ساختیات اور اسلوبیات کے تناظر میں نارنگ کا سفر تنقید

ڈاکٹر امام اعظم
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل
 اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا
9431085816
[مابعد جدیدیت کے سالار، ممتاز و مقتدر ناقد ، ماہر لسانیات، پدم بھوشن پروفیسر گوپی چند نارنگ (سابق صدر،ساہتیہ اکاڈمی و سابق پروفیسر ایمریٹس ، دہلی یونیورسٹی) کی ۹۰ویں سالگرہ پر خراجِ تحسین]
ساختیات اور پس ساختیات ، اب اردو میں تنقید کے اہم ترین رجحان کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو کی بعض نامور شخصیات جو ادبی تھیوری پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت سے متصف ہیں مثلاً پروفیسر گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر فہیم اعظمی،نظام صدیقی، قاضی قیصر الاسلام،ڈاکٹر ناصر عباس نیر وغیرہ نے اُردو میں قائم ہونے والے ساختیاتی مکالمے میں زور دار حصہ لیا ہے۔ بعض نے کم لکھا ہے، بعض نے زیادہ اور بعض نے بہت زیادہ۔ قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے بھی کئی اداریے اور مضامین ’’دریافت‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ ’’دریافت‘‘ اور ’’علامت‘‘ میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی لکھا ہے جن کا نہایت جامع جواب پروفیسرگوپی چند نے دیا ہے، یہ بھی ’’دریافت‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی دو کتابیں ڈاکٹر نارنگ اور وزیر آغا کے حوالے سے شائع ہوئی ہیں جن میں ساختیات، پس ساختیات اور اسلوبیات پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ ساختیاتی رجحان کو قائم کرنے میں رسالہ ’’صریر‘‘ نے بھی غیر معمولی خدمت انجام دی ہے۔ ہندوستان کے رسالوں میں ’’کتاب نما‘‘ اور ’’آج کل‘‘ کے علاوہ ’’شب خون‘‘، ’’سوغات‘‘، ’’ذہن جدید‘‘ ، ’’کوہسار جرنل‘‘ اور ’’تمثیل نو‘‘بھی ا ن بحثوں میں شامل رہے ہیں۔’’تمثیل نو‘‘ نے مسلسل دو سال تک ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے تنقید کی نئی لہر کے عنوان سے ساختیات، پسِ ساختیات، ردِ تشکیل، امتزاجی تنقید اور تخلیقیت پسند تنقید پر لکھتے رہے ہیں۔ موافقت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا جاتارہا ہے۔ افہام و تفہیم کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔
بہرحال اتنا صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اُردو میں تنقیدی تھیوری اب ترقی پسندی اور جدیدیت کی سادہ بحثوں سے آگے نکل آئی ہے اور قارئین ساختیاتی تھیوری کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ واضح رہے کہ اُردو تنقید میں لسانیاتی مطالعہ کا چلن نہیں تھا لیکن پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنے مضامین کے دو مجموعے ’’اردو زبان اور ادب‘‘ اور ’’شعر و زبان‘‘ میں لسانی مسائل اور شاعری کے لسانی تجزیے سے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی لیکن باضابطہ طور پر اردو میں اسلوبیاتی اور ساختیاتی تنقید کے نئے دروازوں کو پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کھولا اور اسلوبیات اور ساختیات کو ملاکر اردو کو لسانیات کے ایک وسیع نظریہ فکر سے آشنا کرایا لیکن تنقید کی بھول بھلیوں میں اگر پیچیدگی اور غیر واضح اظہار کا طریقہ اپنالیا جائے تو یقینی طور پر اس کو سمجھنے میں دشواری پیدا ہوگی۔ اس لیے نارنگ نے مبہم اسلوب کی جگہ واضح، مدلل اور تجزیاتی انداز اپنایا ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوبیاتی تنقید کے معیار و میزان کے حدود طے کئے ہیں۔ ان کی کتاب ’’اسلوبیات میر‘‘ اور مضامین میں اسلوبیاتِ اقبال، اسلوبیات انیس، اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام اور مراثی انیس میں جس صوتیاتی سسٹم کی بات کی گئی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوبیات کی کتنی اہمیت ہے۔انہوں نے شعری تنقید میں تو اسلوبیاتی نظرئیے کو اپنایا ہے لیکن افسانے کی تنقید میں ساختیاتی تنقید سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ اسلوبیاتی مطالعہ کی اپنی حد بندیاں ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اسلوبیات طریقہ کار ہے۔ کل تنقید نہیں، کوئی بھی طریقہ کار کل تنقید نہیں ہوسکتا۔ اسلوبیات اس کا دعویٰ بھی نہیں کرتی۔ یہ دوسرے طریقوں کی نفی بھی نہیں کرتی۔ چنانچہ اس کو اپنے طور پر برتا جاسکتا ہے اور دوسرے طریقوں سے ملاکر بھی۔ لیکن اسلوبیاتی تنقید کوئی بات بغیر ثبوت کے نہیںکہتی۔ یہ تنقیدی آراء کی صحت یا عدم صحت کے لیے ٹھوس تجزیاتی بنیادیں فراہم کرتی ہے اور اس طرح ادب کے سربستہ اظہار رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہے یا تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوں پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ صرف اقتباس نہیں بلکہ اس کے بارے میں ایسے ثبوت بھی پیش کرسکتی ہے جنہیں رد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘  
(اقبال کا فن— ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ص: ۱۶۵-۱۶۶)
پروفیسر موصوف کے اس بیان سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلوبیات طریقہ کار ہے مگر دوسرے طریقوں کی نفی نہیں کرتی۔ دوسرے طریقوں کے ساتھ چل بھی سکتی ہے۔ ٹھوس تجزیاتی بنیادیں قائم کرتی ہے۔ سربستہ اظہار رازوں کی گرہ کھول سکتی ہے۔ تخلیقی عمل کے بعض پراسرار رازوں پر روشنی ڈال سکتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس ثبوت پیش کرسکتی ہے یعنی نارنگ نے جو باتیں کہی ہیں، اس میں ان کے گہرے افکار و ادراک کا دخل ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جہاں ایک طرف اسلوبیات کا ذکر کیا ہے یا اسلوبیات کا میتھڈ اپنایا ہے وہیں وہ ساختیات کو بھی باضابطہ اپناتے رہے ہیں اور دونوں کے مابین ایک رشتہ بھی قائم کیا ہے۔
ساختیات جدید لسانیت کا ایک مغربی ٹرینڈ ہے اور ۱۹۶۰ء سے اس کی ابتدا ہوئی ہے۔ یہ مشہور ماہر لسانیات دی سوسیر (De Saussure) کے لسانی نظریے کا Extension ہے ۔ رولاں بارتھ (Ronald Barthes) سو تین تو دوف (Tzvetan Todorof) نے ساختیات کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا ہے لیکن Calud Levi Strauss نے نشان کے ضابطوں کو طے کیا ہے۔رچرڈ ڈیوٹن لکھتا ہے:
’’کسی نشان کے معنی اس کے عمومی معنی کی نسبت اپنی معنویت میں اور بھی وسعت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ انسانی تہذیب کے تمام رویے، کھانا، کھیل کود، لباس یا عطریات، سیاست، داستاں سرائی، جو کچھ بھی ہو،اس دھرتی سے ہمارے تعلقات کے نشانات ہیں۔ بیشتر ساختیاتی مفکرین اور خصوصاً لیوی اسٹراس نے انہی اصولوں کو واضح کیا ہے اور یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ نشان ہمارے معاشرے میں کس طرح عمل پیرا ہیں۔ بول چال اور تحریر کی زبان انہیں نشانات کے مخصوص ذرائع ہیں اور ادب نشانات کے استعمال کا فقط ایک ذریعہ ہے۔‘‘
  (An Introduction to literary critiscism  ص: ۷۵)
