قدیم و جدید ادبیات:ایک مطالعہ

سکینہ اختر
سنگم،جموں و کشمیر
اردو زبان کے بہت سے شاعر اور ادیب ایسے گزرے ہیں جنھوں اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔یہاں تک کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کی آبیاری میں صرف کر دی۔معاصر اردو ادب میں غلام نبی کمار ایک مانوس قلم کار کا نام ہے۔تخلیق،تحقیق اور تنقید کو یکساں طور پرایک معیار کے ساتھ برتنا کوئی آسان کام نہیں۔لیکن غلام نبی کمار ایسا کر گزرتے ہیں۔جس سے ان کی ہمہ جہت شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔غلام نبی کمار گذشتہ چھے سات برس قبل ادبی میدان میں وارد ہوئے۔اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ وہ مسلسل ادب کے ہمہ جہت فروغ اور ترقی و تریج کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ان کے مضامین اور دیگر تحریریں ہندوپاک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی ہیں۔غلام نبی کمار ایک شریف النفس شخصیت کا نام ہے۔وہ ایک کھرے ادیب ،محقق اور نوجوان نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی تحریریں جموں و کشمیر تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان کی ادبی شخصیت کا دائزہ بہت وسیع و متنوع ہے۔’’قدیم و جدید ادبیات ‘‘کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ موصوف نے کتنی تن دہی اور لگن سے اپنے مطالعہ کو وسیع کیا ہے۔کتاب کا مطالعہ کرنے پر کسی قسم کی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔موصوف بہت جامع،مفصل اور مبسوط انداز میں اپنی بات رکھتے ہیں۔ان کے مطالعے کی شدت، عرق ریزی اور باریک بینی کا زیر نظر کتاب سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے۔ 
اگر اس وقت ہندوستان میں اردو زبان و ادب میں تحقیقی و تنقیدی سمت کی پیش رفت کا جائزہ لینا ہو تو اس موضوع سے متعلق گفتگو بلاشبہ طوالت اختیار کر سکتی ہے۔ فی الوقت ہندوستان کی تمام جامعات میں تحقیق و تنقید کی رفتار اطمینان بخش ہے۔ جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی، حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی وغیرہ جیسے متعدد تعلیمی اداروں سے اردو زبان میں ہر سال سینکڑوں طالب علم اور اسکالرس فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں۔ جن میں بعض زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں نمایاں کارکردگی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے اردو میں تحقیق و تنقید کی سمت بہت خوبصورت اور کامیاب شاہراہ پر گامزن ہے۔ ہمیں تقریباً ہر ریاست میں اردو میں تحقیق و تنقید کے خدمت گزار مل ہی جاتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہماری ریاست میں بھی کئی نوجوان تحقیق و تنقید کی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ سرزمین جموں و کشمیر اردو زبان کا ایک خاص مرکز رہا ہے اور جگن ناتھ آزاد،اکبر حیدری، حامدی کاشمیری، ظہور الدین، مجید مضمر، فرید پربتی ،حکیم منظور،وغیرہ جیسے نابغہ روزگار محققین و ناقدین شخصیات اپنی خدمات سے یہاں کی تابناکی کے ضامن بن چکے ہیں۔
یہ فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن فہرست گنانا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت بھی صورت حال سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت کشمیر میں جو نسل متحرک ہے اس میں ڈاکٹر مشتاق گنائی،ڈاکٹرمحی الدین زور کشمیری، مشتاق حیدر، الطاف انجم، شاہ فیصل کے نام نامی اہم ہیں ۔اس کے علاوہ نئی پیڑھی میںغلام نبی کمار بھی اپنی طرف سے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں جن کی ابھی تک دو تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ جس میں ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘2018 اور ’’ قدیم و جدید ادبیات ‘‘ 2019 قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف روزنامہ لازوال، جموں اور روزنامہ نیا نظریہ اجین کے ذریعے نئی نسل کے محققین اور ناقدین کی تحریریں چھاپ پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ غلام نبی کمار سہ ماہی ’’پنج آب‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی و تنقیدی مجلہ بھی شائع کرتے ہیں۔
