پروفیسر گوپی چند نارنگ: اردو ادب کا بحربیکراں

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیوسٹی راجور ی(جموں وکشمیر)
اردو دنیا میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک ایسی دلآویز،ہمہ جہت،پر وقار اور پر کشش شخصیت ہیں کہ جنھوں نے عالمی سطح پہ اردوکے فروغ اور اس کی بقا کے لیے پورے جوش وجذبے کے ساتھ کام کیاہے۔اسے اردو کی خوش نصیبی ہی سمجھیے کہ اسے نارنگ جیسا عظیم قلمکار نصیب ہواکہ جنھوں نے دنیا کے تقریبا تما م ملکوں میں نہ صرف اردو کو متعارف کرایا بلکہ عاشقان اردوکی بزم آرائیوں میںبھی برابرکے شریک رہے۔ادب کی مختلف اصناف مثلا تحقیق،تنقید،شاعری،افسانہ،ناول،ڈراما،رپور تاژ،خاکہ نگاری،سوانح نگاری،ترجمہ نگاری اور تاریخ کے علاوہ لسانیات، صوتیات، سمعیات،کلاسیکی ادب،ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے ادبی رجحانات پرجو عبور گوپی چند نارنگ کو حاصل ہے۔ وہ شائد ہی کسی دوسرے ادیب کو حاصل ہو۔موصوف کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔دراصل ایک ماہر لسانیات ہونے کی حیثیت سے وہ نہ صرف اردو زبان کے ماہر ہیں بلکہ ہندی ،انگریزی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت بھی جانتے ہیں۔ ظاہرہے اتنی اہم زبانوں کا عالم اپنے آپ میں ماہر ادبیات نہیں تو اور کیا  ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ ،11فروری1930کو دکی نام کے ایک مقام جو بلوچستان میں واقع ہے پیدا ہوئے۔ان کے والدمحتر م کا نام شری دھرم چند نارنگ تھااور والدہ محترمہ کا نام شریمتی ٹیکا بائی تھا۔تقسیم ہند کے المناک حالات وواقعات میںاپنے مادر وطن دکی( بلوچستان)کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوئے اور مختلف طرح کی صعوبتیںجھیلنے کے بعد دہلی چلے آئے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ابتدائی تعلیم تو ان کے آبائی وطن دکی میں ہوئی مگر جب وہ 1947میں دہلی آئے تو یہاں انھوں نے باقاعدہ طور پر دہلی یونیورسٹی  کے تحت اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔علاوہ اذیں پنجاب یونیورسٹی سے آنرز ان پرشین اور سمعیات و تشکیلی گرائمر جیسے مشکل ترین موضوع پر خصوصی کورس کی سند بھی حاصل کی۔
گوپی چند نارنگ کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ان کا پہلا افسانہ کوئٹہ کے ہفتہ وار اخبارــ’’بلوچستان سماچار‘‘میں شائع ہوا ۔ا س کے علاوہ کچھ اوربھی کہانیاں شائع ہوئیں۔دہلی آکر وہ ’’ریاست‘‘ اور’’ بیسویں صدی‘‘جیسے رسائل میں لکھتے رہے لیکن بہت جلد وہ افسانہ نگاری کی حسیں وادی سے نکل کر تحقیق و تنقید کی سنگلاخ اور دشت ویراں میں صحرا نوردی کرنے۔چنانچہ’’نگار‘‘ نوائے ادب‘‘اور آجکل‘‘جیسے معیاری رسائل وجرائد میں ان کے سنجیدہ مضامین شائع ہوئے۔1953میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کا پہلا مضموں ’’نگار‘‘ میں اردو کے معتبر اور مشہور و معروف طنزیہ ومزاحیہ شاعر اکبر الہٰ آ  بادی پر شائع ہوا،اس کے بعد ان کی قوت تحریر کادریا اس طرح بہہ نکلا کہ مسلسل طور پر آج تک نہ جانے کتنے تشنگان ادب کو سیراب کرچکے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ 1958 میں باقاعدہ طور پر دہلی یونیورسٹی میں لیکچرر تعینات ہوئے کہ جہاں ان کی ادبی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے اور سنورنے کا موقع ملا۔