گوپی چند نارنگ کا ’’سفر آشنا‘‘ ۔۔ایک اتھوپیا۔۔!

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری
اہم بیانات:
اُردو کا سب سے پہلا سفر نامہ یوسف خان کمبل پوش نے ۱۸۴۷ء میں شائع کیا، یعنی یہ دور حکومت برطانیہ کا تھا، جنکی بدولت ہمیں نئی تعلیم ،نئے کلچر اور سفر نامہ جیسی صنف ادب سے متعارف ہونا پڑا۔ ہمارے یہاں اُردو سفر ناموں کی ایک اچھّی خاصی روایت ہے موجود ہے، جس پراسی حساب سے تحقیقی و تنقیدی کام بھی ہوجانا چاہیے۔ گوپی چند نارنگ نے اُردو کو بہت کچھ دے دیا اور انکی پہچان ایک نظریہ ساز کے طور پر عام ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھوں نے تحقیق و تنقید، اُردو درسیات کے شعبؤں میں بھی نئے جوت جگائے ہیں۔ انھوں نیہندوتان کے ساتھ ساتھ مغرب کی یونیورسٹیوں میںبھی تحقیقی و درسی کام کیا اور جگہ جگہ اُردو کی مشعل لئے وہ گھومے ۔۱۹۸۱ء میں انہوں نے مختلف مغربی ممالک کا دورہ کیا۔ جسکے نتیجے میں ان کا معروف سفر نامہ ’’ سفر آشنا‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۲ء میں منظر عام پر آگیا۔
صرف ۸۶ صفحات پر پھیلے ہوئے اس مختصرسفر نامے کو نارنگ نے پانچ حصّوں میں ذیلی سر خیوں کے تحت بیان کیا ہے۔ جس میں انہوں نے جرمنی، واشنگٹن، کنیڈا، ٹورینٹو، لندن وغیرہ جیسی مقامات کی خوبصورت تصویر پیش کی ہے۔  علمی و ادبی ترقی کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی تعلیمی ترقی بھی اس میںنمایاں ہمیں نظر آجاتی ہے۔ وہاں بر صغیر کے رہنے والے مختلف لوگوں کے ساتھ ساتھ انکی ملاقات، وہاں کے پروفیسروں اور دانشوروں سے بھی ہوتی ہے۔ وہاں کے حسین مناظر، تعلیمی صورتحال، لوگوں کا اُٹھنا بیٹھنا، وہاں کی معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ ہمیں وہاں کی سائنسی اور ٹکنالوجکل ترقی بھی اس سفر نامے میں خوب نظر آجاتی ہے۔چونکہ ’’ سفر آشنا‘‘ایک مختصر سا سفرنامہ ہے، اس لئے مصنف نے اکثر اپنے بیانات میں اجمال سے ہی کام لے لیا ہے۔ !
اہم اصطلاحات:
جدید تعلیم، کلچر، حج، سفر نامہ، اسٹال واٹ، نظر یہ ساز، ماہر لسانیات، مغربی ممالک، وزیٹنگ پروفیسر، جغرافیہ، بیانیہ، دستاویزی، انٹرنیٹ، ٹکنالوجی، جنگ عظیم دوم، لبرل آرٹ، ناستلجائی کیفیت، انجمن ترقی اُردو کینیڈا، اُردو نستعلیق، آرکی ٹکچر، جمہوری نظام، سوشلسٹ پارٹی، فکشن، قاری، رپورتاژ، اتھو پیا۔۔۔۔
مقالے کا متن:
اُردو سفر ناموں پر اگر مجموعی طور پر ایک نظر ڈالی جائے گی، تو پہلی بات یہ ہے کہ اس صنف کا آغاز یہاں عہد برطانیہ میں انکے ساتھ تعلقات رکھنے اور انکی دی ہوئی جدید تعلیم سے ہوا اور عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ یوسف خان کمبل پوش نے ’’ عجائبات فرنگ‘‘ کے عنوان سے پہلا سفر نامہ اُردو کو دے دیا ۔ انھوں نے ۳۰ ؍ مارچ ۱۸۳۷ء میں کلکتہ سے نکل کر انگلستان کا سفر شروع کیا اور پھر اس کی روئداد لکھ کر ۱۸۴۷ء میں اپنا یہ سفرنامہ شائع کیا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شروع سے ہی ہمارے سفرناموں کا خاص موضوع برطانیہ یا مغرب رہا ہے۔ یعنی وہاں کے کلچرل تعلیمی، اقتصادی اور سائنسی برتری سے جو تاثر ہمارے سیاحوں کے دلوں میں پیدا ہوا۔ اسکو پھر وہ بڑی بے تکلفی سے اپنے اپنے سفرناموں میں بیان کرتے رہے اور پھر ہمارے قارئیں اس سے محظوظ ہی نہیں، بلکہ کافی معلومات بھی حاصل کرلیتے ہیں۔اسکے علاوہ ہمارے سفرناموں کا اکثر موضوع حج یا ’’ عرب ممالک کی مذہبی سیاحت‘‘ رہتا ہے۔وہ اسلئے کیونکہ برصغیر میں دین اسلام کے فروغ میں اُردو زبان کا ہی سب سے بڑا ہاتھ رہتا ہے۔ علاوہ ازیںہمارے سفرناموں کا موضوع برصغیر کے مختلف خطے اور ان کا کلچر بھی رہتا ہے۔ انہیں کچھ لوگوں نے’’ اندرون ملک کے سفرنامے‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔   ؎۱
مغرب یا اندرون ملک سفرناموں کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں بھی اُردو والوں نے سیر وسیاحت کرکے اچھّے خاصے سفرنامے لکھے ہیں۔ جیسے چین کے دورے کے بارے میں حال ہی  میں پروفیسر شکیل الرحمٰن( دیوار چین ے بت خانہ چین تک۔ میزان پبلیشرز سرینگر) اور ف۔س۔اعجاز ( چین یاترا۔ انشاء پبلی کیشنز کلکتہ ۲۰۱۷ء )کے اچھے خاصے سفرنامے چھپ گئے۔غرضیکہ اُردو میں سفرنامہ لکھنے کی ایک اچھّی خاصی روایت ہمارے پاس موجود ہے۔ جس پر ڈاکٹر انور سدید(اُردو ادب میںسفرنامہ صفحات ۷۴۴) ڈاکٹر مرزا حامدبیگ( اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ۔ اورینٹ پبلشرز لاہور،طبع دوم ۲۰۱۴ء صفحات ۱۳۵) اور ڈاکٹر خالد محمود ( اُردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ۔مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دلی) نے معتبر تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے، لیکن جسطرح نئے نئے چھوٹے بڑے اُردو سفرنامے مختلف رسالوں میں چھپتے ہیں۔مختلف مجموعوں کی صورت میں شائع کئے جاتے ہیں یا پھر الگ ایک سفر نامے کو باضابطہ کتابی صورت دیکر اسکو طبع کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے اس غیر افسانوی نثری صنف یا نیم تخلیقی ادبی صنف پر کام بھی ہو جانا چاہیے؟
پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے اسٹال واٹ اُردو داں کا سفر نامہ ابھی تک ہمارے ناقدوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔؟ حالانکہ اسکی اشاعت کے بعد شمس الحق عثمانی ( ہماری زبان ۱۵؍ ستمبر ۱۹۸۳ء) مظفر حنفی( کتاب نما جولائی ۱۹۸۳) صفدر حسین( اخبار لاہور ۱۹۸۷) اوپندرناتھ اشک( تحریر ۱۵ ؍جنوری ۱۹۸۴ء) خلیق انجم( ہماری زبان اکتوبر ۱۹۸۲ء)    ؎۲    وغیرہ نے اس سفرنامے پر کچھ تبصرے بھی لکھے۔
خیر جہاں تک کہ مغرب کے بارے میں لکھے گئے اُردو سفرناموں کا تعلق ہے۔ ان میں عجائبات ِ فرنگ، مسافرانِ لندن ۱۸۶۹ء( سرسیّد) سیر یورپ ۱۸۹۰ء( نثار علی بیگ) آئینہ فرنگ ( نواب محمد عمر خان) سیر حامدی ۱۸۹۴ء(نواب حامد علی خان) خوفناک دنیا ۱۸۹۹ء( محمد علی شاہ سبزواری) نقش فرنگ( قاضی عبد الغفار) مسافر کی ڈائری( خواجہ احمد عباس) دیس سے باہر( آغا محمد اشرف) سات سمندر پار(اختر ریاض) جہاں دیگر(قرۃ العین  حیدر) برسبیل سفر( حکیم محمد سعید) نئی دنیا کا سفر( اکمل علیمی)آشبار ادب(بی ڈی کالیہ ہمدم) اور سفر آشنا  ( گوپی چند نارنگ) وغیرہ خاص شامل ہیں۔ 
ہمارے عہد میں ہندوستان کے اُردو ادب میں (خاصکر تحقیق و تنقید کے میدان میں ) پروفیسر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کو چوٹی کا مقام حاصل ہے، انھوں نے جتنا کچھ لکھا، ٹھیک اسی قدر انکی پزیرائی بھی ہوئی۔ حالانکہ ان دونوں صاحبان علم و ادب کو کئی لوگوں نے اکھاڑہ بھی بنایا ہے،اور کئی لوگ اُن کی لابی کا حصہ بن کر ہی ترقی کے زینے چڑھ جاتے ہیں! مگر ہم جیسے طلبہ ان کی شخصیات اور انکے اپروچ کو یک طرف چھوڑ کر صرف ان کی کتابوں سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے کئی ادبی جہات ہیں۔ وہ مختلف اصناف ادب ( تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ تخلیق بھی) پر طبع آزمائی کرچکے ہیں اور ادبی صحافت سے بھی وابستہ رہے، گوپی چند نارنگ کو اکثر ناقدوں نے صرف تھیری کی حد تک ہی دیکھا ہے۔ البتہ ہم انہیں نقاد، محقق،نظریہ ساز، ماہر لسانیات کے ساتھ ساتھ ماہر اُردو درس و تدریس کے طور پر بھی پہچان سکتے ہیں۔ اُردو زبان و ادب اور تدریس کا کوئی بھی گوشہ انکی نظروں سے چھُپ نہیں سکا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اُردو کیلئے اپنی ذات سے اُوپر اُٹھ کر ایک انجمن کی طرح اور ایک انجمن سے اُوپر اُٹھ کر ایک تحریک بن کر کام کیا۔ پروفیسر نارنگ نے اُردو کو اُردو والوں تک ہی محدود ہونے نہیں دے دیا، بلکہ اُردو والوں کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور نیا دے دیا اور برصغیر کی سرحدوں کو پھلانگ کر اُردو کی آواز کو سات سمندروں کے پار بھی پہنچانے کی سعی کی۔ اسکی مثال انکے وہ یورپی افکار ہیں۔ جو انھوں نے اپنے اندر جذب کرکے اُردو میں پیش کئے ہیں۔ انکی وہ تحریریں ہیں، جو انھوں نے اُردو کلچر یا تدریس کے متعلق انگریزی زبان میں تحریر کیں۔انکے ملکی اور بین الاقوامی دورے ہیں، جہاں وہ اُردو کے چراغ جلاتے رہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی کے تحت انھوں نے ۱۹۸۱ء میں مختلف ادبی انجمنوں اور یونیورسٹیوں کی دعوت پر مختلف مغربی ممالک( جن میں جرمنی، ناروے، امریکہ، کنیڈا اور انگلینڈ شامل ہیں) کا ایک طویل دورہ کیا اور اسکے نتیجے میں ان کا سفر نامہ ’’ سفر آشنا‘‘ کے نام سے ۱۹۸۲ء میں معرض وجود میں آگیا۔ جسے پہلی بار ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے ایک ہزار کا پیوں کی تعداد میں منظر عام پر لایا۔ 
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس سفر سے پہلے بھی نارنگ صاحب ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۵ ء ا ور پھر ۱۹۶۸ء ۱۹۷۰ء میں وسکانسن یونیورسٹی میڈیسن میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں۔ ۱۹۶۹ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ منی سوٹا مینیاپلس یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہے۔   ؎۳    اس لئے مغرب جانا ان کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے، البتہ یہ سفرنامہ صرف جولائی ۱۹۸۱ء کے سفر کی روداد ہے۔ جس میں کہیں کہیں پُرانی یادوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ 
’’ سفر نامہ‘‘ ایک نیم تخلیقی صنف ہے، جس میں ایک سیاح اپنے سفر کے چشم دید واقعات اپنے مخصوص مشاہدات اور تجربات کے انداز میں ایک قصّے کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسافر کون ہے اور اسکے مشاہدات یا تجربات کس قسم کے ہیں۔ یا دوسرے معنوں میں ہم یہ کہیں گے کہ سفر کی نوعیت کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر سفر کرنے والا ایک ادیب ہوگا، تو اسکا سفر نامہ ادب اور ثقافت سے متعلق ہو گا، البتہ جس خطے کا وہ سفر کرے گا، وہاں کا جغرافیہ ،وہاں کی تاریخ، وہاں کی اقتصادی صورتحال وغیرہ جیسے عام معاملات کے ساتھ ان کا واسطہ پڑ ہی جاتا ہے، تو ان تمام چیزوں کو بھی اپنے سفر نامے میں ڈسکس کرنا اس کے لئے لازمی بنتا ہے۔ یہ ساری باتیں اس کے ہم وطنوں اور اسکے ہم زبان لوگوں کیلئے اجنبی ہی نہیں، بلکہ کافی معلوماتی اور سود مند بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر انور سدید نے بھی کیا خوب لکھا ہے:
’’ فنی طور پر سفر نامہ وہ بیانیہ ہے، جو ایک سیاح دورانِ سفر یا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات کو مرتب کرتا ہے۔ اس صنف ادب کا تمام مواد منظر کے گردوپیش کی صورت میں خارج میں بکھرا ہوتا ہے۔ لیکن سفر نامہ نگار صرف خارجی ماحول کا ہی مشاہدہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اپنے بیانیہ کو ہمہ جہت بامعنی، مدلل اور دستاویزی بنانے کے لئے بہت سی دوسری جزئیات کو بھی سمیٹا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ سفر نامہ نگار کی نظر جتنی باریک بین ہوگی جزئیات اتنی ہی تفصیل سے اس کے مشاہدے میں آئیں گی۔‘‘     ۴؎
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے گا، تو گوپی چند نارنگ کا ’’ سفر آشنا‘‘ کچھ معمولی باتوں کو چھوڑ کر ایک مکمل سفر نامہ ہے، جس میں ایک ایسی دنیا سے برصغیر کے اُردو خواہاں طبقے کو متعارف کروایا گیا ہے، جو ان کیلئے اس دور میں ( یعنی بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ) بالکل اجنبی تھی۔ آج کی بات الگ۔ کیونکہ بھلے ہی ہم یورپ اور انکی ترقی سے بہت پیچھے ہیں، مگر انٹرنیٹ اور دیگر ٹکنالوجی کی مدد سے ہم انکے چپے چپے سے ہر لمحہ واقفیت رکھتے ہیں۔!