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جتنی حقیقتیں موجود ہیں انہیں بغیر کسی کوڈ کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ لسانیات کے ماہرین اتفاق رکھتے ہیں کہ Sign کوئی معنی خود نہیں رکھتے بلکہ ان کے مفہوم یا معنی کا تعین ان کی ساخت سے کیا جاسکتا ہے جہاں نشان واقع ہے اور اس کا application ہورہا ہے۔ لفظ دراصل زبان کی ساخت سے ہی اپنا معنی حاصل کرتا ہے جس کا وہ ایک جزو ہوتا ہے۔ سوسیر نے اسے دو اصطلاحوں (Langue) اور پیرول (Parole) سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں اس کی تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اتنا ذکر ضروری ہے کہ ساختیاتی جائزے میں Surface Structure یعنی Word order اور معنوی یا داخلی ساخت (Deep Structure) کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لفظ اپنے آپ میں کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ وہ نشان یا علامت ہوتا ہے اور معنی زبان کی ساخت سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی ساختیاتی تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ساختیات کسی تحریر کی تخلیقی یا تصنیفی ٹیکنک متعین نہیں کرتا اور اسی لیے تحریروں پر تنقید بھی آزاد ہوئی ہے۔ ساختیاتی تنقید میں تحلیل ہوتی ہے۔ اچھے برے، بڑے چھوٹے، کمزوراور مضبوط وغیرہ جیسی فیصلہ کن اصطلاحات نہیں استعمال ہوتیں۔‘‘   
(ساختیاتی تنقید، صریر کراچی، ستمبر ۱۹۹۳، ص: ۱۳-۱۴)
ساختیات کی وضاحت کرتے ہوئے نارنگ نے لکھا ہے:
’’ساختیات ہرچند کہ علم ہے اور اس نے اپنے بہت سے تصورات ساسیر کی لسانی بصیرت سے اخذ کئے ہیں، لیکن ، ’سخن فہمی‘ اور ’ادب فہمی‘ کے جو دروازے ساختیات نے وا کئے ہیں یا ادب کے حظ و نشاط یا معنی خیزی کے عمل پر جو اصرار ساختیات نے کیا ہے اس کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’یہ عمل کتنا ہی غیر شعوری اور وجدانی کیوں نہ محسوس ہو، اس کی تہہ میں کسی نہ کسی علم، کسی نہ کسی نظام کی یا کسی نہ کسی ضابطے کی کارفرمائی ضرور ہوتی ہے۔ گویا ادبیت اور شعریت کے اصول تہہ نشیں طور پر کارگر رہتے ہیں، ساختیات کا کام انہیں تہہ نشیں اصولوں کا سراغ لگانا ہے کیونکہ اصل بوئے گل، یہی ہے۔‘‘  
  (اشاریہ: ساختیات اور بوئے گل کا سراغ، کتاب نما، دہلی، جولائی ۹۰، ص:۴)
ظاہر ہے کہ ادب تو بہت بعد کی چیز ہے اور تنقید اس کے بعدکی۔ رہی تحقیق وہ انسانی ذہن کی سعی ہے۔ بچّے (آدمی کے) خود اپنے ہاتھ پائوں اور اعضا و جوارح کی تحقیق اس وقت سے کرنے لگتے ہیں جب صوتی معنیات پر ان کی گرفت نہیں رہتی۔ آدمی جب پیدا ہوا تو بولتا ہوا نہیں پیدا ہوا۔ آوازیں نکالتا ہو پیدا ہوا۔ یہیں سے آواز اور بولی کا فرق شروع ہوگیا اور ڈاکٹر نارنگ کا یہ کہنا اپنی ٹھوس دلیل رکھتا ہے کہ:(جاری)
’’صوت کے ضمن میں یہ بدیہی بات ہے کہ صوت کے معنی نہیں ہوتے۔ معنی کا عمل اس سے اوپری سطح یعنی صرفیاتی سطح سے شروع ہوجاتا ہے اور کلمے کی نحوی سطح سے گزرکر فن پارے کی معنیاتی اکائی کے درجے تک پہنچ کر مکمل ہوتا ہے۔‘‘
قطعیت کا زمانہ نہیں رہا اور Perfection کی تلاش بے سود ہے۔ ’’جس فطرت کی ہم سرپرستی کرتے ہیں اس کا تصور تہذیب کی دین ہے جو محض مِتھ ہے۔‘‘ تو یہ پوچھنا پڑے گا کہ ہماری کون سی تہذیب مِتھ نہیں ہے؟ جب بھی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں گے ہم پائیں گے کہ شبد سے سنسار کی سرشٹی ہوئی ہے۔ ’’کن فیکون‘‘ تب اس عمل کا محرک کسی ایسی توانائی میں (جو کچھ ہے اس کے اندر جاری، ساری اور اس کے باہر محیط، محضر) ڈھونڈنا پڑے گا۔ یہ توانائی چونکہ غیر معین یا کلی توانائی ہے اس لیے ہم اپنی سطح کا کوئی محرک اس کو نہیں دے سکتے، اور اس کی سطح کے کسی محرک کو متعین بھی نہیں کرسکتے۔ نارنگ، رولاں بارتھ کے حوالے سے کہتے ہیں:
’’بورژوا آئیڈیولوجی اس مجرمانہ فعل میں گرفتار ہے کہ قرأت (Reading) معصوم فطری عمل ہے اور زبان کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ ساختیاتی تنقید کا شیوہ ہے کہ وہ زبان کے لاشعور کو اظہار کی سطح پر عمل آرا دیکھتی ہے تاکہ معنی کا چراغاں ہوسکے۔ پہلے سے طے شدہ یا متعینہ معنی کی ’’سنسر شپ‘‘ بقول بارتھ ایک طرح کا جبر ہے کیونکہ اس سے متن مقید ہوجاتا ہے اور معنی محدود ہوکر بے جان اور فرسودہ ہوجاتا ہے۔‘‘ (کتاب نما، دہلی، جولائی ۱۹۹۰ء، ص:۵)
ساختیات اور اسلوبیات فنی تخلیق کی مخصوص زبان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں اور اس کا دائرہ لازماً زبان کے واقف کار لوگوں تک ہی رہتا ہے بلکہ ماہرین تک، میرانیس، اقبال یا کسی بھی شاعر کا اگر اسلوبیاتی جائزہ پیش کیا جائے تو اس سے دوسری زبانوں کے دلوں میں انیس یا اقبال کی وہ قدر و قیمت نہیں ہوسکے گی کیونکہ اس طرح کے تنقیدی تجزیے مخصوص ماہرین تک ہی اثر قائم کرسکتے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شعراء کی قدر و قیمت ان کی اسلوبیاتی اور ساختیاتی تجزیے کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ پہلے اپنی زبان میں۔ بعدہٗ ان کے کلام کی توانائی میں فکری عناصر یا شعری عناصر وغیرہ کی بحث ممکن ہے۔ اسلوبیاتی اور ساختیاتی تنقید چونکہ بنیادی ہوتی ہے اور تنقید کے دیگر عوامل و عناصر بھی سب کے سب معنی کی شکلیں ہیں۔ ادب کی بڑی خدمات بغیر ساختیات کے انجام نہیں دی جاسکتیں۔ غیر معمولہ معنی پر اصرار کرتے ہوئے بارتھ کے حوالے سے نارنگ نے لکھا ہے:
’’بارتھ نے تنقید کو دلچسپ بھی بنایا ہے اور پہلے سے زیادہ فلسفیانہ بھی۔ مکتبی یک سطحی تنقید پر بارتھ کو سخت اعتراض تھا۔اس کا کہنا تھا کہ مکتبی تنقید نہایت ڈھٹائی سے متن کی متعینہ طے شدہ معنی پر اصرار کرتی ہے جس سے زیادہ غلط بات کوئی نہیں۔ طے شدہ معنی اکثر و بیشتر بیہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔‘‘ 
                          (اشاریہ: ساختیات اور بوئے گل کا سراغ، کتاب نما ، دہلی، جولائی ۱۹۹۰ء، ص: ۶-۵)
ظاہر ہے کہ مکتبی نقاد ایک مخصوص فریم ورک میں Content کا مفہوم تلاش کرتا ہے اور شعر کی نثری تشریح اور بھی مغالطے میں ڈالتی ہے جس کے سپاٹ پن سے معنی کی گہری ساخت کے رشتوں کا یکسر عرفان نہیں ہوتا اور قاری Codes کی غیر موجودگی میں اصل انبساط حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے اسلوبیاتی اور ساختیاتی تنقید نگار شعر کی نثری تشریح کے سپاٹ پن سے آگے شعری نزاکتوں اور معنی کے دوہرے پن سے آشنا کراتے ہیں جس کے سبب متن کے بدیعیاتی نظام کو سمجھنے اور اس میں لفظ اور آواز کے رول کو ایک اکائی میں پرکھنے سے معنی و مفہوم کے دروازے اس طرح وا ہوتے ہیں جس سطح پر فن کار تخلیقی مرحلوں سے گزر رہا تھا۔ اس کا بھی ادراک ہونے لگتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قاری معنی کی تخلیق کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نیا تنقیدی رجحان رسمی تنقید سے آگے سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اردو ادب پروفیسر گوپی چند نارنگ کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے اس نئے تنقیدی رجحان پر نظریاتی اور عملی طور پر کام کرکے اُردو کے تنقیدی رویے میں ایک نیا مزاج پیدا کردیا ہے اور مواد کے اعتبار سے تنقیدی دبستان میں بھرپور اضافہ کیا ہے۔