نارنگ انکل:انٹرویو کے آئینے میں

(استوتی اگروال ،سرونج )
اگروال جیولرز ،سرونج ،ایم پی 
-9575089694
  پروفیسر گوپی چند نارنگ دنیائے ادب کی سب سے ممتاز شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔وہ ایک بڑے ناقد ،محقق ،ماہرِ لسانیات ،مفکر اور ایک ایسی نامور ہستی ہیں جن سے ادبی دنیا اچھی طرح واقف ہے ۔ اُن کے بارے میں لکھنے کے لئے نہ ہی میرے پاس الفاظ ہیں ، نہ میرا قد ہے نہ ہی میں اتنی بڑی ہوں کہ اُن کی شان میں کچھ لکھ سکوں اور اُن کی شان میں لکھنا اپنی بے وقوفی کا ثبوت دینا تو نہیں ہے ؟ جب میں دس سال کی تھی تب سے ہی اپنے ڈیڈی انل اگروا ل سے گوپی چند نارنگ اور اُن کی شریکِ حیات منورما نارنگ کا تذکرہ سنتی آئی ہوں ۔ ڈیڈی اور سیفی صاحب ساہتیہ اکادمی کے انٹرنیشنل سیمیناروں میں بھی شرکت کر چکے ہیں اور اُن سے ملاقاتوں کا ،ان کے اخلاق کا ،ان کی تقریروں کا اور سیمینار کے منجمینٹ کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ۔ ڈیڈی مجھے بتاتے تھے کہ سیمینار ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ون مین شو) (one man showہے چونکہ سب کی نگاہیں صرف نارنگ صاحب پر ہی رہتی تھیں اور وہ جس طرح سے سیمینار کو سنبھالتے تھے وہ قابلِ داد ہے اور جب وہ تقریر کرنا شروع کرتے تھے تو تمام سامعین کے بیچ پِن ڈراپ سائلینس کا ماحول برپا ہو جاتا تھا ۔ میرے ساتھ ایک یادگار واقعہ پیش آیا تھا اور میں اُسے لکھنا یہاں مناسب سمجھتی ہوں کیونکہ اُس کا تعلق نارنگ صاحب سے ہے ۔ دو سال قبل عید کے موقع پر پروفیسر خالد محمود سے میں اور میرے ڈیڈی ملاقات کے لئے گئے تھے ۔ اُس وقت میں نے اردو لکھنا پڑھنا شروع ہی کیا تھا اور اسی دن میں نے خالد صاحب کو ٹوٹی پھوٹی اردو میں اُن کا ہی ایک مشہور شعر لکھ کر انہیں پیش کیا تھا ۔ وہ شعر یہ تھا :
ابھی  دھوپ  خالد  پے آئی  نہ  تھی 
کہ  دیوار   دیوار     چلنے     لگے 
خالد صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے پانچ سو روپئے عیدی میں دیے ساتھ ہی ان کی بیگم پروفیسر تسنیم فاطمہ نے مجھ سے کہا کہ اردو لکھنے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا ،اگر اردو پڑھنا ہے تو خوب پڑھئے اور اتنا پڑھئے کہ ایک دن آپ پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسا بن سکیں ۔ اِس واقعہ سے مجھ میں اردو لکھنے پڑھنے کی جستجو اور بڑھ گئی ۔ اس کے بعد میں نے نارنگ صاحب پر سیفی سرونجی کی لکھی ہوئی کتابوں کا ،نارنگ صاحب پر دیگر رسالوں کے نمبر کا  سیفی لائبریری میں بیٹھ کر روزآنہ مطالعہ کرنا شروع کر دیا ۔ایسا کوئی دن نہیں جاتا جس دن گفتگو کے دوران نارنگ صاحب کا ذکر نہ کیا جاتا ہو کبھی ان کی تحریروں کا ذکر ہوتا ،کبھی تقریروں کا ذکر ہوتا اورکبھی ان کے بیرونی سفر کا ذکر ہوتا۔غرض یہ کہ اُن کے بارے میں سُن کر میرا اشتیاق بڑھتا ہی گیا کہ میں نارنگ صاحب کی کتابیں پڑھوں ۔