ڈاکٹر عبدالمعز شمس اور ان کی کتاب ’’آب ِ حیات‘‘کے حوالہ سے ایک تبصرہ

یکہ۔۔۔آب ِ حیات ہے!
سید اختر علی(ناندیڑ)
آج ساری دنیا ایک وبا’’کورونا‘‘سے متاثر ہے ۔جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے بطور احتیاطی تدبیر کچھ دوری بناکررہنے پر مجبور ہوگیا ہے اور ساری دنیا کا کام کاج ایک معنوں میں ٹھپ ہو گیاہے۔سر ِدست اس عالمی وبائی مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہواہے۔ہر ملک اس سے بچائو اور اس کے فوری علاج کی تدبیریں کر رہا ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ ’’ٹیکہ کاری‘‘اس کا بہترین علاج ہے ۔ لیکن اس سے قبل جتنے ٹیکے دریافت ہوئے ہیں ان کی دریافت کی کہانیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنے آسانی سے ہاتھ نہیں لگے ۔ سائنسدانوں نے اس کاز کے لیے اپنی زندگیاںوقف اور قربان کردی ہیں۔تب کہیں جا کر کہ کوئی ٹیکہ دریافت ہوا۔خدا کرے ’’ کووِڈ -۱۹ ‘ ‘ کا ٹیکہ بھی جلد از جلد دریافت ہو ۔اور سارا عالم پھر سے صحت یاب ہو کر باہم مل جل کر اپنا کام کاج شروع کرے۔آمین۔
ٹیکوں کی اسی اہمیت کے پیش ِنظرمحترم ڈاکٹر عبد المعز صاحب نے 2016ء میں ’’آب ِ حیات ‘ ‘ نامی ایک کتاب رقم کی۔کتاب کے سر ِ ورق اور کتاب کے نام کے اوپر پولیو سے محفوظ رہنے کے لیے حکومت ِ ہند کا مشہور و مفید ترین اشتہار یا سلوگن ’’ہرگھر ہر بچہ —دو بوند زندگی کی‘‘کو بھی اس کی اہمیت کے پیش ِ نظر خصوصیت کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ساتھ ہی دائیں جانب دو ٹپکتی بوندیں بھی دکھائی گئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کو انھوں نے اپنے مشفق والدین کی محنتوں اور دعائوں کا ثمرہ قرار دیتے ہوئے ان کے نام منسوب کیا ہے۔
 ڈاکٹر عبد المعز صاحب نے رانچی یونیورسٹی سے M.B.B.S.اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے M.S.کی ڈگریاں حاصل کیں۔آپ ایک معروف سرجن اورماہر امراض چشم ہیں۔نیٖز مزید مہارت کے لیے جاپان،سنگاپور اور ملیشیا کے معروف اداروں سے تربیت حاصل کی۔ہندوستان،ایران اور سعودی عرب کے مختلف اسپتالوں میں بطور ماہر امراض ِ چشم کام کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ آپ ڈاکٹرعبد المعز شمس کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں ۔ طالبِ علمی کے زمانے سے اصلاحی اور سائنسی مضامین لکھ رہے ہیں۔آپ ادب اور سائنس کا ایک حسین امتزاج ہیں ۔ فلاحی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔آپ Prevention Of Blindness کے عالمی پروگرام کے اہم رکن ہیں ۔ ہندوستان کے بیشتر غریب علاقوں میں آنکھوں کے علاج اور آپریشن کے لیے ہر سال مفت کیمپ منعقد کرتے ہیں۔علی گڑھ میں آپ کا آئی کیئر سینٹر مشہور ہے۔آپ مختلف NGOsکے بلاوے پر فی سبیل للہ علاج و معالجہ کے سلسلہ میں طویل عرصہ قیام کے ساتھ برّ اعظم ایشیا اور افریقہ کے بائیس (۲۲)ممالک کاتواتر کے ساتھ سفر کر چکے ہیں۔جبکہ ٹیم کے دیگر ممالک کے ڈاکٹرس وغیرہ یومیہ فیس چارج کرتے تھے۔ آپ گزشتہ زائد از پینتالیس(۴۵) برسوںسے لگاتار اور انتھک اپنی فنّی مہارتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔ اور تین لاکھ کے اوپر مریضوں کا الحمد للہ کامیابی سے علاج کے علاوہ پچاس ساٹھ ہزار سے زائد مفت اور کامیاب آپریشن کر چکے ہیں۔ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔اب یہ تعداد کتنی ہوگئی کچھ نہیں معلوم !