 زیر تبصرہ کتاب’’قدیم و جدید ادبیات ‘‘ میں اکیس مضامین شامل ہیں۔ جن میں مختلف اصناف اور شخصیات کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان مضامین کو زمانی اعتبار سے اور تقدیم و تاخیر کا خیال رکھتے ہوئے تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب میں شامل اول الذکر مضمون اردو، ہندی اور فارسی کے مشہور و معروف شاعر امیر خسرو پر تحریر کیا گیا ہے۔ جس میں امیر خسرو کی غزلیہ شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امیر خسرو کی شاعری ہمارے سامنے فارسی کی شکل میں موجود ہے بعد میں ان کی تفسیریںاور ان پر تحقیقی و تنقیدیں کتابیں بھی تحریر کی گئیں جن سے امیر خسرو کی شخصیت اور ادبی خدمات بہ خوبی روشن ہوتی ہے۔ غلام نبی کمار نے اس مضمون میں امیر کے غزلیہ کلام کو نہ صرف سمجھا بلکہ انھوں نے ان کے فارسی اشعار کی تشریح بھی بہت خوبصورت انداز میں کی ہے۔ مختلف کتابوں اور محققین کی آرا کو سامنے رکھتے ہوئے امیر خسرو کی شخصیت اور غزلیہ شاعری کے مختلف گوشے وا کیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں فارسی اشعار کے ساتھ ساتھ اردو میں تشریح بھی کی گئی ہے اور پھر ان اشعار کے تقابل کی بحث بھی ملتی ہے۔ یہ ایک عمدہ مضمون ہے جو ہر اہم قاری کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے بعد کتاب میں مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری پر ایک مضمون ہے۔مولانا مملوک العلی ایک بڑے عالم و فاضل ،ادیب اور مدرس تھے۔ان کی مکتوب بھی اردو مکتوب نگاری کی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔غلام نبی کمار نے ان کی مکتوب نگاری پر ایک بھرپور مضمون تحریر کیا ہے۔اس کتاب میں ’’اردو میں مومن شناسی کی روایت‘‘،’’سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت‘‘،’’داغ کی مثنوی نگاری: فریادِ داغ کی روشنی میں‘‘،’’رباعیاتِ حالی میں قومی اصلاح‘‘،’’وغیرہ مضامین کلاسیکی ادب کے ادبا و شعرا کی اہمیت کو بیان کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس نوعیت کے مضامین ادب میں ایک اضافہ ہی کہے جا سکتے ہیں۔دوسری طرف ’’قدیم وجدید ادبیات ‘‘ میں بیسویں صدی کے چند نامور ادبا و شعراو افسانہ نگاروں پر مضامین ملتے ہیں۔جس میں’’افسانوی ادب کا ایک گمشدہ فنکار:بلونت سنگھ‘‘،’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: حیات و خدمات‘‘،’’مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ ،’’شوکت پردیسی:شخصیت اور شاعری‘‘ ، ’’زبیر ضوی کی ادبی خدمات‘‘،’’نور شاہ۔فکر اور فکشن :ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ وغیرہ مضامین شامل ہیں جو بیسویں صدی کے فراموش کیے گئے معروف ادیبوں اور افسانہ نگاروں کی روداد بیان کرتے ہیں۔یہ مضامین ایسے قلمکاروں کی کارگزاریوں کو اجاگر کرتے ہیں جنھوں نے اپنی پوری عمرِ عزیز ادب کی خدمت میں صرف کر دی۔اسی طرح’’1960 کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب‘‘،’’دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعرا‘‘،’’جموں و کشمیرکی معاصر اردو شاعری‘‘،’’بچوں کے چند نمائندہ غزل گو شعرا‘‘،’’مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظرنامہ‘‘،’’اردو زبان میں سائنسی صحافت‘‘،’’کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے‘‘،’’ذہن جدید اور زبیر رضوی‘‘ اور ’’خواتین کی خودنوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ‘‘ مختلف النوع اصناف میں شاعروں اور ادیبوں کی مجموعی ادبی خدمات کو بڑی خوبی کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں۔’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ کے تناظرمیں غلام نبی کمار کی تنقیدی خدمات قابل ستائش ہے۔ان مضامین سے ان کی تنقیدی صلاحیت کا بدرجۂ اتم احساس ہوتا ہے۔