اس کے بعد جو کتابیں میرے پاس محفوظ تھیں ان کا اور سیفی صاحب سے جو کتابیں لے کر آئی تھی ان کا بھی مطالعہ کرنا شروع کر دیا جن میں ’’ ما بعد جدیدیت اور گوپی چند نارنگ ‘‘، ’ ’گوپی چند نارنگ اور اردو تنقید ‘‘،’’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب ‘‘،’’دیکھنا تقریر کی لذت‘‘،’’کاغذ آتش زدہ‘‘ وغیرہ نمایاں نام ہیں ،لیکن جب ’’کاغذ آتش زدہ‘‘ مطالعہ کرنے کے لئے نکالی تو دو ہی صفحا ت پڑھ کر اسے واپس ریک میں رکھ دیا ۔ کیونکہ نارنگ صاحب کے ایک ایک جملے میں اتنی گہرائی و گیرائی ہوتی ہے کہ مجھ جیسی کم عمر طالب علم کے لئے اتنی پختہ تنقید کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہے ۔دھیرے دھیرے میں اُن کی شخصیت سے متاثر ہوتی چلی تھی اور یہ ہی نہیں ڈیڈی اور سیفی  صاحب دہلی سے نارنگ صاحب کی تقریر کی سی ڈی بھی لے کر آئے تھے ۔اکثر تنہائی میں ان کی تقریریں سنتی رہتی ہوں ۔
اس کے بعد ’دربھنگہ ٹائمز ‘ کے معاون مدیر غلام نبی کمار سے میری بات ہوئی او ر انہوں نے بتایا کہ اس سنڈے کو ہی ’لازوال ‘ کا گوپی چند نارنگ نمبر نکال رہے ہیں ۔ یہ سن کے میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا کیونکہ میرے ڈیڈی نے کہا تھا کہ آپ گوپی چند نارنگ اور اختر الواسع صاحب پر لکھئے اس لئے بغیر سوچے سمجھے میں نے اُن سے وعدہ کر لیاکہ میں ایک دو روز میں ہی آپ کو لکھ کر بھیجتی ہوں ۔ جب میں نے نارنگ صاحب کی کتابیں دیکھیں تو مجھے رونا آ گیا کہ میں اُن پر اب کیسے لکھونگی ؟ پھر میں نے ڈاکٹر مہتاب عالم کی کتاب ’’خاص ملاقات‘‘ نکالی اور اِس کتاب میں سب سے پہلا انٹرویو نارنگ صاحب کاہی ہے جس نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اپنے مضمون کا موضوع ہی انٹرویو بنا لیا ۔ 
  اِس انٹرویو میں ڈاکٹر مہتاب عالم نے نارنگ صاحب سے بڑے ہی اہم اور معلوماتی سوالات کئے ہیں جن کا جواب نارنگ صاحب نے بڑی تفصیل اور بیباکی سے دیے ہیں ۔ نمونے کے طور پر اُن کے پہلے سوال کا جواب دیکھئے : 
   ’’ قدم قدم پر آپ کو زبانوں کا بھاشائوں کا بھید ملے گا ،دھرموں کا جاتیوں کا ۔ اسی طرح پرانتوں کا مقامی کلچر ہر جگہ الگ ہے ، علاقائی کلچر الگ ہے تو رشتہ میرا بھید بھرا اس لئے ہے کہ میں چھ سات زبانوں میں پیدا ہوا ۔ اسکول کے زمانے تک اس زبان سے میرا ایک عجیب و غریب لگائو ہوتا گیا ،ایسا لگائو ہوتا گیا پُر اسرار مسٹری ہے بالکل اور پھر اس زبان کا جادو مجھ پر چلنے لگا اور جب جادو مجھ پر چلنے لگا تو میں ہائی اسکول تک اس میں لکھنے بھی لگا ۔ کچھ کہانیاں ،کچھ دوسری چیزیں ، کچھ اسکول کالج میں جیسے میگزین ہوتے ہیں ، اس میں لکھنا ،تقریر کرنا ،ڈبیٹ میں حصہ لینا تو اس زبان کے اندر جو کشش ہے ،مٹھاس ہے ،شیرینی ہے ،دلکشی ہے کوئی جادو ہے اس میں ۔ زبانیں تو سب اچھی ہوتی ہیں ۔مادری زبان کس کو پیاری نہیں لگتی اور مادری زبان اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ انسان اپنا مذہب بدل سکتا ہے ، لیکن ماردی زبان کو نہیں بدل سکتے ، وہ آپ کے خون کا حصہ ہوتی ہے اور اسی طرح میرے خون کا حصہ ہوتی گئی ‘‘۔ 
  جیسا کہ نارنگ صاحب نے لکھا ہے قدم قدم پے زبان بدل جاتی ہے یہ ایک حقیقت ہے۔ مفکر ریتا برائون لکھتی ہیں:
  "Language is the road map of a culture.It tells you where its people come from and where they are going ."