بس ایک دھن ہے کہ کسی طرح علاج ہو جائے۔اسی وجہ سے آپ ’’غریبوںکے مسیحا ‘‘ کہلاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ امیروں کا علاج نہیں کرتے۔آپ ایک ہر دلعزیز ڈاکٹر اور ایک مشفق استاد ہیں ۔ آپ کے یہاں ہرمذہب ،ہر قوم اور ہر سماجی و معاشی حیثیت کا فرد آتا ہے۔اور ہر ایک کو ایسا لگتا ہے جیسے ڈاکٹر صاحب صرف اس کے ہیں اور وہ ان کا !اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی ہے۔بشیر بدر کو شکایت ہے کہ:  ؎
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
مگر کوئی آئے اور اس قدآور ڈاکٹر عبد المعز شمس سے ملے تو اس کی یہ شکایت رفع ہواوروہ پکار اٹھے :’’ہاں! آج میں نے ایک آدمی کو پالیا‘‘۔ بائوجود اس کے آپ سادگی کا پیکرہیں۔آپ میں بلاکی ہمدردی،غمگساری، انکساری،رواداری و خود دادری اور ایثار و قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا ہے۔ایسی شخصیات بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔کسی شخصیت کی اتنی ساری پرتوں کو دیکھ ہی شاید ندا فاضلی نے کہا تھا :  ؎
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
’’آب ِ حیات‘‘ٹیکوں کی معلومات پرمبنی آپ کی بے حد اہم کتاب ہے۔ناچیز کے ناقص خیال میں حفظانِ صحت کے حصول کی جانکاری کے لیے یہ کتاب ہر گھر میں ضرور ہونا چاہیے۔ساتھ ہی اساتذہ اور اسکول و کالج کی لائبریریوں میں بھی یہ ناگزیر ہے۔
آپ نے ’’آب ِ حیات‘‘کی تمہیدکے صفحہ نمبر(۶)پر لکھا ہیجسسے ٹیکوں کی ضرورت و اہمیت واضح ہوتی ہے:
’’معنون سازی دنیا کے تمام ممالک میں حفظان ِصحت کا اہم حصہ ہے اور نہ صرف ترقی یافتہ ملکوں بلکہ ترقی پذیرملکوں میں بھی اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ہمارے ملک میں ہو نہ ہو لیکن ترقی پذیر ملکوں میں بغیر معنون سازی نہ تو شناختی کارڈ بنتا ہے اور نہ ہی اسکولوں میں داخلہ ممکن ہے ۔ ‘ ‘ 
اسی تمہید کے صفحہ نمبر(۷)پر آپ نے بڑے درد بھرے انداز میں لکھا ہے:
’’ہمارے ملک میں جہالت، غربت اور افلاس اورسب سے زیادہ بے حسی اتنی ہے کہ عوام اسے بے جا،بلا ضرورت اور فضول سمجھتے ہیں اور اکثر غلط افواہوں اور پروپگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں یعنی ’’آب ِ حیات‘‘کو ’’آب ِ جو‘‘سمجھتے ہیں۔‘‘
اس اقتباس سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی کتاب کا نام’’آب ِ حیات‘‘کیوں رکھا۔ کتاب میں عام فہم انداز میںایسے اہم سوالوںاورنکات کی تشفّی بخش وضا حت کی گئی ہے جوخاص و عام قاری کے ذہن میں آسکتے ہیں جیسے
(۱)ٹیکوں کی دریافت و ایجادکی تاریخ کیا ہے؟
(۲)ٹیکوں کی ایجاد کا سنگ میل یعنی کون سا ٹیکہ کب ایجاد ہواہے؟
(۳)ٹیکہ (Vaccine)کیا ہے؟
(۴)ٹیکہ کاری(Vaccination)کسے کہتے ہیں؟
(۵)معنون سازی(Imminization)سے کیا مراد ہے؟
(۶)ٹیکے کس طرح تیار کیے جاتے ہیں؟ 
(۷)ٹیکے کس طرح کام کرتے ہیں؟
(۸)ٹیکہ سازی کے مختلف مراحل کون سے ہیں ؟
(۹)ٹیکہ سازی کے’جب‘ اور ’اب‘ کے بدلتے رجحانات کیا ہیں؟
(۱۰) ہندوستان میں ٹیکہ اور ٹیکہ سازی کی پالیسی کیا ہے؟
(۱۱)مختلف مذاہب اور ملکوں میں ٹیکوں کے تعلق سے کون سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں؟
(۱۲)ہندوستانی ٹیکہ کاری جدول (پیدائش سے لے کر سولہ سال تک اور حاملہ عورتوں کے لیے ٹیکہ)کیا ہے؟
(۱۳)ٹیکوں کے مخففات (Abbreviations) اور ان کے فُل فارم(Full Forms)کیا ہیں؟