1963سے1970تک وسکانسن اور مینی سوٹا میں بطور وزٹینگ پروفیسر رہے کہ جہاں انھوں نے  نہ صرف  لسانیات کی تربیت مکمل کی  بلکہ مغربی علوم وفنون  اور فکر وفلسفے  کو  بھی قریب سے جاننے کا موقعہ  ملا۔ 1970میں وسکانسن کو خیر باد کہنے کے بعددہلی آئے،1974میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے،اس کے بعد 1985میں دہلی یونیورسٹی میںبحیثیت پروفیسر کام کیا۔اردو زبان وادب سے بے پناہ لگاوہونے کی وجہ سے پروفیسر نارنگ نے اردو کی جو خد مات انجام دی ہیںوہ قابل رشک اور ناقابل فراموش ہیں۔ تقریبااسّی کتابوں  کے مصنف اور مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے دیگر بہت سی تعلیمی،ثقافتی اور سماجی ذمہ داریوں کو بھی بڑی نفاست پسندی اور خوش اسلوبی سے نبھایا ہے اور آ ج بھی جب کہ وہ اسّی برس کے ہورہے ہیں برابر علمی وادبی سرگرمیوںمیں مصروف ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اردو کی بقااو اس کی ترویج واشاعت کے لیے علمی وادبی طور پر شب وروز کوشاں رہتے ہیں۔یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی سوچ وفکر لامحدود ہے۔وہ پورے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے پہ نظر رکھنے والے اردو کے واحد بے لوث مرد مجاہد ہیںکہ جنھوں نے نہ صرف ہندوستان ،پاکستان اور  بنگلہ دیش میںاردو زبان وادب سے متعلق لیکچر ز دیئے بلکہ امریکہ، کنیڈا، برطانیہ، چیکو سلواکیہ، جرمنی، ناروے، سویت روس اور دنیا کے کئی ملکوں کی یونیورسٹیوںاور علمی اداروں میںاردو کی شمع روشن کرنے میںنمایاں کردار ادا کیا ہے۔سیفی سرونجی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اردو خدمات کے اعتراف میں ایک جگہ بالکل صحیح لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’پروفیسر گوپی چند نارنگ ہمارے عہد کے ان نامور دانشور نقادوں ،محققوں میں شمار ہوتے ہیںکہ جن کے کاموں کا احاطہ کرنا کسی ایک اسکالر کے بس کی بات نہیں ہے۔ان کی پوری زندگی اردو زبان وادب کی خدمت میں گزری ہے۔ ان کی اردو زبان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ تحریر ہو یا تقریر ان کی زبان سے  جو پہلا لفظ  نکلتا ہے وہ اردو ہے۔ اردو زبان وادب کا ایسا عاشق اردو کی تاریخ میں نہیں ملے گا کہ جس کا ہر لمحہ اردو کی خدمت میں گزرتا ہو۔
وہ دن رات اردو کے بارے میں سوچتے ہیں،اردو میں لکھتے ہیں اور اردو زبان میں ہی تقریر کرتے ہیں۔اردو زبان ان کے ذہن ودل پر ایسی چھائی کہ اپنی ساری زندگی اس کے لیے صرف کردی ۔یوں تو ان کی کئی کتابیںایسی ہیںکہ جن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،خاص طور پر ،فکشن شعریات تشکیل وتنقید،اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب،اردو مثنویاں، جدیدیت کے بعد، ساختیات، پس ساختیات ،ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدت،ہندوستان کی تحریک آزادی، دیکھنا تقریر کی لذت وغیرہ ایسی کتابیں ہیںجن کی اردو ادب میں نہ صرف دھاک ہے بلکہ نارنگ کی شخصیت اور ان کی اردو زبان  وادب  سے محبت کے لیے ہمیشہ  ان کا اردو زبان کا وقار بڑھاتی رہیں گی‘‘ .
