ما بعد جدیدیت کی مشرقی اساس

حقانی القاسمی،دہلی
9891726444
نظریے مر جاتے ہیں،نظر زندہ رہ جاتی ہے۔ 
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو ادب کو جونیا وژن اور نئی نظر دی ہے وہ اتنی پاورفل ہے کہ نظریے میں تبدیل کردی گئی ہے اوریہ اب  ایساماورائے زماںو مکاں نظریہ بن چکا ہے کہ حال ہی نہیں، مستقبل میں بھی اپنی زندگی کا ثبوت دیتا رہے گا۔
اسے آپ نظریہ کہیں مگر مجھ جیسا حقیر فقیر اسے کچھ دیر کے لئے نظرکا ہی نام دے گا کہ ان دنوں مغرب کے اد بی حلقوں میں تھیوریز کی موت پر مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے، ایک تھیوری کریٹک جان ہولنڈر کا کہنا ہے کہ تھیوری کئی برسوں سے مررہی ہے۔ مسئلہ یاپرابلم صرف یہ ہے کہ تھیورسٹ اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک برٹش  مارکسی نظریہ ساز ریمینڈ ولیم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
 what we theorist were doing was bunk 
اور ٹیری ایگلٹن نے theory after theory میںیہ لکھا کہ ہم پوسٹ تھیوریٹیکل ایج میں زندہ ہیںاور کوئی بھی نہیں جانتا کہ آئندہ کیا ہوگا ۔ کچھ لوگوں کاتو یہ بھی خیال ہے کہ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی  کے آغاز میں ہی تھیوری کے  زریں ایام کا خاتمہ ہو گیا۔
 مغرب میں موت کے اعلانات عام ہوچکے ہیں ۔ وفیات کی فہرست بڑھتی جا رہی ہے ۔نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا تو مایا کوفسکی نے تاریخ کی موت کا اعلان کر دیا ۔انسان ‘ تہذیب اور مذہب کی موت کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے ۔ خود نظریہ ساز بھی اپنے پرانے موقف سے  منحرف  ہو تے جا رہے ہیں۔ اپنے پرانے نظریات سے رجوع کررہے ہیں،ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پھر ادبی مطالعات اور متون کی تفہیم و تعبیر کا کیا زاویہ ہوگا۔ جبکہ تھیوری کو تنقیدی مطالعات میں مرکزی حیثیت  دے دی گئی ہے ۔اسی سے جڑا یہ سوال بھی ہے کہ کیا تھیوری کے بغیر اچھی تنقید نہیں لکھی جاسکتی ۔یہ بات ہے  تو پھر نارنگ صاحب کے ان مضامین کے بارے میں کیا رائے ہوگی جو کاغذ آتش زدہ یا کسی اور شکل میں شائع ہوئے ہیں ۔ ان کے بہت سے مضامین میں تھیوریز کا استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ گوپی چند نارنگ نے اس تعلق سے بڑی فکر انگیز بات کہی ہے جس سے سارے خدشات رفع ہو جاتے ہیں :
’’۔۔۔عملی تنقید میں اصطلاحوں یا نظری مسائل سے حتی الامکان میں اجتناب برتتا ہوں ۔ میرا اصول ہے کہ فکریات فکریات ہے اور تنقید تنقید دونوں ایک دوسرے کا بدل نہیں ۔ ادبی تنقید میں فکریات حاوی ہو جائے تو موشگافیوں کو راہ دیتی ہے جو مرعوب تو کر سکتی ہیں متاثر نہیں کر سکتیں کہ تنقید کا کام فن پارے کی تعیین قدر اور تحسین شناسی ہے ۔ تنقید بقراطیت کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ البتہ فکریات اگر ذہن و شعور کا حصہ بن جائے یا سینے کا نور بن جائے تو تنقید فن پارے کو اجالتی بھی ہے اور خود اپنا بھلا بھی کرتی ہے ‘‘  (دیباچہ ‘فکشن شعریات تشکیل و تنقید )