(۱۴)مختلف بیماریوںاور ان کے ٹیکوں کی مختصر تفصیلات کیا ہیں؟وغیرہ وغیرہ۔
کتاب میں پہلے بیماریوں کاذکرہے پھر اس کے بعد ان سے بچائو کے لیے دیے جانے والے ٹیکوںکی تفصیل دی گئی ہے۔اور یہی اس کتاب کا حاصل ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ
(a) کوئی مرض کیا ہے؟،
(b)کوئی مرض کیسے ہوتا ہے؟،
(c)کسی مرض کی علامات کیا ہیں؟،
(d)کسی مرض کی مختلف قسمیں کون کون سی ہیں؟،
(e)مرض کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟،
(f)مرض کی تشخیص کے بعد علاج کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟،
(g)مرض اور علاج کی متوقع پیچیدگیاں کیا ہو سکتی ہیں؟،
(h)مرض ہو نے پراس سے بچائو کے لیے کون کون سی احیتاطی تدابیر اختیار کی جا ئیں؟،
(i)کسی مرض کا ٹیکہ کون سا ہے ؟ ،
(j)بچہ کو ٹیکہ کب لگ سکتا ہے یا کب دیا جاسکتا ہے؟،
 (k)کوئی ٹیکہ کیسے تیار کیا جاتا ہے؟،
(l)کسی ٹیکہ کی خوبیاں کیا ہیں؟،
(m)کسی ٹیکہ کی خامیاں کیا ہیں؟،
(n)مخلوط ٹیکہ کیا ہے؟،
(o)مخلوط ٹیکہ لگانے کے پیچھے حکمت کیا ہے؟،
(p) مخلوط ٹیکہ لگانے کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟،
(q)ٹیکہ کسے ،کتنی عمر میںکب کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟،
(r) ٹیکہ کون لگاتا ہے؟،
(s) ٹیکہ لگانے کے بعد کے اثرات یاپیچیدگیاں وغیرہ کیا ہیں ؟
کتاب میںان ٹیکوں سے متعلق بیماریوںکے درج ذیل نام جہاں تک ہو سکے سماج میں مروّج عام ناموں کے ساتھ گنائے گئے ہیں :
(i) چیچک (Small Pox)،
(ii) آب ترسیدگی یا سگ گزیدگی(Rabies)،
(iii)ہیضہ(Chollera)،
(iv)خناق(Diptheria)،
(v)خناق سُم نما(Diptheria Toxide)،
(vi)تپ دق(T.B.) ،
(vii)کزّاز(Tetanus)،
(viii)انفلوئنزا(Influenza)،
(ix)زرد بخار(Yellow Fever)،
(x)گلسوھا؍گلسُونے؍کنٹھمالا؍کن پیڑ؍کن پھیڑ (Mumps) ،  
(xi) پولیو Salkاور پولیوSabin،
(xii)خسرہ(Measles)،
(xiii)خسرہ کاذب(روبیلا)(Rubella)،
(xiv) سحائی التہاب؍گردن توڑ بخار (Meningitis) 
اور اس کی قسمیں جیسے:
(a)  Meningitis-A،
(b)  Meningitis-C،
(xv)ورم ِ جگر(Hepatitis-B)،
(xvi)کالی کھانسی؍شہقہ(Pertusis)،
(xvii)کزّاز؍فک بستگی؍اکڑن(Tetanus)، وغیرہ ۔
کتاب میں درج ذیل ٹیکوں کا ذکر کیا گیا ہے:
(i) چیچک کا ٹیکہ(Small Pox)،
(ii) BCGکا ٹیکہ،
(iii) پولیو کا ٹیکہOPVاورIPV،
(iv) ہیپاٹائٹس کا ٹیکہ،
(v)انفلوئنزا کا ٹیکہHib،
(vi)خسرہ کا ٹیکہ ،
(vii) MMRٹیکہ،
(viii) DPTٹیکہ،
(ix)کزّاز کا ٹیکہ،
(x)جدید ٹیکہ جیسےHPv،وغیرہ۔
کتاب کے آخر میں بچوں کو لگائے جانے والے اہم ٹیکوں پر طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔اس سے ایک نظر میں سمجھ میں آجاتا ہے کہ بچوں کے لیے کون کون سے ٹیکے ضروری ہیں۔یہ ٹیکے یہ ہیں:
(1) BCGٹیکہ،
(2) Polioکا ٹیکہ،
(3) Hepatitis-Bٹیکہ،
(4) Hepatitis-Aٹیکہ،
(5) DPTٹیکہ،
(6) Hibٹیکہ،
(7) Measlesٹیکہ،
(8) MMRمخلوط ٹیکہ۔
اس کے علاوہ بچوں کو لگائے جانے والے
(i) Oral Rota Virusٹیکہ،
(ii) Pneumococcalٹیکہ،
(iii) انفلوئنزا ٹیکہ اور
(iv) ٹائفائیڈٹیکہ کی دستیابی کا بھی ذکر ہے۔
عمدہ طباعت و گیٹ اَپ والی ۹۶ صفحات کی اس اہم کتاب کو(۱) ’العین‘شبلی باغ،ہمدرد نگرA،علی گڑھ،(۲)ایجوکیشنل بک ہائوس ، شمشاد مارکیٹ،علی گڑھ اور(۳) ماڈرن آئی کیر سینٹر،مزمل کامپلیکس ،سوِل لائنس، دودھ پور، علی گڑھ سے 50/-روپے میں حاصل کیا جاسکتا ہے جواحقر کے خیال میں قوت خرید سے باہر نہیں ہے۔