(سہ ماہی’’ انتساب‘‘مدیر ،سیفی سرونجی۔شمارہ جولائی تاستمبر 2011ص35)
سیفی سرونجی نے بڑے مدلل انداز میںگوپی چند نارنگ کی ادبی شخصیت کے جن تابناک پہلووں کی نشاندہی کی ہے وہ حق بجانب ہے۔میری نظر میں اردو زبان وادب کے حوالے سے پروفیسر نارنگ کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے عالمی سطح  پہ اردو کو متعارف کرانے  اور اس کا معیار بلند کرنے اور وقار بخشنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔مزید برآں اپنی بہترین تحریروں اور سحر انگیز تقریروں سے اردو نہ جاننے والوں کو اردو زبان سیکھنے پر آمادہ کیا ہے۔اپنے ملک ہندوستان کی قدیم وجدید تہذیب وثقافت اور شعر وادب سے  انھیں گہری واقفیت حاصل ہے۔چنانچہ ان کے موضوعات میں تنّو ع اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ معلومات کا بیش بہا خزانہ پایا جاتا ہے۔بلاشبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو ادب کی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیںکہ جن کی ادبی نگارشات لازوال،لامثال اور باکمال ہیں۔یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ان سے پہلے اردو ادب پہ ایک طرح کا جمود سا طاری تھا۔انھوں نے زبان وادب کو نئی فکر،نئے نظریات اور نئے ادبی رجحانات سے روشناس کرایا ہے اور قدامت پسندوں کو یہ باور کرایا کہ پتھر نہیں بدلتے باقی ہر چیز گردش ایام میں بدل جاتی ہے۔چنانچہ انھوں نے جہاں تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی سطح پر نئی روش اختیار کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت  تصور کیا  تو وہیں انھوں نے ادب کی صحت مند اور اعلیٰ اقدار کو بھی ملحوظ نظر رکھا ۔ادب،سماج اور قاری پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نزدیک اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ادب سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے جو ہماری خارجی وداخلی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔سماج کی اپنی قدریں،فکریں اور روایات ہوتی ہیں جو تغیر پذیر رہتی ہیں۔قاری وہ فرد واحد ہے جونہ صرف  ادب وسماج کا چشم دید گواہ  کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اپنا رد عمل بھی ظاہر کرتا ہے۔اسی تثلیث کے تناظر میں اگر دیکھیں  تو  پروفیسر گوپی چند نارنگ کانظریاتی کینوس اس قدر وسیع  معلوم ہوتا ہے کہ جو ماضی ،حال اور مستقبل کو محیط ہے۔جب ہم پروفیسر نارنگ کی تحقیقی وتنقیدی کتابوں کے عنوانات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نہایت محنت ود قّت طلب موضوعات پر تحقیق وتنقید کے تمام بنیادی لوازمات اور طریقئہ کار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںکہ ان کا آج تک کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔آیئے گوپی چند نارنگ کی بصیرت افروز تصانیف  کے عنوانات پر دھیان دیں تاکہ یہ بات  پائیہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس باکمال قلمکار اور سمندر سوچ محقق،نقاد ماہر لسانیات اور دانشور نے کس عرق ریزی سے کن موضوعات پر اپنی تصانیف کو منظر عام پر لایا ہے:
1۔ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں ۔1959 اور1961
2۔اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو۔1962۔اور1964
3۔اسلوبیات میر۔1985
4۔سانحئہ کربلا بطور شعری استعارہ1980 ۔اور 1990
5۔ادبی تنقید اور اسلوبیات۔1989اور1991
6۔املا نامہ۔1990
7۔اردو کی نئی کتاب(درجہ دوم)1991
8۔قاری اساس تنقید۔1992
9۔ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات۔1993
10۔بلونت سنگھ کے بہترین افسانے۔1996
