مختصر افسانچے۔۔۔۔۔

افسانہ نگار:فلک ریاض
حسینی کالونی، چھتر گام کشمیر
فون۔6005513109
 فکر
اس کی بیوی کو اچانک بخار ہوا تو وہ بہت گھبرا گیا۔رات بھر بار بار اٹھ کے اس کی طبیعت پوچھی۔دوائی پلاتا رہا۔۔۔اور دعائوں کا وِرد کرتا رہا۔۔۔صبح ہوئی تو بخار نہیں تھا۔ بیوی ٹھیک ٹھاک تھی۔اور خوش و ہشاش بشاش۔۔اس نے خاوند کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا اور چوم لیا ۔۔” آپ کو میری کتنی فکر ہے ۔۔۔آج مجھے پتہ چلا۔۔۔رات بھر آپ میرے ساتھ جاگتے رہے، اور میری دیکھ بال کی۔۔۔۔آپ کے لیے میرا پیار آج دوگنا ہوا ہے۔۔“ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسوں چھلکنے لگے۔۔۔تو خاوند نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔اور مسکرا کر گویا ہوا۔۔۔” ارے میرا فرض ہے۔۔میں فکر نہیں کرتا اور کون کرتا۔۔۔“اور دل ہی دل میں بولنے لگا۔۔۔۔” ارے پردیس سے میں آیا تھا، تم نہیں۔۔۔تمہارے بخار نے مجھے پریشان کیا تھا کہ کہی مجھے ”کرونا“ تو نہیں ہوا ہے۔
  دیکھا دیکھی
وہ بار بار اپنی پانچ برس کی بچی کو تھپڑ مار رہی تھی۔۔اور ڈپٹ کے بول رہی تھی” تم اپنی چچیری بہن کے سامنے کچھ بھی نہیں ہو ۔۔وہ صرف چار سال کی ہے، اور کل میں ان کے وہاں گئی تو اس کی ماں اس سے پوچھ رہی تھی ہیپو پوٹومسHepopotomas کی سپیلنگ کیا ہے۔۔ایک سیکینڈ میں جواب بولی۔۔۔اور تم ہو کہ آدھا گنٹہ سے میں سکھا رہی ہو ۔۔نہیں یاد رہتی ہے سپیلنگ تم کو۔۔۔“ بچی مسلسل رو رہی تھی۔۔۔میں نے قریب جاگر دیکھا تو میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔وہ بچی سے ملکِ ”بوسنیا ہرزی گووینا“Bosniya Harzigovena کی سپیلنگ پوچھ رہی تھی۔
  زندگی ایسی بھی
امجد کے بھائی نے واٹس اپَ پہ گروپ کھولا تھا۔۔جس میں سبھی رشتہ داروں کو ایڈ کیا تھا۔اس کو بھی کیا تھا۔اس کے کچھ رشتہ دار سرکاری مازم تھے اور کچھ اچھے تاجر۔لاک ڈائون میں سبھی رشتہ داروں کے بچے شام کے وقت کبھی دن میں بھی اپنے اپنے گھروں میں تیار کیے گئے ڈشِز کی تصاویر گروپ میں ڈالتے تھے ۔۔کبھی سموسے۔۔کبھی پھل۔۔کبھی مٹھائیاں ۔۔کبھی مصالہ مرغ۔۔۔وغیرہ۔۔۔۔امجد کے دونوں بچے دس سال کی کوثر اور آٹھ برس کا ندیم۔۔انُ سبھی نعمتوں کو دیر تک تکتے رہتے تھے۔۔کیونکہ ان کے گھر میں صرف چاول دال پکتا تھا اور کچھ نہیں۔۔باپ ان کا مزدور تھا۔دن کو کماتا تھا اور رات کو بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا تھا۔اس نے ایک بار دونوں بچوں کو دیکھا جو للچائی نظروں سے مختلف قسم کی نعمتوں کو تکے جارہے تھے۔۔آنکھوں میں سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔۔جی میں آیا کہ دونوں بچوں کو گلے سے لگا کر خوب رولیں ۔۔مگر جذبات پہ قابوں پاکر سوگیا۔۔۔اور رات بھر کروٹیں بدلنے لگا۔۔اور پھر بستر سے نکل کر اپنا فون اٹھایا ۔جس پہ کبھی کبھی بچے واٹس اپَ چلاتے تھے۔۔۔ملازم بھائی کی طرف سے بنائے گئےگروپ میں گیا۔۔۔ گروپ کا نام رکھا گیا تھا” ہم سب ایک ہیں “ اسے یہ نام مزاق سا نظر آیا۔اور” لیوں“ Leave آپشن میں جاکر ۔۔۔۔گروپ سے نکل گیا۔۔۔اور پھر دونوں بچوں کے پاس آکر ان کے ساتھ لپٹ کر سوگیا۔
 سکون
اس کے پاس پیسہ تو بہت تھا۔مگر صحت اچھی نہیں رہتی تھی۔۔اور سب سے بڑا مسلہ جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا وہ تھا کئی کئی مہینوں سے نیند کا نہ آنا۔لیکن دس پندرہ دنوں سے اس نے محسوس کیا کہ اسے نیند بھی اچھی آرہی ہے اور صحت بھی اچھی ہے۔۔وہ آجکل خوش تھا۔۔۔۔رات وہ سویا تو صبح مست نیند سے جاگ کر۔۔۔بیوی سے بولنے لگا۔۔۔۔” راجوں کی ماں ۔۔وائرس کے خوف سے مزدور اپنی اپنی ریاستوں کی طرف لوٹ کر کیا گئے کہ خود کھیت میں جانا پڑا۔۔۔پندرہ برس بعد میں نے پھر سے زمین میں محنت کی۔۔۔محسوس کر رہا ہوں کہ صحت بھی اچھی ہے اور نیند بھی خوب آتی ہے۔۔۔۔“
بیوی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”وہ دیکھتا ہے“
احمد روز اپنے باغیچے میں چڑیوں کے لیے ایک برتن میں پانی رکھ آتا تھا۔۔۔ایک روز وہ پانی بدلنے گیا تو دیکھتا ہے کہ ایک چیونٹی پانی میں گر گئی ہے ابھی زندہ ہے اور پانی میں اپنے پیر مار رہی ہے۔۔اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا لیا اور چیونٹی کو باہر نکال کر بچا لیا۔۔۔۔اور گھر کے اندر آیا۔۔۔۔ایک دو گھنٹہ بعد اس کا بیٹا گھر آیا اس کے ہاتھ پہ چوٹ تھی ۔۔سب گھر والوں نے گھبرا کر وجہ پوچھی تو وہ بولا۔۔۔” بائک چلاتے چلاتے ایک کار کے ساتھ میں خطرناک طریقہ سے ٹکرإ۔۔۔لیکن معمولی چوٹ آئی ۔۔وہاں موجود سبھی لوگوں کو  حیرت ہے کہ میں بچا کیسے۔۔۔وہا موجود ایک بزرگ مجھ سے بولا” گھروالوں کا یا تمہارا کوئی نیک کام ہے جو جان کا صدقہ بن کے کام آیا ہے۔۔۔۔۔۔“ وہ بولے جا رہا تھا اور احمد کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔اسے یاد آرہا تھا ۔۔۔۔۔کہی چیونٹی کا بچانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“