پورے جواب کو پڑھ کر ہم اندازہ لکھا سکتے ہیں کہ نارنگ صاحب ہندی ،اردو ،عربی ،فارسی ،سنسکرت ،پنجابی اور انگریزی تو خوب جانتے ہی ہیں ،لیکن اس کے باوجوبھی انہوںنے اپنا اوڑھنا بچھونا اردو کو ہی بنایا اور ہائی اسکول  کے زمانے سے ہی اردو میں کہانیاں اور مضامین لکھنے لگے کیونکہ اردو کا جادو اُن کر سر چڑھ کے بولنے لگا تھا اور وہ جادو آج تک قائم و دائم ہے ۔ 
  دوسرے سوال کے جواب میں نارنگ صاحب فرماتے ہیں : 
   ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اردو تو ہندو مسلمانوں کی جو مشترکہ وراثت ہے ، جو ساجھی وراثت ہے اس کا حصہ ہے ۔ اگر ہم تاج محل پر فخر کرتے ہیں کہ ہا ہا ہا۔۔۔مغل تہذیب کا کیا عمدہ نشان ہے ،کیا یادگار ہے ۔ اسی طرح ہم شریفہ ،سیب ،اخروٹ، بادام کھاتے ہیں یہ ساری چیزیں مسلمانوں کے ساتھ آئی تھیں ۔ اسی طرح مٹھائیوں میں برفی اور گلاب جامن ہے ۔ ہم گلاب جامن کہتے ہیں ، لفظ گلاب فارسی ہے ،جامن ہندی ۔ ہم نے مٹھائیاں تک بنا دیں کلچر کی ،وہ زندہ ہیں ، اسی طرح لباس میں شلوار قمیص ہے ۔ یہ کوئی ہندوستان کی چیزیں تھوڑی ہیں باہر سے آئی تھیں ہماری ہو گئیں ، ا ن سب کو ہم نے گلے لگا لیا ، ہم کمپوزٹ کلچر کو گلے لگاتے ہیں ،ملا جلا کلچر ہمارا ۔ اس کی سب سے بڑی نشانی سب سے بڑا تہذیبی پُل آج بھی ہندو مسلمانوں کے بیچ ہے ۔ مذہبی تہذیبوں کے بیچ جب کوئی زبان پُل بناتی ہے ،جذباتی پُل بناتی ہے تو وہ یہی زبا ن ہے ،اس کو اس حقوق سے ملنا ہی ملنا چاہئے پوری طرح سے اور ہم کو اوون کرنا چاہئے جیسے ہم تمل کو اوون کرتے ہیں ، سنسکرت کو اوون کرتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ‘‘۔ 
  اِس اقتباس کو پڑھ کے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہندی اور اردو میں زیادہ فرق نہیں ہے ،فرق ہے تو صرف لپی (font)کا ۔ شفق جونپوری نے بالکل صحیح کہا تھا :
اک خالدہ خانم ہے اک راجکماری ہے
اردو بھی ہماری ہے ہندی بھی ہماری ہے
ایک مرتبہ میں نے دائود کاشمیری کی انشائیے کی کتاب پڑھی تھی جس میں انہوںنے لکھا تھا کہ ٹیوبلائٹ کو ہندی میں ’’جیوتی پھینک کانچ کا ڈنڈا ‘‘ کہتے ہیں ،آج کتنے لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ٹیوبلائٹ کو جیوتی پھینک کانچ کا ڈنڈا کہتے ہیں ؟ اسی طرح ریلوے اسٹیشن کو بھگ بھگا اڈا اور ٹرین کو لوہپتھ گامنی کہتے ہیں ؟ آج ہم نے فارن (foreign)کلچر کو اپنا لیا ہے ،انگر یزی زبان کو گلے لگا لیا ہے ،لیکن اردو کے ساتھ بھید بھائو آج بھی جاری ہے ۔ 