11۔ذاکر حسین :حیات وخدمات۔1998
12۔اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب۔2002
13۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری۔2004
14۔ترقی پسندی،جدیدیت،مابعد جدیدیت۔2007
15۔جدیدیت کے بعد( نئے مضامین)2005
16۔اردو زبان اور لسانیات۔2006
17۔دیکھنا تقریر کی لذّت۔2007
18۔سجاد ظہیر:ادبی خدمات اور ترقی پسند تحریک۔2007
19۔فکشن شعر یات:تشکیل وتنقید
20۔سفر آشنا
21۔فراق گورکھپوری
مندرجہ بالا کتابوں کے عنوانات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے قدیم وجدید اردو ادب کاپورا منظر نامہ پیش کردیا ہے۔گویا ادب کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے  جس کا انھوں نے مطالعہ نہ کیا ہو۔دراصل اردو زبان وادب کے تئیںان کا ذوق وشوق انھیں ہر وقت سر گرم عمل رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔کثیر مطالعے اور گہرے مشاہدے نے ان میںفکر کی بلندی،اسلوب بیان میں دلکشی اور اپنے مافی الضّمیر کے اظہار کے لیے استدلالی طرز اظہار کی خوبی پیداکردی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسر نارنگ کی تحریروں اور تقریروں سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے۔وہ زبان کی اہمیت وافادیت اور اسکے صحیح برتاو سے بخوبی واقف ہیں اور پھر اتنا ہی نہیںبلکہ وہ تو اپنے جذبات واحساسات،افکار ونظریات یا تجربات ومشاہدات کی افہام و تفہیم میں نہایت متانت اور وسیع النّظری سے کام لیتے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مرتب شدہ کتابوں پر اگر نظر ڈالیںتو ان کے عنوانات بھی قاری کے لیے دلچسپی اور تنّوع کا عنصر لیے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔یہ تمام کتابیں
پروفیسر نارنگ کی اردو خد مات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔آیئے ان کی مرتب شدہ کتابوں پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
1۔کرخنداری اردو کا لسانیاتی مطالعہ(انگریزی)1961
2۔منشورات کیفی(ترتیب ومقدمہ)1968
3۔آثار محروم(مرتّبہ)1969
4۔کربل کتھا کا لسانی مطالعہ(بہ اشتراک)1970
5۔ارمغان مالک رام۔جلد اول ودوم(مرتّبہ)1972
6۔املا نامہ(سفارشات املاکمیٹی ترقی اردو بورڈ)مرتّبہ،1974
7۔پرانوں کی کہانیاں(برائے نیشنل بک ٹرسٹ)1976
8۔اقبال جامعہ کے مصنفین کی نظر میں(مرتّبہ)1979
9۔وضاحتی کتابیات1976جلد اول(بہ اشتراک)1980
10۔اردو افسانہ:روایت اور مسائل(مرتّبہ)1981اور 1988
11۔انیس شناسی(مرتّبہ)1981
12۔اقبال کا فن(مرتّبہ)1983
13۔نئی کرن(برائے این سی ای آر ٹی بہ اشتراک)1983
14۔نئی روشنی۔ ۔ ۔ ۔
15۔پڑھو اور بڑھو   ۔ ۔ ۔
16۔وضاحتی کتابیات (جلد دوم،بہ اشتراک)1984
17۔لغت نویسی کے مسائل(مرتّبہ)1985
18۔اردو کی نئی کتاب(درجہ 11بہ اشتراک)1984
19۔انتظار حسین کے بہترین افسانے(مرتّبہ)1986
20۔نیا اردو افسانہ: تجزیہ ومباحث(مرتّبہ)1988
21۔اردو کی نئی کتاب(درجہ دس)1988
22۔ڈائرکٹری اردو شعرا ومصنفین(بہ اشتراک)1994
23۔بیسویں صدی میں اردو ادب(مرتّبہ)2002
24۔اطلاقی تنقید:نئے تناظر(مرتّبہ)2003
25۔انیس ودبیر۔۔۔۔۔دوسو سالہ سیمی نار(مرتّبہ)2005
26۔ولی دکنی:تصوف،انسانیت اور محبت کا شاعر(مرتّبہ)2005
27۔اردو کی نئی بستیاں(مرتّبہ)2005