زیر نظر سفر نامے کے متن پر جب ایک نظر ڈالی جائے گی، تو اس کمپیکڈ سفر نامے کو گوپی چند نارنگ نے پانچ ابواب یا سرخیوں کے تحت پیش کیا ہے اور فہرست میں ان سرخیوں کے تحت ذیلی سرخیوں کو بھی درج کیا گیاہے۔ ان تمام سرخیوں کے عنوانات بڑے شاعرانہ انداز میں لکھے گئے۔
’’ سیل سفر‘‘ میں وہ پہلے انسانی زندگی میں سفر کی اہمیت پر کچھ ہلکی سی روشنی ڈالتے ہیں اور پھر پروفیسر بیکر( جو وسکانسن یونیورسٹی میں انکے رفیق کار تھے) کو اس سفر کا محرک بتاتے ہیں۔ اسکے بعد ۹؍ جولائی ۱۹۸۱ء کو ان کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور انکی پہلی  منزل فرینک فرٹ جرمنی ہے۔ وہاں پہنچتے ہی انہیں لگا کہ یہاں کا سارا نظام پچھلے دس گیارہ برسوں میں بدل گیا ہے۔ دراصل زندگی تغیر اور تبدل کا نام ہے۔ اسی لئےBenjamin Disraeli نے ۲۰ اکتوبر ۱۸۶۷ء میں اپنے ایک خطبے میں کہا تھا:
Change is Inevitable in a progressive society , change is constant.5
حالانکہ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے باوجود بھی جرمنوں نے اپنے ملک کو خوب سنوارا اور سجایا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو صاف ستھرا رہنے کی فطری عادت بھی ہے۔اسکے بعد نارنگ ہائیڈل برگ یونیورسٹی قصبہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں انھوں نے اقبال کے Ph.D اور عطیہ فیضی کا بھی ذکر کیا ہے اور کچھ ماضی کی باتوں کو بھی  یاد کیا ہے۔
اُردو تعلیم کے حوالے سے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔ جس میں وہاں اقبال چیئر کا قیام اور ’’تاریخ ادبیات ہندوستان‘‘ کو پندرہ جلدوں میں مرتب کرنے کا کام بھی جاری تھا۔ اس کام میں ’’ جدید اُردو ادب‘‘ کی تاریخ لکھنے کا کام نارنگ صاحب کے ہی سپرد کیا گیا۔
یونیورسٹی سے نکل کر نارنگ صاحب ہائیڈل برگ کی پہاڑیوں اور دیگر جگہوں کو دیکھتے ہیں، جس کی منظر نگاری بھی انھوں نے خوب صورت انداز میں کرلی۔ جس میں ریل کے زمین دوز اسٹیشنوں اور وہاں کے سارے الیکٹرانک سسٹم کا ذکر ہے۔یعنی میٹروٹرین اور ای ٹکٹ وغیرہ نظام وہاں اُس وقت رائج تھا، جب ہم نے ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا!۔ اسکے بعد نارنگ ہیتھرولندن پہنچے اور پھر وہاں سے وہ واشنگٹن اپنے رشتہ داروں  کے پاس پہنچے۔ پھر ٹورینٹو اپنے بیٹے ارون کے پاس پہنچے، جہاں وہ اُس وقت میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ یہاں گوپی چند نارنگ نے سٹی سینٹر کے مناظر ہمیں خوب دکھائے،پھر وہ ہمیں پارک یونیورسٹی لے چلتے ہیں، جو کہ لبرل آرٹ اور سوشل سائنسز کی تعلیم کے لیے پورے کینیڈا میں مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گھومے۔ مختلف پروفیسروں کے ساتھ ساتھ وہ یونیورسٹی کے پریذڈنٹ( یعنی وائس چانسلر) پرفیسر میکڈانلڈ سے بھی ملے اور ان تمام لوگوں کے ساتھ مختلف علمی پروگراموں پر تبادلۂ خیال کیا۔ چونکہ ٹورینٹو میں ان کا قیام نجی تھا۔ اس لئے وہاں وہ دیگر لوگوں سے بھی ملے۔ میڈیسن یونیورسٹی پہنچتے ہی انہیں ایک عجیب طرح کی ناسٹلجیائی کیفیت سی محسوس ہوئی۔ ایک طرف انہیں جوانی کے وہ پانچ برس یاد آگئے، جو انھوں نے وہاں اس یونیورسٹی میں اپنے دوستوں اور احباب کے ساتھ گزارے تھے۔ دوسری طرف اپنے وطن کے ان تلخ تجربات کے بارے میں بھی یوں لکھتے ہیں:
’’ دہلی کے ان کرم فرماؤں کی بھی یاد آئی جنھیں حسدنے سب کچھ دیا ہے، لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کو خدا اور رقابت کی راہ میں فیاضی سے لٹاتے رہتے ہیں، جو بڑی بڑی انسان دوست تحریکوں سے وابستہ ہیں، لیکن جنھیں سازشیں بونے اور نفرتیں کاٹنے میں کمال حاصل ہے۔ کیونکہ ذہنی کشادگی اور انسانیت سے ان کی صاحب سلامت بھی نہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے اور انہیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے کیونکہ ان بیچاروں کو نہیں معلوم کہ’’عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا۔ اس راہ میں توپِتہّ پانی ہوجاتا ہے۔ اُردو میرے لیے دیوانگی کا سودا کب نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘      ۶؎
یہ دل کو چھو لینے والا اقتباس ہم نے یہاں اس لئے نقل کیا ہے کیونکہ ہمارے یہاں کے تعلیمی اداروں میں اکثر ایسا ہی ماحول آج بھی پایا جاتا ہے۔ جسکے نتیجے میں ہم نارنگ جیسے اور لوگ نہیں پیدا کرسکتے ہیں!