ایک جگہ نارنگ صاحب نے لکھا ہے کہ’’ جس دن ہم سچی جمہوریت بھارت میں قائم کر دیں گے ، ہم اردو کے ساتھ وہی سلوک کرنے لگیں گے جو ہم دوسری زبانوں کو اس کا حق دیتے ہوئے کرتے ہیں تو اردو کی بحالی ہوگی جیسا بہار نے کیا ،کسی حد تک تو کیا ‘‘۔
یہ بات بالکل صحیح ہے چونکہ 1976-1978تک جگن ناتھ مشرا نے اردو کو بہار کی سرکاری زبان بنا دیا تھا اور اردو تمام اسکولوں میں اردو پڑھائی جانے لگی تھی ۔ 
  مہتاب عالم نے نارنگ صاحب سے سوال کیا ہے کہ اگر بھوپال کی ہی بات کریں تو بھوپا ل ہندوستان کی وہ پہلی ریاست ہے جس نے اردو کو سب سے پہلے سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا ، اب اگر بھوپال کی بات کریں تو جس بھوپال میں انضام کے وقت ۲۳ اسکول تھے ، اب ان کی تعداد ۴ ہے وہاں پر اردو کا دائرہ کیوں سمٹ رہا ہے ؟ 
اس سوال کے جواب میں نارنگ صاحب لکھتے ہیں : 
’’ ہیر کلیٹس نے کہا ہے کہ ایک دریا میں ندی کے کنارے اگر آپ کھڑے ہیں ، اس ندی میںآپ دوسری بار پیر نہیں ڈال سکتے۔ کیوں ؟ دوسری بار جب آپ پیر ڈالیں گے تو نیا پانی آپ کے پیروں پر آئے گا ،گویا نئی ندی ہوگی ۔پہلی ندی تو جا چکی ہے ۔ اردو کی کیفیت بھی برابر ہے ۔ 
جس طرح گوپی چند نارنگ جگہ جگہ اپنی تحریروں میں انگریزی ، رشین ، فرینچ رائٹرس،فلاسفرس کے اقوال پیش کرتے ہیں اور اپنی بات دلائل کے ساتھ کہتے ہیں وہ قابلِ داد ہے ۔ جس سے ہم آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کے ادب سے بھی وہ واقفیت رکھتے ہیں چونکہ نارنگ صاحب ساہتیہ اکادمی کے چیئرمین رہے ہیں اور ساہتیہ اکادمی میں ۲۴ زبانیں شامل ہیں ۔ 
  اس کے علاوہ جب انہوںنے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ذمہ داری سنبھالی تو فکرو تحقیق ، اردو دنیا کی اشاعت تو کروائی ہی لیکن ساتھ میں کمپیوٹر سینٹرز کا بھی جال بچھا دیا تھا ،تاکہ طالب علموں کے روزگار کے مسائل حل ہو سکیں ۔ آج بھی ساہتیہ کی خدمت میں اُن کے قدم رواں دواں ہیں کیونکہ اُن کی جستجو نے انہیں کسی منزل پے ٹھہرنے ہی نہیں دیا بقول جاںنثار اختر : 
جستجو نے کسی منزل پے ٹھہرنے نہ دیا 
ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح