حیرت بن واحد-شخص اور شاعر

پروفیسرصغیر افراہیم
سابق صدر شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 
علی گڑھ،یوپی (انڈیا)
باغِ سرسید کے نگہبانوں کی طویل فہرست ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک جامع کمالات وصفات شخصیات جلوہ گر ہیں۔ ان کا تعلق تدریسی شعبہ سے بھی ہے اور غیر تدریسی عملے سے بھی۔ یہ فکر وعمل کے محرک بھی ہیں اور قصرِ شعروادب کے مایہ ناز ستون بھی۔ ایسی قابل فخر شخصیتوں میں حیرت بن واحد بھی شامل ہیں جن کی تمام عمر نونہالانِ سرسید کی ممکن مدد، تربیت اور شعروادب کی زلف کو سنوارنے میں گُزر گئی۔ غزلوں اور نظموں کی ادائیگی کے ساتھ ان کی انکساری، ملنساری اور خاکساری کے بھی ہمیشہ چرچے ہوتے رہے ہیں۔
سرسید نے تعلیمی وتربیتی درسگاہ کے لیے علی گڑھ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا، اور شہر کے کنارے، سِول لائن کے جس خطہ کو مرکز ومحور بنایا، شاید اس وجہ سے کہ انگریز حکمرانوں کی تعلیمی اور تنظیمی دلچسپی کے سا تھ شہر کی محبت واپنائیت بھری ہوئی بے لوث فضا کی تازگی اورحرارت بھی اس میں تحلیل ہوجائے۔ سرسید کی یہ دُور اندیشی بھی کامیابی کے قد م چومتی ہے۔ شہر کے باشندوں نے روزِ اول سے سرسید کے منصوبہ بند کیمپس کو اپنے دل میں رچا بسا لیا۔ حالاںکہ انھوں نے اُس منظر نامہ کو بھی دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ جب جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں درجۂ حرارت اعتدال کو پار کرتا ہے تو موسم کے مزاج کی طرح تعلقات بھی بدلتے ہیں اور موقع ومحل کے لحاظ سے وفاداریاں بھی منتقل ہوتی ہیں لیکن اِس کا اثر اُن شخصیات پر کم پڑتا ہے جنھوں نے شہر اور کیمپس کے ماحول کو اپنے آپ میں تحلیل کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر میزبانی کے فریضہ کو تسلیم کرلیا ہے۔ شاید اسی خوبی کی بنا پر شہر کے ایک کونے کو سنبھالے ہوئے کنور پال سنگھ اور دوسری طرف حیرت بن واحد جیسی شخصیات خوشگوار اور معتدل فضا کو بگڑنے نہیں دیتے تھے تبھی تو وہ ہمارے لیے قابلِ فخر اور قابلِ رشک ہیں۔ علی گڑھ کے اساتذہ وطلبہ کیا، انھیں تو یہاں کے درودیوار بھی عزیز تھے۔
 حیرت بن واحد کی نگارشات اور عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ فرزندِارجمند پروفیسر اختر الواسع کی علمی اور عملی جدوجہد کو بھی ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ سردستِ موصوف کے شعری مجموعہ پر اکتفا کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔
’’جہانِ دیگر‘‘ ۲۰۰ صفحات کو محیط رنگین سرِ ورق اور پختہ جلد سے آراستہ پروفیسر اختر الواسع کی تربیت و تہذیب سے مزین حیرت بن واحد کی یادگار شعری کتاب کا نام ہے جس کی پُرکشش تصویر کتاب کے پہلے صفحے پر جلوہ آرا نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۴ ء میں سوئے ملکِ عدم روانہ ہوجانے والے اِس ہردل عزیز شاعر کو مسلسل اخبار ورسائل کے ذریعہ خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ علی گڑھ کے مقتدر، معتبر اور مشہور ومعروف اس شاعر کا اُن کی زندکی میں شعری مجموعہ شائع نہ ہوسکا۔ شہروکیمپس کے علاوہ اُن کی جلوہ طرازی محض آل انڈیا مشاعروں اور شعری نشستوں تک ہی محدود رہی۔ خوشی کا مقام ہے کہ ۲۰۱۷ء میں پہلی بار ان کا شعری مجموعہ بعنوان ’’جہانِ دیگر‘‘ ان کے لائق بیٹے پروفیسر اختر الواسع کے وسیلے سے شعری ذوق کے حامل قارئین کرام کے ہاتھوں کی زینت بنا ہے۔
یہ شعری مجموعہ جو خاندانی تصاویر سے مزین ہے اور جس میں خالد محمود کے مقدمے اور پروفیسر منظر عباس نقوی کے علاوہ پروفیسر اختر الواسع کے تاثرات کی پیش کش کے ابتدائی اہتمام سے بلا مبالغہ ممتاز وباوقار نظر آتاہے، لیکن اس حقیقت سے انکار کی تو مطلق بھی گنجائش نہیں ہے کہ مجموعے کی قدروقیمت اور اس کی عظمت وفضیلت کا بنیادی سبب بذات خود شاعر حیرت بن واحد کا موقر ومعیاری کلام ہے۔ کلام شاعر چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے کا نام ’’گلہائے عقیدت‘‘ دوسرے کا عنوان ہے ’’جہانِ تغزل‘‘ اور تیسرے کا ہے ’’آئینہ حیرت‘‘ ۔ پہلے حصے کے تحت حمدونعت، سلام ومنقبت وقصائد، دوسرے کے تحت غزلیات، تیسرے عنوان کے تحت مختلف موضوعات پر مبنی پُرشکوہ نظمیں اور چوتھا حصّہ گیتوں اسے آراستہ ہے جن کی بدولت مجموعے کی قدروقیمت اور اس کے اعتبار ووقار میں چار چاند لگائے گئے ہیں۔ مجموعے میں شامل سبھی شعری اصناف بذات خود اس سچائی کی گواہ ہیں کہ شاعر کو ہر صنف سخن پر کما حقہ عبور حاصل ہے اور زبان وبیان پر بھی وہ بہر طور قادر نظر آتے ہیں۔ حمد کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں    ؎
وہ ہو زمیں کہ زماں لاالٰہ الا اللہ
ہر ایک جگہ ہی اذاں لا الٰہ الا اللہ 
حیرت بن واحد نعت شریف میں شافع محشر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تہذیب ان کے اخلاق اور وسعتِ قلب کو بڑے دلنشیں پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں   ؎
اپنوں پہ کرم دشمن کو دعا اے خلق مجسم حسن عطا
کیا آپ کا کہنا اے آقا اے رحمتِ عالم کیا کہیے
اور آپؐ کی افضلیت وانفرادیت کے لحاظ سے بھی نعت کا یہ شعر ملاحظہ ہو    ؎
تخلیق دو عالم میں اول، تکمیل نبوت میں آخر
کہے جو تمہارے بارے میں سرکار دوعالم کیا کہیے
حسین ؓ کی منقبت میں قوافی شعار، قلب زار اور انتظار کے فنکارانہ استعمال کی داد دیجیے   ؎
دعا جفاؤں پہ اللہ اے شعار حسینؓ
بڑے ہی ظرف کا حامل تھا قلب زار حسینؓ
اِدھر تو فکر کہ تکمیل ذوق سجدہ ہو
اُدھر تھا محفلِ جنت میں انتظار حسینؓ
قصیدہ ’’ظہور مہدی مبین‘‘ طویل بحر پر ان کی قدرت وانفرادیت بذاتِ خود ان کے یعنی حیرت کی گُن گان کرتی نظر آتی ہے۔ نظم کے درج ذیل بند میں روانی اور رنگین بیانی بھی اوج کمال پر نظر آتی ہے۔ ذیل کا بند بذاتِ خود میرے اس دعوے کی دلیل ہے    ؎
زمانے میں آئیں گے جائیں گے، ہزار ظلم ڈھائیں گے، ہمیں تو کیا مٹائیں گے،
سزا خود اس کی پائیں گے، یہ دن گزر ہی جائیں گے، کل ان کو ہم بتائیں گے
امام جب بھی آئیں گے، وہ پردہ جب اٹھائیں گے، کرشمے جب دکھائیں گے،
تو ظلم منھ چھپائیں گے، یہ فتنے مٹ ہی جائیں گے، خوشی کے دن جب آئیں گے
میں مطمئن ہوکر یقیں، جب ہی تو مجھ کو غم نہیں، ضرور آئیں گے یہیں
ضرور ہوگا بالقیں، ظہور مہدئ مبیں، تو غم نہ کر دل حزیں
نہیں نہیں ذرا نہیں، ذرا نہیں ذرا نہیں، ذرا نہیں ذرا نہیں
حیرت بن واحد نے اگرچہ متعدد اصناف سخن کو گلے لگا کر اُن میں اپنے خلاقانہ وفنکارانہ جمال وجلال اور کمال کا بھرپور مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو منوایا بھی ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ بنیادی طور پر غزل کی شاعر ہیں اور غزل کو انھوں نے غزل کے بنیادی مزاج اور تغزل کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ روایت انھیں عزیز ہے لیکن زمین وزماں میں آئی بتدریج تبدیلی، تہذیب واخلاق کی شکست وریخت، عصری حسیّت کی جلوہ طرازی جابجا ان کی رومانی شاعری کی پیشانی کا جھومر بنی ہوئی ہے۔ ذیل میں درج اشعار میرے فکر وخیال کی سچائی کے مظہر وشاہد ہیں    ؎
ہم انقلاب وقت کے ماروں سے پوچھیے
وہ کون ہے کہ جس کو ہدفِ انقلاب ہے
پھر بھی دوائے زیست تمنائے زلفِ زیست
حالاںکہ زیست ہے کہ مسلسل عتاب ہے
دیکھے ہیں اتنے خواب کہ اب اپنے روبرو