    مغربی اعلانات کو مان لیا جائے تو پروفیسرگوپی چند نارنگ کی تھیوری بھی اس موت کی زد میں آسکتی ہے مگر ان کی تھیوری کی موت کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ نارنگ نے ایک ایسی آ فاقی نظر کو نظریے میں تبدیل کیا ہے جس کا کلی انسانی روایت اور آزادی سے رشتہ ہے۔ یہ کوئی اقتداری یا آمرانہ انسانیت کش نظریہ نہیں ہے جس کی عمر ایک دہائی یا زیادہ سے زیادہ دو دہائی ہوتی ہے۔گوپی چند نارنگ نے اپنی تھیوری میں تمام  حیات بخش عناصر کو سمیٹ لیا ہے اور ان تمام موضوعات اور مسائل کو بھی جو ابدیت کے حامل ہیں ۔ اس میں نہ زماں کی حدبندی ہے نہ مکاںکی محدودیت ۔ اس  میں مقامیت بھی ہے اور آفاقیت بھی ۔ یہ ایک ایسا آفاقی نظر یہ ہے جس کی اطلاقی صورتیں میرو غالب کے ہاں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں ور آج کے  شعراء کے ہاںبھی۔نظر کا یہی وہ تسلسل ہے جو قدیم سے جدید تک جاری ہے ۔ 
 گوپی چندنارنگ کی مابعد جدیدیت مغرب کی وہ پوسٹ ماڈر نزم قطعی نہیں ہے جس کی موت پر بہتوں نے دستخط کر دیے ہیں بلکہ یہ مشرق کی وہ ما بعدجدیدیت ہے جسے وقت کی تنا سخی گر د شیں بھی ختم نہیں کرسکتیںکہ اس کی موت مشرقیت کی موت سے مشروط ہے اور مشرقیت اس لئے نہیں مر سکتی کہ مغربی ذہنوں کولرج ‘شیلی ‘ ایلیٹ ‘ ہنری ملر ‘ ہرمن ہیس ‘ تھامس کامبیل ‘ بائرن ‘ بودلیر اور ہلسلے نے بھی اس کی زندگی کو تحرک اور نئی توانائی دے دی ہے۔ شعور ذات اور باطنی ذات کا فلسفہ جب تک زندہ ہے، مشرق مر نہیں سکتا۔اور اتفاق سے یہ فلسفے انسانی زندگی اور کائنات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ کائناتی تسلسل سے ان کا نہایت گہرا اور مضبوط رشتہ ہے ۔ 
گوپی چند نار نگ کی ما بعد جد یدیت کی تھیوری کی اساس مشرق ہے اس لئے اس نظریہ یعنی نظر کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ کوئی اور نظریہ بھی ما بعد جدید فکر کو منسوخ نہیں کر سکتا کہ اس نے کسی اور نظریے کے لئے گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔مابعد کے سارے نظریے اس کی توسیع یا تمدید ہی کہلائیں گے ۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اور تھیوری اس میں  مقامی حالات یا مقتضیات کے تحت کچھ اور شقوں یا عناصر کا اضافہ کرلے مگر  اس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ نارنگ نے پہلے ہی تازہ ہوائوں کے لئے دریچے کھول رکھے ہیںاورمستقبل کے ممکنہ ابعاد اور اطراف کو اس میں سمیٹ لیا ہے ۔ انہوں نے صاف کہا ہے کہ ما بعد جدیدیت  کے زمانے میں ادیب  اپنی ا قداری  اور آئیڈیالوجیکل ترجیح میں آزاد ہے۔
نارنگ نے ادیبوں کے لئے کوئی لکشمن ریکھا کھینچی ہوتی یا دائروں میں قید کیا ہوتاتو شاید مشکل پیش آتی مگر یہاں تو سارا معاملہ ہی آزادی کا ہے ۔کھلے ڈلے رویے کا ہے۔ یہاں نظریاتی جبر یا ادعائیت کا معاملہ ہی نہیں ہے ۔یہ بات نہ ہوتی تو گوپی چند نارنگ ’’فیض کو کیسے نہ پڑھیں ‘‘  جیسا مضمون نہ لکھتے کہ فیض مارکسی آئیڈیالوجی کے شاعر تھے اور نارنگ نے ان کے نظریات سے قطع نظر ان کی جمالیاتی آئیڈیالوجی کے حوالے سے اطلاقی عملی تنقید کا بہت ہی عمدہ نمونہ پیش کیا ۔   
گھٹن اور حبس کے خلاف یہ وسعت ذہنی اس لئے ہے کہ نارنگ یک رخا ذہن نہیں رکھتے ۔انہوں نے مختلف اقوام و ممالک کے ادبیات ‘ فلسفوں اور تہذیبوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے ۔ برسوں سوچا ہے ۔ ادراک اور عرفان کی نئی منزلوں سے گزرے ہیں اور تب اپنی آفاقی بصیرت کو ایک مربوط اور منظم شکل دی ہے جسے اہل دانش  اور ارباب نظرنے اردوئی مابعد جدیدیت سے موسوم کیا ۔