پھر نارنگ صاحب حال میں آکر ہمیں یونیورسٹی لے چلتے ہیں اور وہاں کے پورے ماحول اور وہاں کے مارکیٹ کی منظر کشی اپنے موقلم سے کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پروفیسر ڈونلڈ بیکر کو متعارف کراتے ہوئے برسوں پہلے میڈیسن یونیورسٹی میں قیام کے دوران انھوں نے جو مشترکہ طور پر کام کیا ہے۔ اسکی بھی جانکاری دے دی۔ اسی طرح انکی ملاقات وہاں برصغیر ہند وپاک کے ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے، جو وہاں مختلف شعبؤں سے وابستہ ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ پروفیسر بیکر کے ہاں انکی دعوت ہوئی اور انکے اسٹڈی روم میں ایک عدد کمپیوٹر تھا اور وہ اسکے زریعے جرمن زبان پر کام کرتے تھے اور نارنگ صاحب کمپیوٹر کی ٹکنیک اور اسکے استعمال کے بارے میں جانکاری کیلئے کچھ باتیں لکھتے ہیں۔ یاد رہے اس زمانے میں ہماری یونیورسٹیوں میںخاص کر اُردو شعبؤں میں کمپوٹر کا تصور ہی نہ تھا۔ اتنا ہی نہیں ۱۹۸۱ء کے کچھ برس بعد جب وزیر اعظم ہند شری راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں ہندوستان میں کمپوٹر رائج کرنے کا منصوبہ پیش کیا، تو انہیں حزب مخالف پارٹی نے’’ کمپیوٹر بائے ‘‘کہہ کرخوب مذاق اُڑایا۔!
خیر گوپی چند نارنگ کی یگر تفریحات میں وہاں شیکسپئر کا ڈراما اسٹیج پر دیکھنا وغیرہ بھی شامل رہا۔’’ سلور سپرنگ میری لینڈ‘‘ کے تحت واشنگٹن میں گزارے ہوئے وہ ایام بیان کئے گئے، جہاں وہ وہاں گھریلو ماحول میں رہتے تھے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وہاں کا بازار عالمی سیاست اور چاند پر پہلا قدم رکھنے والوں کی ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ۴؍ اگست کو وہ دوبارہ ٹورینٹو اپنے بیٹے ارون کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور انکے دوستوں کی پارٹی میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہاں انکی مصروفیات میں وایس آف ایشیا کا انٹریو، ہر بنس لال نارنگ ، بک اسٹور میں بیٹھ کر کتابیں خریدنے کے علاوہ ٹورینٹو کے مناظر دیکھنا، ٹی وی انٹریو، انجمن اُردو کینیڈا کی کارکردگی، حفظ الکبیر قریشی کے ہاں دعوت پرجانا اور انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ٹورینٹو یونیورسٹی میں ’’ آزادی کے بعد ہندوستان پاکستان میں اُردو افسانے کا جزرومد‘‘ پرا ن کا لیکچر وغیرہ رہا۔ اسکے علاوہ بھی ان کے وہاں اور بھی بہت سارے پروگرامز تھے کہ اچانک ہوائی سروس میں خلل ہوجانے کی وجہ سے انہیں وہ سارے پروگرامز منسوخ کرکے لندن پہنچ جانا پڑا۔!
لندن کے ایّام انہوں نے ’’ بہر سو رقصِ بسمل‘‘ کے عنوان سے تحریر کئے۔ لندن کے آئرپورٹ پر انہیں انکے دوست ساقی فاروقی نے رسیو کیا۔ اور وہ انہیں حسب پروگرام اپنے گھر لے چلے، جہاں انکے گھر کی مرمت چل رہی تھی۔ ساقی گھر میں مختلف جانوروں کو پالتے ہیں اور انکی مختلف شوخیوں کا ذکر نارنگ نے اپنے سفر نامے میں بار بار کیا ہے۔ لندن میں انکی ملاقات فیض احمد فیض، افتخار عارف، زہرہ نگار، بیرسٹر بشیری و دیگر لوگوں سے بھی ہوتی ہے۔ لندن میں اُردو کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے تھرڈورلڈ فاؤنڈیشن، لندن یونیورسٹی، کتابوں کی مارکیٹ اور بھی کئی جگہوں کا دورہ کیا اور بہت ساری شخصیات سے وہ ملے،جو وہاں اُردو کیلئے ناقابل فراموش کام کررہے تھے۔ گھر میں نارنگ کا وقت ساقی فاروقی کے ساتھ اور وہاں موجود مختلف جانوروں کے ساتھ بڑا یادگار گزرتا ہے، بی بی سی کیلئے افتخار عارف نے ان کا انٹریو لے لیا۔ انجمن ترقی اُردو ہند بر منگھم کی بھی ایک ادبی نشست ہوئی۔ دُور دُورسے انہیں ملنے کیلئے شائقین ادب آتے رہے۔ آکسفورڑ پہنچ کر انھوں نے برطانیہ میں اُردو کی صورتحال کے بارے میں لکھا:
’’ لندن اور لندن کے نواح میں لگ بھگ ہر جگہ اُردو کے ادیب و شاعر آباد ہیں ۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق برطانیہ میں اُردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس وقت اُردو بولنے والوں کا اوسط برطانیہ کی کل آبادی کا دو فیصد ہے اور یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں انگریزی کے بعد اُردو ہی رابطے کی دوسری بڑی زبان ہے۔ برطانیہ سے اُردو کے دو روزنامے ، تین ہفت روزے اور متعدد ماہنامے شائع ہوتے ہیں۔ حال ہی میں یہ دلچسپ بیان شائع ہوا تھا کہ برطانیہ کی عدالت عالیہ نے بریڈ فورڑ میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے۔‘‘     ۷؎
اتنا ہی نہیں وہاں کی مختلف ادبی انجمنوں کی خدمات، وہاں اُردو کی تعلیمی سہولیات، بی بی سی اُردو کی خدمات، ٹی وی نشریات وغیرہ کو انھوں نے کافی سراہا۔اسی طرح آکسفورڑ میں انکی ملاقات اکبر حیدر آبادی(انھوں نے دعوت کا بھی اہتمام کیا تھا)یاورعباس، حبیب حیدر آبادی، ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب، علی باقر جیسے اہل علم شخصیات سے ہوئی اور وہاں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ ساقی کی شخصیت کی کئی تہیں’’ سفر آشنا‘‘ میں کھولی گئیں۔ ان کے ساتھ کی گئی ادبی گفتگوکا خاص بیان ہے۔ڈارٹ فورڑ کے سفر کے دوران حبیب حیدر آبادی کی کتاب ’’ انگلستان میں اُردو‘‘ انکے قائم کردہ کتب خانہ اور ’’ اکیڈ می آف اُردو اسٹڈیز‘‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا۔ نارنگ کے ملنے والوں میں رافع حبیب، اقبال سنگھ، ڈاکٹر فاخر حسین، مشتاق احمد یوسفی وغیرہ جیسے لوگ بھی تھے۔ اس سفر میں بھی ادب کے حوالے سے بہت ساری یادگار چیزوں کو نارنگ نے دیکھا جیسے کیٹس کی رہائش گاہ، اسی طرح ٹیگور اور ڈی ایچ لارنس کی قیام گاہ جیسے مقامات ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں یہ خاص بات بھی گوپی چند نارنگ درج کرتے ہیں کہ انھوں نے لندن کے اپنے قیام کے دوران یہ خبر بھی سُنی کہ وہاں مونو ٹائپ نامی ایک کمپنی اُردو نستعلیق کتابت کو نوری نستعلیق کے نام سے کمپیوٹر میں ڈھالنے کی کوشش میں لگی ہے۔ جس میں پاکستان کے دو ماہرین احمد مرزا جمیل اور مطلوب الحسن سّید کی کوششوں کا  خاص عمل دخل رہتا ہے۔ اس نئی ایجاد کے حوالے سے نارنگ صاحب نے تفصیل سے بات بھی کی اور اسکے روشن امکانات بھی ظاہر کئے۔ یہاں ضمناً میں یہ عرض کرتا چلوں گا کہ ۱۹۹۰ء سے پہلے ہی پاکستان کا معروف اُردو اخبار ’’ جھنگ‘‘ کمپیوٹر کتابت میں چھپنے لگا اور اسی کے ساتھ وہاں بہت ساری کتابیں بھی کمپیوٹر کے ذریعے طبع کی گئیں۔ البتہ ہندوستان میں اُردو کتابت ترقی اُردو بورڑ کے ’’ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان‘‘ بننے کے بعد ہی عام ہوئی!
’’ منزل منزل عشق‘‘ کے تحت وہ سکنڈے نیویا اوسلو ناروے کے سفر کی روئداد بیان کرتے ہیں۔ سب سے پہلے انھوں نے لندن ہیتھرو سے اوسلو ناروے کے درمیان پہاڑیوں، سمندروں، جھیلوں اور مختلف عمارتوں کی منظر کشی کی۔
اوسلو میں انہیں استقبال کرنے کیلئے ہر چرن چاولہ آئر پورٹ پر آتے ہیں۔ پھر وہ ناروے کی سڑکوں، چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں ڈھلانوں کی خوبصورت تصویریں ہمیں دکھاتے ہیں۔ ہر چرن چاولہ کے مکان کی خوبصورتی انکے مقامی آرکی ٹکچر کے مطابق ہے۔ چاولہ نے ان کا سارا پروگرام  بنا رکھا ہے۔ اسی اثنا میں تنویر اسلم آکر انہیں سیر کراتے ہیں۔ جس کا بیان یہاں مصنف نے اپنے انداز میں کیا اور ناروے کے کلچر کے بارے میں بھی مجموعی طور پر بات کی۔
 یہاں خاص بات یہ رہی کہ گوپی چند نارنگ نے Author's Society  کے جلسے میں ’’ہندوستان کی ادبی صورتحال اور ادبی مسائل‘‘پر لیکچر دے دیا اور یہ نشست ڈھائی تین گھنٹے تک چلی،جس میں ناروے کے بہت سارے ادیبوں نے شرکت کی۔ اس جلسے میں نارنگ کو بہت سارے سوالات بھی کئے گئے، یہاں اپنے سفر نامے میں نارنگ نے ناروے کی ثقافتی  صورتحال کا اچھّا خاصا تعارف بھی دے دیا اور ناروے میں ایک آتھر کو کتنا مالی منافع ہوتا ہے، اسکی بھی جانکاری فراہم کی گئی۔ وہ اس لئے لکھا گیا تاکہ ہمیں اس بات کا پتہ چلے گا کہ ہندوستان میں ادب اور ادیب کی قدر کتنی ہے اور مغرب میں کتنی ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ اچھّا ادب یا اچھّا کام ان ہی ممالک میں ہوگا!
وہاں اُردو ہندی کی تدریس کا بھی باضابطہ انتظام ہے اور ٹیچروں کی تربیت کا بھی مسئلہ زیر غور رہا، جس پر نارنگ نے انہیں ورکشاپ کراتے ہوئے ایک مقالہ بھی تحریر کرکے دے دیا۔ نارنگ نے وہاں کے مشہور اخبار Aften posten کیلئے انٹریو دے دیا، جس کیلئے انہیں بارہ سو کروند( یعنی ۲۶۰۰ ہندوستانی روپے) مل گئے! ناروے کے سیاسی نظام پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہاں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے بھی اپنے ووٹ کا حق ادا کیا۔ اسطرح انکے اس جمہوری نظام کو خوب سراہا گیا۔ اتنا ہی نہیں وہاں کے حکومتی نظام ، وہاں کی اقتصادیات اور وہاں کی طرز زندگی پر بھی موصوف نے سرسری نظر ڈالی، انہوں نے وہاں سوشلسٹ پارٹی کے اخبار Arbelder Bladet کو بھی ایک انٹریو دے دیا۔ 
اوسلو یونیورسٹی میں’’ انڈوایر اینس انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں نارنگ صاحب کی ایک ادبی نشست ہوئی ،جس میں وہاں کے اسکالروں سے بھی انکی ملاقات ہوئی۔ وہاں کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو وظائف دئے جاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کی بھی آگاہی اس سفرنامے میں دے دی گئی۔ ناروے کے ادب کی صورتحال کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔ وہاں کے ماہنامہ ’’ کارواں‘‘ کیلئے نارنگ نے انٹریو دے دیا۔ وہاں کی سب سے بڑی لائبریریDeich  Manske Bibliotekجانے کا موقع نارنگ صاحب کو ملا، جہاں اُردو ہندی پنجابی کے الگ الگ سیکشنز بھی ہیں۔ شعبۂ اُردو کے نگران ہر چرن چاولہ ہے۔ جنھوں نے نارنگ صاحب کا لیکچر وہاں کروایا۔ ناروے کے مصنف سیگورموری نے انہیں گھومنے کیلئے لے لیا، جسکے حسین مناظر یہاں سفرنامے میں بھی پیش کئے گئے۔ ریڈیو کی اُردو سروس کیلئے انیس احمد نے انٹرو لے لیا اور مسز راج پاٹھک نے ناروے کے ہندی رسالے’’ پہچان‘‘ کیلئے ان کا انٹریو لے لیا۔
اس سفرنامے کے آخر میں ’’ تبسّم گل فرصت بہار‘‘ کے تحت لندن کی علمی و ثقافتی۔ تاریخ کی مدح سرائی کے بعد ان دوستوں، انجمنوں کا شکریہ ادا کیا، جسکی بدولت ان کا یہ ٹیور ممکن ہوسکا، اُردو کی صورتحال کے پیش نظر لندن کو اُردو یونیورسٹی کے اسکول آف اور ینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز‘ میں ڈاکٹر ضیا الدین شکیب نے ان کا لیکچر ’’ ہندوستان میں اُردو شاعری کے نئے رجحانات‘‘ کے موضوع پر کروایا، جسکی صدارت فیض احمد فیض نے کرلی۔ اور جس کی نظامت کیلئے افتخار عارف اور استقبالیہ کیلئے ساقی فاروقی موجودتھے۔ اس یادگار تقریب میں طلبہ اسکالروں کے ساتھ ساتھ دُور دُور سے محبان اُردو آئے تھے۔ اسکے بعد ان کے عشائیہ کا اہتمام راج کھیتی نے کیا تھا۔ جہاں عبد اللہ حسین، افتخار عارف اور بھی کئی لوگ اس پارٹی میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد اگلی صبح کو انھوں نے لندن کو الوداع کیا۔
حاصل مطالعہ:
اکثر و بیشتر ادب میں اختصار کو حُسن سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم کسی چیز کے پس منظر سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔تو فکشن پارے یا کسی نثر پارے میں اس چیز کو اپنی تمام تر جزئیات سے دُہرانا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ ایک قسم کی Word building  ہوجاتی ہے۔ اور اسے قارئیں کا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔اور ادب پارہ یا ہمارا مضمون خوامخواہ طویل ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک ایسی دنیا کی سیر کرتے ہیں، جسکے بارے میں قارئیں کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے اور یہاں اگراختصار کے بجائے کہیں کہیں تفصیل سے بھی کام لیں گے، تو کوئی بُرا نہیں ہوگا۔ اسی لئے بہت سارے رپورتاژوں اور سفر ناموں میں ہم اُن مقامات کے بارے میں تفصیل سے بھی کچھ پڑھتے ہیں، جنکی سیر مصنف کرتا ہے۔ یا اسے واسطہ پڑجاتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر یہاں نارنگ صاحب نے ہمیں کوئی ایسی تفصیل نہیں دے دی ،تاکہ ہم ان جگہوں کو  پوری طرح سے سمجھ سکیں گے، جنکا ذکر ’’ سفر آشنا‘‘ میں آیا ہے۔ اسی لئے انور سدید نے لکھا ہے:
’ ڈاکٹر نارنگ کا یہ سفر ہنگامی نوعیت کا تھا، اس لیے وہ سیّاح کے بجائے مسافر نظر آتے ہیں ۔لیکن لندن میں ۔۔۔۔انہیں لمحۂ فرصت ملا، تو ان کے اندر کا سیّاح اچانک سطح پر نمودار ہوگیا اورپھر وہ ہر چیز سے بے تکلّف ہوگئے، اس کی مثال ساقی فاروقی کے تذکرے سے پیش کی جاتی ہے۔‘‘    ۸؎