ان کو بھی دیکھ لوں تو سمجھتا ہوں خواب ہے
سوچا ہے تھا گلشن کی فضائیں ہوںگی نغمہ بار بہت
لیکن جب دیکھا تو چمن میں پھول تھے کم اور خار بہت
ایسے شاعر ایسے رہبر آج زیادہ ہیں جن میں
عزمِ صلیب دار ندارد ذکر صلیب دار بہت
یوں دیکھو تو راہ بروں میں کیسے مخلص ہوتے لوگ
ساتھ چلو تو ثابت ہوں گے مخلص کم عیار بہت
زندگی کے سفر میں راہ چلتے ہوئے طرح طرح کے آلام ومصائب انسان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسافروں کو بڑے جان لیوا اور سنگین مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور یورش مسائل سے کوئی بھی فرد مستثنیٰ نہیں ہے۔ایسے میں عزم اور حوصلہ جو آزماتے ہیں ان کی نیّا کنارے لگ جاتی ہے اور جو بے حوصلہ اور بزدل ہوتے ہیں بگڑے حالت کی سونامی لہریں انہیں اپنے اندر نگل جاتی ہیں۔ اسی رنگ وآہنگ اور مزاج ومنہاج کا یہ قابل تحسین شعر ملاحظہ ہو:
عزم اگر ہو مستحکم تو دشت جبل کچھ چیز نہیں
نہ پختہ ہو عزم وعمل تو ریت کی بھی دیوار بہت
جہاں تک رومانی شاعری کا تعلق ہے اس کے موضوعات عام طو رپر ہوتے ہیں محبوب کا سراپا، اس کی شوخئ گفتار، کیفیت الم ونشاط آس اور یاس وہراس، ہجرووصال کے رنگا رنگ موسم اور اشکوں کی برسات وغیرہ ۔ درج ذیل اشعار کچھ ایسی ہی کیفیت کے غماز ہیں۔ اور چوںکہ رومانی جذبات سے ہر دل آشنا ہوتا ہے اس لیے اس مزاج کے اشعار دل کی دھڑکنوں کے اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
آنے والے آبھی جا یہ شام ہی شامِ زیست نہ ہو
آج صبح سے بدلاہوا ہے رنگ رخ بیمار بہت
لب تک تو نہ آئے گا راز غم دل لیکن
ممکن ہے یہ افسانہ پلکوں پہ مچل جائے
کچھ رنگ تو بھرنے تو تصویر محبت میں
یہ میرا مقدر ہے بگڑے کہ سنبھل جائے
آنسو بھی غنیمت ہے فرقت کے اندھیروں میں
کافی نہ سہی لیکن اک دیپ تو جلتا ہے
کیا صبح سے امیدیں کیا شام سے مایوسی
شب جیسے گزرتی ہے دن بھی یوں ہی ڈھلتا ہے
کل کی ہے بات کہ ایک جان دو قالب تھے ہم
آج بیگانہ سمجھتے ہو تو بیگانہ سہی
دیکھتا ہوں وہ بھلا مجھ سے چھپیں گے کب تک
شوق دید آہ کہہ پھر ایک جرت رندانہ سہی
حوادث وتجربات کی بھٹی میں تب کر انسان کندن بن جاتا ہے۔ منزلیں قریب آکر اس کی قدم چومنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ درج ذیل اشعار حیرت بن واحد کے اسی عقیدے کو آشکار کرتی ہیں   ؎
کانٹوں میں جو کھلتا ہے شعلوں میں جو پلتا ہے
وہ پھول ہی گلشن کی تقدیر بدلتا ہے
افتادۂ منزل کو افتادہ ہی رہنے دو
کچھ ٹھوکریں کھاکر ہی انسان سنبھلتاہے
باب ’’آئینۂ حیرت‘‘ کے تحت جو نظمیں شامل کتاب کی گئی ہیں۔ وہ بقدر معیار ووقار لائق تحسین ہیں۔ خیالات میں تسلسل روانی اور بیان میں رنگینی ورعنائی سے لبریز ان نظموں میں ’’یقین‘‘، ’’لاصدی‘‘ ، ’’خطاب‘‘، ’’میرا دھام‘‘اور ’’باب کا خط بیٹے کے نام‘‘ بڑی گاڑھی ، گہری اور اثر انگیز نظمیں ہیں۔ اور ان میں موضوع کے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا گیا ہے۔ کتاب کا چوتھا اور آخری باب گیتوں پر مشتمل ہے۔ سبھی گیت ہندوستانی فضا میں رچے ہوئے موثر اور رسیلے ہیں، جو گائیکی کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں۔ اُن کے پہلے گیت کے مکھڑے کے انداز تخاطب کو ملاحظہ کیجیے    ؎
کیسے گاؤں گیت سکھی ری کیسے گاؤں گیت
بن ساجن کے کچھ نہ بھائے گیت ہو یا سنگیت
سکھی ری کبھونہ کرتی پریت!
خوش اطوار، خوش اخلاق اور خوش گو شاعر کی شخصیت میں ذہانت وفطانت اور محبت کا بہت اچھا امتزاج ہے جس سے حیرت بن واحد کی شاعری میں بھی نکھار آیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ’جہانِ دیگر‘‘ کی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