کتاب کا نام:قدیم وجدید ادبیات (تحقیقی و تنقیدی مضامین)

مصنف:  غلام نبی کمار
اشاعت:   2019  
صفحات: 384
 قیمت: 222 
ناشر:    ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی
مبصر: خان محمد رضوان
پتہ:     اسکالر شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی ،دہلی 
علم انسان کو شرف انسانیت عطاکرتی ہے اور علم ہی انسان کی ایسی آنکھ ہے جواسے ماضی،حال اور مستقبل کی تصویر دکھاتی ہے کہ علم وہ نور ہے جس سے وجود انسانی منور ہوتاہے اور علم ہی وہ شئے ہے جس کی روشنی میں انسان زندگی کی رہنمائی حاصل کرتاہے۔جہاں تک قدیم اور جدید علم کا تعلق ہے تو جدید علم قدیم علم کا لاحقہ بھی ہے اور عکس بھی۔ بغیر قدیم علم کے جدید کاتصور ممکن نہیں-اسے ہم ایک مثال سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شجر میں تخم کی جتنی اہمیت ہوتی ہے،اتنی ہی شاخوں اور پتوں کی بھی ہوتی ہے۔تخم کے بغیر پیڑ اور اس کی شاخوں کا تصور ممکن نہیں اسی طرح پیڑ اور شاخوں کے بغیر پتوں کا تصور ممکن بھی نہیں مگر مکمل پیڑ میں بنیاد کی حیثیت بیج کو ہی حاصل ہے جس سے مکمل درخت  وجود میں آتاہے-اس پر مجھے بیرلڈ پنٹر کی وہ بات صادق نظر آتی ہے ۔وہ اپنے نوبل خطبہ’’فن، صداقت اورسیاست‘‘ میں اپنی ہی ایک کوٹیشن سے آغاز کرتے ہیں: 
"147 There are no hard distinctions between what is real and what is unreal, nor between what is true annd what is false. A thing is not necessarily either true or false, it can be both true and false.148"
’’حقیقت اور مجاز میں کوئی بہت بڑا امتیاز نہیں اور نہ ہی سچ اور جھوٹ میں کوئی خاص فرق ہے۔ کوئی چیز لازمی نہیں خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ، سچ اور جھوٹ دونوں ممکن ہیں۔‘‘ٹھیک اسی طرح علم کا ادب سے اور قدیم کا جدید سے رشتہ ہے-
کتاب’’قدیم وجدیدادبیات‘‘(تحقیقی وتنقیدی مضامین) جواں سال اسکالر غلام نبی کمار کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا خوبصورت گلدستہ اور اردو ادب کے قارئین کے لیے گراں قدر اور بیش بہا تحفہ ہے- اس میں کل بائیس مضامین شامل ہیں۔اس مجموعہ میں شامل مضامین کو موضوعات اور مواد کے اعتبار سے تین گوشوںمیں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ پہلا گوشہ کلاسیکی ادب سے متعلق ہے جس میں’’امیر خسرو کی غزلیہ شاعری‘‘،’’مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری‘‘،’’اردو میں مومن شناسی کی روایت‘‘،’’ سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت‘‘،’’داغ کی مثنوی نگاری:فریادِداغ کی روشنی میں‘‘ اور ’’رباعیات حالی میں قومی اصلاح‘‘۔
اسی طرح دوسراگوشہ جدید ادب پر ہے اس میں’’افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فن کار:بلونت سنگھ‘‘،’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی:حیات وخدمات‘‘،’’مقالاتِ  پروفیسر محمد ابراہیم ڈار:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘،’’شوکت پردیسی:شخصیت اور شاعری‘‘،’’زبیر رضوی کی ادبی خدمات‘‘اور’’نورشاہ-فکراورفکشن:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘۔اس کے بعد تیسرے گوشے میں نو وہ مضامین ہیں جن کا تعلق اصناف اور دبستانوں کے شعرا سے ہے جیسے ’’1960کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب‘‘، ’’دبستانِ دہلی کے چند اہم غزل گو شعرا‘‘،’’جموں وکشمیر کی معاصراردو شاعری‘‘،’’بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعرا‘‘،’’مشرقی پنجاب میں اردو نظم کاحالیہ منظرنامہ‘‘،’’اردو زبان میں سائنسی صحافت‘‘،’’کتاب نمااور بعض اہم خصوصی شمارے‘‘،’’ذہن جدید اور زبیر رضوی ‘‘ اور’’خواتین کی خودنوشتوںکے تجزیوں کاتجزیہ‘‘قابل ذکر مضامین ہیں۔
