشن ، شری ارجن سے ایک جگہ کہتے ہیں:
’’  وہ شخص اطمنانِ قلب حاصل کرتا ہے جس کے دل میں خواہشات ایسے ہی جاتی ہے جیسے کہ دریا سمندر میںبلا تردد کے سما جاتا ہے۔ دنیاوی خواہشات  رکھنے والے کو یہ اطمنان قلب حاصل نہیں ہو سکتا ۔تمام خواہشات کو چھوڑ کر جو آدمی خواہش،  غرض ، غرور سے آزاد ہو کر آگے بڑھتا ہے وہی سکون حاصل کرتا ہے۔  اے پارتھ! عرفان کی حالت یہی ہے کہ اِس حالت کے حصول کے بعد کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ آخر وقت تک اسی حالت میں رہ کر نجات پاتا ہے۔ ‘‘  (۴) 
    "جوانی کی ہوس میں راجہ جیاتی کو اچاریہ گرو مہاراج یہی آدرش دیتے ہیں  اور اس کہانی کا حاصل بھی یہی ہے کہ جو لوگ من کی شانتی کا  راستہ اختیار کرنے کے متنمی ہیں ، وہ خواہشاتِ نفس سے تائب ہو جائیں۔
چوں کہ جوانی کی خواہشات کی آگ کو اگر کوئی چیز ٹھنڈا کر سکتی ہے تو وہ ترک خواہشات کا عمل ہے اور یہ راستہ اطمنانِ قلب کا ہے۔ ترک خواہشات کا یہ حکم بدھ مت کے فلسفیانہ خیالات میں مباویات کا درجہ رکھتا ہے۔ بدھ مت کے یہی وہ خیالات تھے جن کی بدولت اپنی ابتدائی صدیوں میں ان خیالات نے برہمنی مذہب کے رسوماتی اور ذات پات پر مبنی عقیدے پر غلبہ حاصل کیا تھا۔ بدھ مت کے عدمِ ذات پات کے نظام ِفکر نے برہمنی مذہب کے مقابلے میں ایک ایسا اخلاقی دستور پیش کیا تھا کہ لوگ جوک در جوک اس میں داخل ہوتے چلے گئے۔ اگر چہ بھگوت گیتا کا فلسفیانہ ماخذ اپنشد ہے، تاہم برہمی نظامِ فکر میں قربانیوں اور دیگر رسموں نے اس کے سیدھے سادے پیغامِ انسانیت کو کسی حد تک پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ حسن الدین احمد کا خیال ہے کہ بھگوت گیتا کا پیغام بہت سادہ ہے اور اسکی تعلیمات ایسی ہیں کہ جن پر امیر وغریب سب عمل کرتے ہیں۔اس کی تعلیمات ہندومت کی فلسفیانہ بنیاد ہے۔اس کا مصنف عمیق ووسیع نظر کا حامل ہے۔ اس کا نقطہِ نظر تنقیدی نہیں ہے۔وہ کسی خاص جماعت کو مخاطب نہیں کرتااور نہ کوئی نیادبستان قائم کرتا ہے۔ وہ ہر قسم کی عبادت کو تسلیم کرتا ہے۔ اور کسی طریقہ کی بھی مخالفت نہیں کرتا۔۔(۵)
یہ کہانی اپنے ارتقاء میں خواہشات کی تکمیل کی جانب پیش قدمی کرتی ہے۔ راجا خواہشات کا  پتلا ہے اور چاہتا ہے کہ خواہشات کی تکمیل اور شاہانہ زندگی کی لذتیت کے حصول کی راہ میں کوئی چیز مانع نہیں آنی چاہیے۔ہندودیومالامیں راجا کا بڑا بیٹا " ولی عہد" ہوتا ہے چوں کہ راجائوں کو بھگوان کا روپ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ " راجا" کے ہر حکم کی تکمیل کی جائے۔ اس کی ہر خواہش کا احترام کیا جائے۔ اور اس کے حضور میں نیاز گزاری جائے۔ فرشی سلام کیا جائے اور اس کے ہر فرمان کو بے چوں و چرا تسلیم کیا جائے۔ نیک اولاد کا یہی دستور ہے۔ رامائن میں شری رام چندر جی اس فرمان برداری کی واضح مثال ہے۔ وہ والد کے حکم پر چودہ سال بن باس کے لئے فورا تیار ہو جاتے ہیں۔ اور کوئی پس وپیش نہیں کرتے جب کہ جوانی کی ہوس کا ولی عہد’’ راجا جیاتی‘‘  )والد،بادشاہ(کی خواہش کا کوئی احترام نہیں کرتابلکہ جواب دیتا ہے کہ مہاراج !جب اپنی پوری جوانی کا لطف اٹھانے کے بعد بھی آپ کا جی نہیں بھرا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس کا مزہ لیے بغیر ہی اس کو (جوانی ) آپ کودے دوں اور یوں اس حکمِ  عدولی کی پاواش میں راجا بڑے بیٹے کو ولی عہدی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہاں دیکھا جائے تو خواہشات کا تصادم ہے اور اس تصادم میں خون کے رشتے بھی بے معنی ہو جاتے ہیں۔  راجہ اپنی خواہشات یعنی جوانی کے حصول کی خاطر بیٹے کی آرزوں اور تمنائوں کا قتل کرنے کا مرتکب ٹھرتا ہے اور شفقتِ بدری کے جذبے سے عاری ہو جاتا ہے۔ وہ بیٹے کی معصوم خواہشات کو ا پنے تحکمانہ انداز سے دبا دیتا ہے اور یوں اپنی انا کی تسکین کے لیے دوسرے بیٹوں سے رجوع کرتا ہے اور سب سے چھوٹے بیٹے کو بلی کا بکرا بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہاں راجا ایک جان لیوا جبر کی علامت بن کر سامنے آتا ہے اور شاید تمام راجائوں کی فطرتِ  حریصہ کا  نمائندہ بھی۔ دوسری جانب سب سے چھوٹا بیٹا اپنی جوانی دان کر کے حقِ پسری ادا کرتا ہے۔ اس کی فرما برادری اور والد کے تئیں خلوس کہانی کا ایک روشن پہلو ہے۔اس کے لیے والد جو راجا بھی ہے ،کا حکم اور خواہش کی تکمیل ہی زندگی کا سرمایا ہے۔  کہانی ’’جوانی کی ہوس ‘‘کی خوبی اس کا فطری ارتقا اور سادہ اندازِ بیان ہے۔راجا کا کردار کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اور یوں یہ کردار پوری طرح کہانی پر چھایا رہتا ہے۔ یہ کردار اپنی انا کی تسکین کی خاطر مسلسل اور آخری لمحے تک لوگوں کی جوانیوں کو بھینٹ چڑھاتا رہتا ہے اور بالآخر وہ اس مقام پر آجاتا ہے کہ جہاں من کی شانتی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یعنی وہ اچاریہ گرو کی نصحیت کو قبول کر لیتا ہے اور اطمنانِ قلب حاصل کر لیتا ہے۔ بھگوت گیتا کا بیان ہے’’ خواہشات کی تمنا رکھنے والے آدمی کو اس میں کشش ملتی ہے اور اس کشش سے خواہش پیدا ہوتی ہے او رخواہش سے غصہ جنم لیتا ہے۔ غصہ سے بیوقوفی پیدا ہوتی ہے اور بیوقوفی سے حافظے کی کمزوری۔ حافظے کی کمزور سے استدلال باقی نہیں رہتا اور استدلال باقی نہ رہنے سے وہ خود تباہ ہو جاتا ہے۔ (۶)