
از: فہیم ادیب فاروقی
اجنتا، اورنگ آباد
(9960788301)
بڑے شہر کے چھوٹے سے گاؤں کے پرسکون محلے میں چند عالیشان عمارتوں کے سائے میں مٹی کے مکانات اور کئیں جھونپڑیاں بھی تھیں ـ اسی محلے میں مٹی کے مکان میں رہنے والے میاں سلیم کی دس سالہ سمجھدار بیٹی تھی جس کا نام صفورہ تھا ـ لیکن تمام محلے والوں کی لاڈلی ہونے کی وجہ سے سب اسے گڑیا کے نام سے پکارا کرتے تھے ــ وہ روزانہ اسکول وقت پر جایا کرتی تھی ــ اس کی عادت اور خواہش ہوا کرتی تھی کہ وہ ہر کام وقت پر کرے ــ یہی وجہ تھی کہ وہ عصری اور دینی تعلیم کے علاوہ ہر کام کو اس کے وقت پر ہی انجام دیا کرتی تھی ــ ذہانت اور یادداشت کی پکی صفورہ جب کبھی کوئی بات سن لیتی تو اسے فوراً اپنے دماغ میں محفوظ کرلیتی ـ اور وقت آنے پر اسے دوہرا بھی دیتی ـ۔
ایک دن اچانک پڑوسی خاتون کریمہ آپا نے اس سے پوچھا ۔
"بیٹا..... آپ ہر کام کرنے میں بہت جلد بازی کرتے ہو... ایسا کیوں؟ "
وہ بے ساختہ بول پڑی .......
" آنٹی ہمارے استاد کہتے ہیں کہ وہ لوگ وقت کے پابند نہیں ہوتے جو وقت پر کام کرتے ہیں، بلکہ وقت کے پابند تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے کام کو مکمل کرلیتے ہیں ــ "۔
سب کے سب اس کے معصوم اور منفرد جواب پر حیرت زدہ ہو کر خوش ہوئیں ۔
صفورہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ محلے میں سب کی چہیتی اور لاڈلی تھی ـ سانولا رنگ، چھوٹے چھوٹےنازک ہاتھ، غریب گھر کی دلچسپ باتیں اور سچ بولنے والی صفورہ کو خواتین کبھی کبھی تو اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار کرتیں تھیں ـ وہ مستحق بھی تھی، کیونکہ ایک شریف، نرم اور میٹھی آواز اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کی معصوم مالک صفورہ ہر وقت خوشی اختیار کیے ہوئے رہتی تھی ــ محلے کی خواتین کبھی کبھار کام کے لیے صفورہ کو آواز دیتے تو اس آواز کے جواب میں وہ فورا ہاں کہہ کر کام احتیاط سے جلدمکمل کرتی۔
ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی صفورہ کے گھر کے بازو اس کی سہیلی شفا رہا کرتی تھی ــ شفا کے والد روزگار کی وجہ سے دبئی میں رہتے تھے ــ لیکن وہ جب بھی گھر آتے تو بادام کی ٹوفیاں لایا کرتے تھے جسے شفا کے ساتھ صفورہ بڑے شوق سے کھایا کرتی تھی ــ ٹوفی بے حد پسند ہونے کی وجہ سے شفا کے والد صفورہ کے لیے اضافی ٹافیاں بھی لایا کرتے تھے ــصفورہ ان اضافی ٹافیوں کو گھر لاکر ایمانداری سے اپنے چھوٹے بڑے بہن بھائیوں میں تقسیم کرتی اور خوش ہوجاتی ۔ـ
ایک دن اچانک گرمیوں کے ایام میں شدید گرمی اور دھوپ کی وجہ سے صفورہ بیمار ہوگئی ــ غریب ماں باپ نے اسے جیسے تیسے دواخانے میں منتقل کیے ـ ڈاکٹر نے جانچ کے بعد سلائن لگائی ــ کئی دنوں سے محلے میں صفورہ نظر نہ آنے کی وجہ سے محلے والے پریشان ہورہے تھے ـ ماں باپ بھائی بہن سب صحت یابی کے لیے دعا کررہے تھے ـآس پاس کے سبھی خواتین اور جان پہچان والے ، پتہ چلتے ہی معصوم لاڈلی صفورہ کو دیکھنے دواخانہ آرہیں تھیں ــ عیادت کے لیے آئے سبھی نے اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ لایا بخار تیز ہونے کی وجہ سے صفورہ بہت کمزور ہوگئی تھی ـ آنکھیں بند کرکے بیڈ پر نڈھال پڑے رہنے کے باوجود وہ ہمت سے دوائیاں کھاتی ــ اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی اور دعائیں مانگتی اس کی معصوم سہلیاں بھی اس کی صحت کے لیے دعا کررہے تھے۔ اسی اثنا میں سیڑھیوں پر جوتے کی آواز کے بعد دروزے پر دستک سنائی دی۔ ـ
شفا اپنے والد کے ساتھ سہیلی صفورہ کودیکھنے آئی ــ شفا کے والد نے زور کی آواز دی ۔
"ارے بیٹا صفورہ کیا ہوا .....؟
کیا ہوا میری پیاری گڑیا کو؟
دیکھو گڑیا ! ہم نے آپ کے لیے بادام کی ٹافیاں لائےـ "۔
یہ سننا تھا کہ صفورہ نے آنکھیں کھولی .....اور دیکھا سامنے ایک مسکراتا ہوا شفا کے والد کا چہرہ اور ہاتھ میں چند ٹافیاں .........پھر کیا تھا صفورہ کے چہرے پر مسکراہٹ جھلک پڑی.....پسندیدہ ٹافی کھاتے کھاتے صفورہ نے شفا کے والد سے سوال پوچھا ....
انکل میں کب اچھی ہونگی.....؟
شفا کے والد نے مسکرا تے ہوئے کہا...
"بیٹا آپ اتنی پیاری لاڈلی معصوم بٹیا اور ہماری پیاری گڑیا ہے ــ ہم سب مل کر آپ کے لیے دعا کریںگے آپ یہ ٹافی کھاؤ اور آرام کرو....
دھیرے دھیرے صفورہ کی طبعیت میں سدھار ہوا....ایک وقفے کے بعد دواخانے سے چھٹی ہوئی ــ صفورہ نے گھر آنے کے بعد ماں کے کہنے پر سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکریہ ادا کیا ــ امی نے خوش ہو کر کہا..
" بیٹا دیکھا آپ نے .....تمام محلے والوں سے اچھے رہنے کے صلے میں تمام نے آپ کے لیے دعا کیا ، پھل، کیک، ٹافیاں لائیں ......اسی لے بڑے بزرگ صحیح کہتے ہیں کہ " ہم اچھے تو سب اچھےـ "۔
چلوجاؤ بیٹا....محلے میں جا کر سب کا شکریہ ادا کرو.....
پھر کیا تھا، صفورہ نے فورا ماں کی بات سنی اور دروازہ کھول کرمحلے والوں سے شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک جوش و خروش سے نکلی اور پورےمحلے میں دیر تلک گھومتی رہی جبکہ سب کے سب محلے والے اس کو صحت مند دیکھ کر خوش ہوگئے .