مندرجہ بالا کتابوں کے عنوانات ہی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جن عنوانات پر یہ کتابیں ترتیب دی ہیں۔وہ انتہائی اہم اور معلو مات افزا ہیں جو زبان وادب کی اہم شخصیات،ان کے ادبی کارناموں اور زبان وادب کے کئی پیچیدہ مسائل کاحل پیش کرتے ہیں۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ زندگی کے گوناگوں مسائل میں رہنے کے باوجود پروفیسر موصوف نے کس طرح ان تمام ادبی سرگرمیوں کو قائم رکھا ہوگا۔معلو م ہوتا ہے پروفیسر نارنگ میں قدرت نے اردو زبان وادب کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔اسی لیے انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اردو کی خد مت کے لیے وقف کردیا ہے۔اردو کی نئی نسل انتہائی کسل مندہے جو اردو نہ تو صحیح لکھتی ہے ،نہ پڑھتی اور نہ صحیح بولتی ہے۔نمود ونمائش اور جھوٹی شہرت کی دلدادہ یہ نسل بس ملازمت حاصل کرنے کی حد تک اردو سیکھتی ہے۔نئی نسل کے لیے گوپی چند نارنگ کے ادبی کارنامے اور ان کی پروقار شخصیت آفتاب ومہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے اردو کی اہم شخصیات اور رجحانات پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے سیمی نار ،مذاکرے ،مباحثے ،کانفرنسیں اور ورکشاپس  منعقد کروائے جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ پیش کرتے رہیں گے۔ترقی پسندی،جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے ادبی رجحانات اور مغربی افکار ونظریات کے تناظر میںزبان وبیان کی بدلتی صورتحال پرپروفیسر گوپی چند نارنگ نے نہایت موثر،جامع اور مدلل انداز میںصراحت ووضاحت کی ہے۔کسی بھی ادبی مسلے کاحل وہ بڑے دلائل اور شواہد کے  ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کسی بھی ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہوتا۔نند کشور وکرم کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے پروفیسر نارنگ  نے ترقی پسند تحریک،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بارے میںکس خوب صورت اسلوب اور عالمانہ ومفکرانہ انداز میںجواب دیا ہے ،وہ قابل ملاحظہ ہے:
’’سوال: ترقی پسند تحریک لگ بھگ پون صدی کے طویل عرصے تک اردو ادب پر چھائی رہی،مگر اس کے بعد آنے والی تحریکیں جدیدیت،مابعد
جدیدیت اور پس ساختیات وغیرہ میںسے کسی بھی تحریک کا دیر پااثر نہیں ہوا،آخر کیوں؟ـــ‘‘
’’جواب:ترقی پسند تحریک کے اثرات کا زمانہ1935سے لگ بھگ60۔1955تک ہے۔اس کی بنیاد مارکسزم پر ہے لیکن زیادہ اثرات
روس کے سویت اشتراکی نظام کے حوالے سے تھے۔ترقی پسند تحریک ہندوستان کی تحریک آزادی کی ہم رکاب تھی۔جس کے نہایت گہرے
اثرات ادب پر مرتب ہوئے اور ادب کی مقبولیت اور اثر پذیری میں اضافہ ہوا۔سیاسی نوعیت کے سوالQuit India movement
کے زمانے ہی سے اٹھنے لگے تھے۔ادیب کی ذہنی آزادی اور ادب کی نوعیت و ماہیت کے سوالات کا زمانہ بعد کا ہے۔تاہم چونکہ ترقی پسندی
کا ایجنڈا سماج کی فلاح وبہبود،عوام دوستی۔انسان دوستی Anti imperialismاور Anti Colonialismپر مشتمل تھا۔اس ایجنڈے
سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔سوشلزم کی تعبیریں اور معنویتیں بدلتی رہی ہیں،اس سے مارکسیت کے عوام دوست جو ہر کار لازم ہیں آتا۔ادب اور
پروپیگنڈے میں حد امتیاز قائم کرنے  کے لیے جدیدیت نے آزادیء فکراور ادبی قدر کا سوال اٹھایاجو کم اہم نہیں ہے لیکنAlination،
بیگانگیت،داخلیت،ذات پرستی،اشکال پسندی،علامتیت اور ہئیت پرستی پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی وجہ سے جدیدیت بھی بعد میں
بطور تحریک بے اثر ہوتی چلی گئی۔پھر بھی جدیدیت کا زمانہ وسط آٹھویں دہائی تک تو تسلیم کیا ہی جائے گا۔ساتھ ہی یاد رہے کہ تحریکوں سے وابستہ
لوگ بعد میں بھی رہتے ہیں۔رہی بات پس ساختیات اور مابعد جدیدیت  تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دونوں سابقہ ادبی تحریکوں سے یکسر
الگ ہیں۔بنیادی طور پران کو تحریک سمجھنا ہی غلط ہے۔پس ساختیات،ساختیات کے بعد کافلسفہ ہے۔جس نے زبان وادب کے علاوہ