گوپی چند نارنگ نے اگر اپنے نظریے کی بنیاد مغربی افکار و تصورات پر رکھی ہوتی تو شاید مغرب کی طرح ان کی تھیوری کی موت کا اعلان ہو چکا ہوتا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔انہوں نے مشرق و مغرب کے ثقافتی تعامل سے اردوئی ما بعد جدید یت کا خمیر تیار کیا اور اردو کی انجذابی قوت و کیفیت کے عین مطابق نظریاتی طرفیں کھلی رکھیں ۔ 
نارنگ نے مغرب میںمابعد جدیدیت کے غلغلہ کے بعد مشرق میں اس کی تلاش اور دریافت کا عمل شروع کر دیا اور مشرق کی اس گمشدہ میراث کی جستجو میں وہ بہرہ مند ہوئے اور پھر مابعد جدیدرویے کو اردو میں متعارف کرایا ۔ ساختیات پس ساختیات ‘مشرقی شعریات کے ذریعہ اس تصور کو عام کیا اور چونکہ اس جستجو کا محرک مغرب تھا اس لئے مغربی تصورات سے استفادے کا اعتراف بھی کیا ۔انہوں نے اپنی کتاب میں جلی حرفوں میں نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس سرچشمہ کی تلاش کے ضمن میں مغرب کی ممنونیت کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا کہ اس طرح کے ثقافتی تعامل اور ترابط سے ہی علمی اور فکری روایات کی توسیع ہوتی ہے اور یہ سلسلہ بہت پرانا ہے کہ ایک دوسرے کی علمی اور تہذیبی روایات سے اخذ و استفادہ کے ذریعہ اپنی علمی اور فکری ثروت میں اضافہ کیا جائے ۔ نارنگ نے لکھا ہے :
’’ ہم مشرق کے باسی ہوں یا مغرب کے اس دنیا کے بھی تو باسی ہیں ۔ یہ کرہ ارض ایک ہے ۔ سائنس ہو یا علوم کی روایت ‘ کچھ دریافتیں کچھ فکری پیش رفت اس نوعیت کی ہے کہ وہ کلی انسانی روایت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ اس سے ہم استفادہ کیوں نہ کریں ؟ اگر دوسری قومیتوں کا اس پر حق ہے تو ہمارا کیوں نہیں۔ اب تو سائنسی ایجادات کا پیٹنٹ بھی چند برس کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایجاد دنیا بھر کے تصرف میں آجاتی ہے ۔فکر و دانش پر تو پیٹینٹ نہیں البتہ چھان بین اور پرکھ ضروری ہے ۔ 
عالمی انسانی پیش رفت سائنس میں ہو ‘ علوم میں یا فلسفے میں ‘ یہ کسی ایک ملک ‘کسی ایک قوم ‘ کسی ایک خطے کی جاگیر نہیں جو ہم اس سے بدکیں ۔ شرط البتہ یہ ہے کہ اس کا ردو قبول ہمارا ردو قبول ہو ۔ اس کی افہام و تفہیم ہماری افہام و تفہیم ہو اور اس کا ہمارا بننا یا ہماری روایت کا حصہ بننا ہمارے مزاج اور ہماری افتاد کی رو سے ہو ۔ جو جتنا ہم آہنگ ہوگا یا ہوسکے گا وہ ہمارا ہو جائے گا باقی رد ہو جائے گا ۔ یہ ثقافتی جدلیاتی عمل ہے اور اسی سے تشکیل نو ہوتی ہے۔ ‘‘ 
کہا جاسکتا ہے کہ نارنگ نے اسی ثقافتی جدلیاتی عمل کو بروئے کار لاکر مابعد جدیدیت کی مشرقی تناظر میں تشلیل نو کی ہے ۔ 
پروفیسر گوپی چندنارنگ نے لسانیات کی مبادیات سے لسانیات کے فلسفہ معنی تک رسائی میں گہری ریاضت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی مطالعاتی وسعت ہی ہے کہ انہوں نے مغرب کی نقالی نہیں کی بلکہ مغرب کی نقالی کا ثبوت مشرقی شعریات سے دلائل کے سا تھ پیش کر دیا ۔ 
نارنگ صاحب ساختیات پس ساختیات میں لکھتے ہیں:’’ہم نے ہندوستانی فکری روایت اور شعریات کا جائزہ لیا تو بعض حیران کن تنائج سامنے آئے یعنی مغرب  میںجو نکات اب ساختیاتی اورتشکیل فکر کے ذریعہ سامنے آ رہے ہیں ان سے ملتے جلتے نکات ہندوستانی فکرو فلسفے بالخصوص بودھ فلسفے میں صدیوں پہلے زیر غور رہے ہیں۔‘‘ 
ایک جگہ اور لکھتے ہیں: ’’بودھی فکر کا یہ نکتہ خاصا اہم ہے کہ معنی کا اضافی تفرق کثرت استعمال کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا جب کہ معنی کا اثبات برابرمحسوس ہوتا ہے ۔بودھ منطق کی روسے پر تیکش صرف وہ ہے جو اس کے ذریعہ ہمارے علم کا حصہ بنتا ہے۔لیکن اشیا کے عمومی نام اور آہنی امیج یا تصور جن کے ذریعے ہمیںخاص اشیاکا علم ہوتا ہے حو اس کا حصہ نہیں ہیں ذہن کا حصہ ہیں، اس لئے ان کے پرتیکش کو قطعی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ بودھی فکر کے ان نکات اور سوسیر کے خیالات اور دریدا کے نظریہ افتراق (differance) میں حیرت انگیز مطابقت اور مشابہت ہے۔ بودھوں کے یہاں یہ نکتہ بالکل سوسئیر سے ملتا جلتا ہے کہ زبان کے تصورات امیج میں (جس کا حامل شبد ہے) اور اشیا میں کوئی لازمی یا فطری رشتہ نہیں ہے اور ارتھ کا انفراد فقط اس کی تفریقی حوالگی میں ہے۔ 
شبد کی مثال سے میمانسا اور نیائے والوں نے بھی بحث کی ہے اورویا کرنیوں نے بھی،لیکن بودھوں کی بحث ان سب سے بلیغ ہے اور انہیں خطوط پر ہے جو سوسئیری فکر کی خصوصی ہیں۔ بودھوں کا کہنا ہے کہ سفید یا کالی گائے  فقط اس لئے سفید یا کالی گائے ہے کہ وہ بھوری یا چتکبری یا کسی دوسری طرح کی گائے نہیں ہے ۔ شبد کالی یا سفید میں کوئی ’موجودگی‘ (Presence) اس رنگ کی نہیں ہے۔ معنی خیزی (Signification)کی افتراقیت کا یہ وہی نکتہ ہے جسے دریدا نے سوسئیر سے اخذ کر کے اپنی فکر کے زور  سے کیا سے کیا بنا دیااور جواب رد تشکیلی فلسفے کی نئی فکری روایت کا نقطئہ آغاز ہے۔ دریدا کی رد تشکیل کا سر چشمہ زبان کی یہی منفی حوالگی اور افتراقیت ہے۔‘‘(سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر۔گوپی چند نارنگ، ص:363-64)
نارنگ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ سوسئیر کے خیالات عبدالقاہر جرجانی سے ملتے جلتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ رد تشکیل کی پہلی اینٹ میں بھی مشرقیوں کا ہاتھ لگا ہے۔ ان کی یہ بھی نئی دریافت ہے کہ بھر تری ہری کے نظریہ سپھوٹ اور سوسئیر کے تصور ’نشان‘ میں مطابقت ہے اور زبان کی افتراقیت کا سوسئیری تصورواضح طور پر بودھاپوہ‘ سے ما خوذ ہے۔ معنی کی نفی درنفی یعنی دریدا کے نظریہ افتراق والتوا اور بودھی نظریہ ’شونیہ‘ میں واضح متوازیت دیکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ‘ سوسئیر‘ نہ صرف سنسکرت جانتا تھا بلکہ انڈویورپین کے علاوہ پیرس اور جنیوا میں سنسکرت پڑھاتا بھی رہا ہے۔
نارنگ صاحب کی کتاب ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے عمیق مطالعہ سے یہ عرفان ہوتا ہے کہ جو فکریات حیطہ مغرب سے حریم مشرق میں داخل ہورہی ہیں، وہ پہلے سے ہی  مشرق کا ورثہ  ہیں۔گوپی چند نارنگ کا اردو مابعد جدیدیت کا نظریہ بھی اساسی طور پر مشرق سے ہی ماخوذ ہے ۔ ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات مابعد جدید فکریات اور مباحث پر محیط ہے تو ’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب ‘اس کا عملی استشہاد ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے مشرق کے قدیم تہذیبی اور شعری تصورات اور مابعد جدید فکریات میں مماثلت کی اطلاقی شکلیں پیش کردی ہیں ، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