’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں شامل تمام مضامین ایسے ہیں جن کو کوپڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کم عمری میں اتنے جامع اور معیاری مضامین لکھنایقینا مضمون نگار کی فکر کی پختگی اور ان کے عمیق مطالعے کی داد دینی ہوگی کہ اس طرح کے مضامین لکھنے کے لیے نہ جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ درکار ہوتاہے اور پھر انسان پڑھ بھی لے تو قلم اٹھا نا اس کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس طرح کے مضامین تحریر کرنے کے لیے سوچنا ہی محال ہے کیوں کہ ہم عصر ادب پر تو انسان لکھ اور پڑھ سکتا ہے وہ اس وجہ سے کہ وہ اپنے زمانے کے ادیب کو دیکھتا اور ان کی ادبی سرگرمیوں سے بھی واقف ہوتا ہے ساتھ ہی ان کی تحریروں کے حوالے سے ایک نگار خانہ قاری کے پاس مجتمع ہوجاتاہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسے عصری آگاہی حاصل ہوتی ہے ،اس اعتبار سے اس کی عصری ضرورت واہمیت واقف کار ہونے کے ساتھ ہی وہ اس کو بہ آسانی برت بھی سکتا ہے ۔اس لیے ہم عصر ادب اور ادبی منظر نامے پر لکھنا کسی قدر ممکن ہوتا ہے۔ مگر قدیم ادب یا ادیب پر لکھنا ویسے ہی ہے جیسے خود اپنا خوشہ چیں بننا مشکل کام ہے چونکہ یہ فطری بات ہے کہ ساری دنیا پر انسان کی نظر جاتی ہے مگر وہ اپنی کائنات سے ناواقف ہوتا ہے اور سارے لوگوں کی اچھائیوں اور برائیوں پر اس کی نظر جاتی مگرخود اس کی نظر اپنی ذات کی کمیوں اور خامیوں پر نہیں جاتی اس لیے اپنے آپ پرلکھنا بھی اسی طور مشکل ہے۔ جس طرح گزرے ہوے لوگوں کے ادب یا گزرے ہوئے زمانے کے ادبی منظرنامے پر لکھنا ہے.مگر غلام نبی کمار نے اپنی ذہانت وفطانت سے یہ کام کردکھایاہے اور یہ ثابت کردیاہے کہ ان کی نظر نہ صرف ہم عصرادبی منظرنامے پر ہے بلکہ ان کی نگاہ کلاسیکی ادب اور ادیب پر بھی گہری ہے اس طور پر وہ مبارک باد کے نہ صرف مستحق ہیں بلکہ وہ قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے بے حد مشقت اور انتھک کوششوں سے اتنے گراں قدر مضامین تحریر کیے ہیں۔
ویسے اس کتاب میں شامل سبھی مضامین لائق اعتنا ہونے کے ساتھ ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ انہیں ماضی،حال اور مستقبل کے آئینے میں دیکھا۔اس کتاب کے سبھی مضامین پرتو لکھنامشکل ہے۔ کیوں کہ دو چند کے علاوہ جن سے سرسری گزرا جاسکے تقریبا مضامین عمدہ اور عرق ریزی سے لکھے گئے ہیں اور تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ایک مضمون’’امیر خسروکی غزلیہ شاعری‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس مضمون کے متعلق خود مضمون نگار کابھی دعویٰ ہے جس کا اظہار انہوں نے مقدمہ میں کیا بھی ہے کہ یہ مضمون بہت جستجو کے بعد لکھا گیا ہے ۔اس س میں مصنف نے امیر خسرو کے گھریلو حالات،خاندانی وجاہت اوران کا شعری پس منظر بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ امیر خسرو اپنے ہندی کلام کو کبھی بے وقعت تصور نہیں کرتے تھے۔بعد ازاں ان کے اشعار کے حوالے سے شعری قدر وقیمت کو بھی بے حدخوبصورتی سے بیان کیاہے اور یہ باور کرایاہے کہ امیر خسرو ہماری تہذیب کی علامت ہیں اور ’’ہندومسلم ثقافت‘‘کے زندہ مثال بھی۔اس طور پر یہ مضمون اپنی اہمیت کے اعتبار سے بے حداہم ہے۔
اسی طرح ایک اورعمدہ اور جامع مضمون’’مولانامملوک العلی کی مکتوب نگاری‘‘پرہے ۔جس کی ابتدامیں دلی کالج اور اس کے طلبہ واساتذہ کے متعلق بنیادی باتوں کے علاوہ مملوک العلی کی تبحرعلمی اور ان کی کتابوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔چونکہ مولانا دلی کالج میں مشرقی تعلیم کے شعبہ میں صدر مدرس تھے اور آپ عربی کے ممتاز استاذتھے۔اردو میں مکتوب نگاری کے تعلق سے غالب، آزاد،اقبال اور سرسید کے نام سرفہرست ہیں ان سبھوں کے خطوط کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سلیس،عام فہم اور بے تکلف انداز میں لکھے گئے ہیں۔مملوک العلی جن کے خطوط کو دریافت ہوئے بہت دن نہیں ہوئے ہیں ان میں بھی یہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔مضنف نے ان باتوں کو مفصل صراحت کے ساتھ تحریر کیاہے اور یہ بھی بتایاہے کہ مولانا نے کن کن اہم شخصیات کوخطوط لکھے اور ان خطوط کی خاص بات کیاہے؟ پھر اس بات کی جانب بھی توجہ مبذول کی ہے کہ مولانا اپنے خط کن القاب وآداب سے شروع کرتے تھے اور اختتام کس طرح کرتے تھے۔مملوک العلی کی مکتوب نگاری کے تعلق یہ مضمون لائق مطالعہ ہے اور معلوماتی بھی-