سماجی علوم کو بھی متاثر کیا ۔مابعد جدیدیت کئی ادبی فلسفوں کے مجموعے کا نام ہے اور اس کا بنیادی زور ہر طرح کے نظریے کا رد ہے کیونکہ ہر نظریہ بالآخر
آمریت کا شکار ہوجاتا ہے۔پس ساختیات اور مابعد جدیدیت میں زبان،معنی ،زندگی،ذات،معاشرہ اور آئڈیالوجی کے بارے میں بنیادی سوال
اٹھائے گئے ہیں جن سے نہ صرف ادب کی دنیا بلکہ سماجی علوم اور فلسفہ بھی بنیادی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔معنی کی تکثیریت،یعنی معنی کی افتراقیت کا
زائدہ ہونا یا رد تشکیل ،ثقافت کی مرکزیت،زبان ،ادب،شعور انسانی یا شعریات،ان سب کا ثقافتی تشکیل ہونا،ادب کا کلی طور پر  خود مختیار یا خود
کفیل ہونا،بین المتونیت ،تانیثیت اور سماجی سروکار کی لازمیت ایسی بصیرتیں ہیں جن سے اکثرذی فہم ادیب استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔روائتی 
کاروبار چلتا ہی رہتا ہے لیکن یہ پس ساختیاتی مفکرین کی دین ہے کہ دنیا بھر کی زبانوں میں تنقید کی زبان اور رویے بدل گئے ہیں۔آج ادب کی دنیا
میں ادب اور آئیڈیالوجی کے دو طرفہ آزادانہ رشتے سے کوئی صاحب فہم انکار کر ہی نہیں سکتا ۔ترقی پسندی فارمولے اور مینی فیسٹو کی پابند تھی۔مابعد 
  جدیدیت کے زمانے میں ادیب اپنی اقداری  اور آئیڈیالوجیکل ترجیح میں آزاد ہے لیکن اس کو معلوم ہے کہ بغیر اقداری  اور آئیڈیالوجیکل کے ادب
ادب ہی نہیں خالی ہئیت ہے۔جو چیز ہیئت کو معنی کی ادبی آنچ دیتی ہے،وہ اس کا ثقافتی اور اقداری تشکیل ہونا ہے۔ترقی پسندی ہو یاجدیدیت یا مابعد
جدیدیت ہر فلسفہ کی ادب کو کچھ نہ کچھ دین ہے،جس سے ادب مالا مال ہوتا ہے اور وہ معاصر تقاضوں کا ساتھ دینے کا اہل بنتا ہے۔ادب دو اور دو چار
کا کھیل نہیں نہ ہی تحریکیں کلینڈر کے ساتھ بدل جاتی ہیں،ان کے اثرات باقی رہتے ہیں‘‘
محولہ اقتباس اگر چہ طویل ہے لیکن اس کی طوالت میں ہمیںپروفیسر گوپی چند نارنگ کی روشن خیالی،وسیع النّظری،گہرے مطالعے،ان کے اسلوب بیان اور بالخصوص ترقی پسند تحریک،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے علاوہ ساختیات اور پس ساختیات جیسے تمام ادبی افکار ونظریات کی وضاحت  اس طرح ملتی ہے کہ کوئی بھی امر پوشیدہ  نہیں رہتا۔حقیقت یہ ہے کہ ادب کے بہت سے طالب علم(جن میں یہ ناچیز بھی شامل ہے)مابعد جدیدیت،ساختیات اور پس ساختیات یا تشکیل اور رد تشکیل جیسی ادبی اصطلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ نہ صرف اصطلاحات ہیں بلکہ ان میں فکر وفلسفے کی چاشنی بھی موجود ہے۔پروفیسر نارنگ نے بڑی متانت کے ساتھ اس طرح ان تمام اہم ادبی رجحانات یا فکر وفلسفے پر روشنی ڈالی ہے کہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔دراصل گوپی چند نارنگ کسی بھی ادبی تحریک یا رجحان کے امام یا علمبردار نہیں ہیں اور اس بات کا ذکر انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں کیا ہے۔بس وہ تو ایک جہاں دیدہ شخصیت ہیںکہ جووقت کے قدر داں ہونے کے ساتھ ساتھ قدرت کے فطری نظام میں تغیر پذیری کے عمل کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور کہاں کیا ہورہا ہے اس سے  اردو والوں کو آ گاہ کرنا اپنا فرض اوّلیں سمجھتے ہیں۔پروفیسر نارنگ کے پاس معلومات کا خزانہ ہے۔خوب صورت علمی وادبی زبان برتنا جانتے ہیں۔نہ صرف اردو ادب کی تاریخ ان کی ذہنی ویب سائٹ میں محفوظ ہے بلکہ انگریزی،ہندی،فارسی اور سنسکرت زبان وادب سے بھی واقف ہیں۔ان تمام ادبی صلاحیتوں کے علاوہ وہ ایک نرم دل،منکسرالمزاج،وسیع المشرب،دور اندیش اور اردو تہذیب کا ایک ایسا بلند ترین اور روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں کہ شائد ہی ایسا مینار اردو ادب کو آنے والے وقت میں نصیب ہو۔