ڈاکٹر نارنگ نے جو دیکھا، یا جن لوگوں کے ساتھ انکی کسی نہ کسی طرح سے وابستگی پڑگئی، ان سارے حالات واقعات کو انہوں نے من وعن بڑی ایمانداری سے پیش کیا ہے، ساقی فاروقی سے انکی بڑی بے تکلفی رہی۔ اس لئے ان کے کردار کو زندہ کیا۔ البتہ کسی جگہ کی تفصیل دے دینا یہ ایک الگ ریسرچ بن جاتا ہے۔ جو شاید نارنگ صاحب نے مناسب نہیں سمجھا۔ اس سفر کے دوران نارنگ اتنا کام کرگئے، جتنا کہ دوسرے کے ہاں ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی زندگی ہی ایسی ہے، جسکا بین ثبوت انکی کتابیں یا انکے دیگرادبی خدمات کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ انکی لائف جسکی کچھ جھلکیاں ہمیں ان کے سفرنامے میں بھی نظر آجاتی ہیں۔ میرؔ کے اس شعر کے مانند ہیں:
؎ میں کہاں رُکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے      مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
ڈاکٹر علی عباسؔ نے ایک اچھّے سفرنامے کے بارے میں لکھا ہے:
’’ عمدہ سفرنامہ اسی کو کہا جاسکتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد معلومات کی فراہمی کیساتھ جس ملک اور شہر کا سفر کیا جارہا ہے، وہاں کی جیتی جاگتی تصویر بھی نظر آجائے اور قاری سفر نامہ پڑھتے وقت خود کو مسافر یا سیّاح کے ہمراہ سفر کرتا ہوا محسوس کرے۔‘‘      ۹؎
بے شک ہمیں گوپی چند نارنگ کا ’’ سفر آشنا‘‘ پڑھ کر مغرب کے مختلف ممالک کے ادب، کلچر، تعلیم۔ سماجی۔ معاشی اور سائنسی معلومات کا خزانہ حاصل ہورہا ہے۔ اور ہم ایک ایسی دنیا کی سیر کرتے ہیں، جو آج سے چالیس برس گزر جانے کے بعد بھی ہمارے لئے ایک اتھوپیا ہی ہے۔ اور نارنگ صاحب اپنی بات کہنے میں صد فی صد کامیاب بھی ہوئے ہیں، لیکن کہیں کہیںہم بات کی وضاحت بھی چاہتے ہیں، جسکی کمی ہمیں یہاںضرور محسوس ہوتی ہے۔!
 
حوالے و حواشی
۱۔ یہاں تک کچھ تاریخوں کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید کی کتاب’’ اُردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘۔ اے ایچ   پبلیشرز اُردو بازار لاہور ۱۹۹۶ء سے  استفادہ کیا گیا۔
۲۔ یہ کچھ اطلاعات مجھے ڈاکٹر الطاف انجم (کشمیر یونیورسٹی)نے فون پر بہم پہنچائی ہیں۔ وہ پروفیسر گوپی چند  نارنگ کے مداح بھی ہیں اور مرید بھی۔
۳۔  ارمغان نارنگ۔ مرتب عبد الحق۔ موڈرن پبلیشنگ ہاؤس دریا گنج نئی دہلی ۱۹۹۶ء سے کچھ استفادہ کیا   گیا۔
۴۔ اُردو ادب میں سفر نامہ ڈاکٹر انور سدید۔ مغربی پاکستان اُردو اکیڈیمی لاہور ۱۹۸۷ء شکریہ  بحوالہ www.wadi-e-urdu.com           
5.   Hand Book of Quotations. Arthur T.Morgan. Goyal  Publishers & Distributers Jawahar Nagar Delhi   2009   P. 49
۶۔ سفر آشنا۔ گوپی چند نارنگ۔ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی۔ ۱۹۸۲ء   ص  ۲۷۔۲۶
۷۔ سفر آشنا۔ گوپی چند نارنگ۔ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی۔ ۱۹۸۲ء   ص  ۵۲
۸۔  اُردو ادب میں سفر نامہ۔ ڈاکٹر انورسدید۔ مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور ۱۹۸۷ء  ص  ۹۱۔۳۹۰    شکریہ بحوالہ۔ www.wadi-e-urdu.com
۹۔  ادبی مضامین۔ ڈاکٹر علی عباس۔ ایم ایم پبلی کیشنز دہلی ۲۰۱۵ء    ص   ۴۸
 
٭ ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری( پیدائش جون ۱۹۷۲ء) کا تعلق وادی کشمیر سے ہے اور وہ اس وقت محکمہ اعلا تعلیم حکومت جموں و کشمیر میں ایسوسیٹ پروفیسر اُردو ہیں۔ وہ پچھلے بیس برسوں سے علم و ادب کے میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔ بہت دُور دُور تک علم و ادب کے میدان میں اُن کا نام  پھیلا ہوا ہے۔ سینکڑوں مقالات کے ساتھ انکی دو درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ صنف ڈراما ان کا خاص میدان ہے۔ اسکے علاوہ بھی وہ فکشن، علاقائی اُردو ادب، صحافت اور تعلیم کے موضوع پر لکھتے رہتے ہیں۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی سمیناروں میں اپنے پیپر پرزنٹ کئے اور ایسے پروگراموں کا انعقاد بھی  ہ کرتے رہتے ہیں۔ہفت وار ’’سرینگر سماچار‘‘ کا ادبی کالم لکھتے ہیں۔ شش ماہی ادبی رسالہ’’ دبستان علم و ادب ‘‘اور’’ دار الادب ایجوکیشنل انیسٹچیوٹ‘‘ کے سر پرست اعلا بھی ہیں۔جموں و کشمیر میں ذاتی نوعیت کا ایک بہت بڑا کتب خانہ Bibliomania کے نام سے انھوں نے قائم کیا ہے۔
 
٭٭٭