اس کتاب میں افسانہ نگار ی کے حوالے سے ایک عمدہ اور وقیع مضمون’’افسانوی ادب کاایک گم شدہ فن کار:بلونت سنگھ‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس عنوان کو پڑھتے ہی مجھے کچھ عجیب سا لگا کہ فکشن کی دنیا کا چمکتا دمکتا ستارہ بلونت سنگھ گم شدہ کب سے ہوگئے اور کیوں کر ہوگئے جب کہ بلونت سنگھ قرۃ العین حیدر،خواجہ احمد عباس،مہندر ناتھ،ممتاز مفتی اور خدیجہ مستور کے ہم عصر تھے جنہوں نے افسانہ، ناول، ناولٹ، ڈرامے اور مزاحیہ مضامین لکھے خاص بات یہ ہے کہ کم ہی لوگ ہیں جن کی تخلیق ہندی میں بھی شائع ہوئی ہے ان کے دس افسانوی مجموعے اور چوبیس ناول ہندی میں شائع ہوئے یہ اور بات ہے کہ ان کے سارے افسانوی مجموعے پاکستان سے شائع ہوئے۔اس کتاب میں جہاں بلونت سنگھ کی تخلیقات پر گفتگوکی گئی ہے وہیں ''جگا''جوکہ خوبصورت رومانی افسانہ ہے اس پر بھی عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔اسی طرح ان کاافسانہ’’ہندوستان ہمارا‘‘ پر بھی اچھی گفتگو کی گئی ہے اور ان کی دیگر کہانیوں کو بھی متعارف کرایاگیا ہے۔لہٰذا بلونت سنگھ پر نہ صرف یہ مفصل بلکہ جامع اور گراں قدر مضمون ہے۔
ایک مضمون’’نورشاہ: فکر اور فکشن:
 ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘کے عنوان سے ہے۔ نور شاہ کا تعلق جموں وکشمیر سے آپ کا شمار کشمیر کے بزرگوں میں ہوتاہے ۔آپ نے اردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔دراصل نورشاہ فکر اور فکشن محمد اقبال لون کی مرتب کردہ کتاب ہے جس کامصنف نے تجزیاتی مطالعہ پیش کیاہے۔نور شاہ پر یہ تحقیقی کتاب طلبہ اور تحقیق کرنے والوں کے لیے منارہ نور ہے۔اس مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے اس میں نہ صرف اقبال لون کی کتاب کا بہ اعتبار مضمون تجزیہ پیش کردیاہے بلکہ ان کے علاوہ بھی اپنی علمی وساطت سے نور شاہ کی علمی لیاقت کی تعیین قدر منصفانہ طور پر کرنے کے علمی کاوش کی ہے جوکہ لائق تعرہف اورقابل تحسین ہے۔
میری دل چسپی کا ایک مضمون’’ جموں وکشمیرکی معاصراردوشاعری اور چند اہم غزل گو شعرا‘‘کے عنوان سے ہے۔یہ وقیع مضمون ہے ،اس میں مصنف نے تینوں خطے جموں،کشمیر اور لداخ کے شعراکاعصری محاکمہ کیاہے اور بیسویں صدی کے ریاست کے اہم شعرا کے نام فردافردا گنایے بھی، تاکہ ایک عمدہ فہرست بھی تیار ہوجائے۔اس میں مصنف نے شعرا کے لہجے,زبان وبیان اور الفاظ کے برتاؤکا بھی اظہار کیاہے اور شکایت بھی کی ہے دنیائے ادب میں جموں و کشمیر کے معاصرشعرا کو نظر انداز کیا گیاہے۔ انھوںنے اس بات کا برملا اظہار بھی کیا  ہے کہ جموں وکشمیر کی اردو شاعری کا اعتراف ریاستی سطح پر بھی کم ہوا ہے۔اسی طرح درجنوں شعرا کے اشعار کے حوالے سے بھی اچھی گفتگو کی گئی ہے اور درجنوں شعراایسے ہیں جن کا صرف نام ہی گنا نے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ویسے جموں وکشمیر کا شمار ہندوستان کے زرخیز علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کی اپنی تہذیب وثقات کے ساتھ اپنی تہذیبی بقا کی ضامن بھی ہے۔اس طور پر دیکھا جائے تو یہ مضمون وادی کے حوالے سے بہت معلوماتی  ہے۔ بالخصوص وہ اسکالرس جو جموںوکشمیر کے شعری یا عصری منظر نامے پرتحقیق کررہے ہیں ان کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ناگزیر ہے۔