عشرت گیاوی: حیات و شاعری

تبصرہ 
تبصرہ نگار  :  ڈاکٹر داؤد احمد،
 فلیٹ نمبر A-1/22  سلبھ آواس،
کرسی روڈ، جانکی پورم،لکھنؤ۔226026
نام کتاب : عشرت گیاوی: حیات و شاعری
مصنف     :  ڈاکٹر سید شاہد اقبال
ضخامت    :  336  صفحات
قیمت      :  350  روپے
ناشر     :  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،
نئی دہلی۔110002
بہار میں تاریخی اعتبار سے ’گیا‘  شعر و ادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عظیم آباد(پٹنہ ) کے بعد ریاست بہار میں علم و ادب اور شاعری کا سب سے بڑا گہوارہ شہر ’گیا‘ ہے۔ اردو زبان میں شہر گیا سے ایسے ایسے گوہر آبدار نمودار ہوئے جن کی علمی و ادبی خدمات کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔صوبۂ بہار بالخصوص ـ’گیا‘ کی زرخیز مٹی نے علم وادب کی جن سربرآوردہ شخصیتوں کو جنم دیا ان میں عشرت گیاوی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔یوں تو عشرت گیاوی نے شاعری کے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل گوئی کے حوالے سے ان کی شناخت زیادہ مستحکم ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ عشرت گیاوی: حیات و شاعری‘‘  گیا  کے معروف محقق و ناقد ڈاکٹر سید شاہد اقبال کی چھٹی تصنیف ہے۔اس میں انھوں نے عشرت گیاوی کی شخصیت ،تعلیم و تربیت ،شعری اصناف کے جملہ پہلوؤں کا  عرق ریزی سے تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ اس سے قبل موصوف کی ’’ وفیات مشاہیر بہار‘‘ ’’تذکرہ مہدانواں‘‘ ’’رموز تحقیق‘‘ ’’نشتر تحقیق‘‘  اور ’’انوار تحقیق‘‘  منظرعام پرآکر قارئین اور ناقدین سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔موصوف کی ساتویں تصنیف’’وفیات ناموران بہار‘‘ جو ابھی زیر تکمیل و اشاعت ہے جس میں ۱۹۰۱ سے ۲۰۲۰ تک وفات یافتگان بہار کے اہل فن اور قلم کار کا اشاریہ پیش کیا گیا ہے۔انقریب میں قارئین و ناقدین کے زیر مطالعہ ہوگا۔
   ریٹائرڈ آئی۔ پی۔ ایس (I.P.S) جناب معصوم عزیز کاظمی نے کتاب پر ۸۳ صفحات پر مشتمل مفصل،مدلل مربوط اور مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے۔معصوم عزیز کاظمی نے اپنے مقدمے میں گیا ضلع کی وجہ تسمیہ،گیا کی معاشرتی ،تہذیبی،مذہبی ،علمی اور ثقافتی حالات،ادبی و مذہبی رسائل کی اشاعت، ادبی شخصیات،ادبی انجمنوں اور ادب نواز حضرات کی ادبی کاوشوں کو منظر عام پر لانے کی مقدور بھر سعی کی ہے اور گرانقدر مقدمہ تحریر کیا ہے۔اپنے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں’ادب اپنے عہد کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہر شاعر و ادیب ان کیفیتوں کا اظہار اپنی تخلیقات میں کرتا ہے جن سے وہ آشنا و دوچار ہوتا ہے‘۔ بقول ٹی۔ ایس۔ایلیٹ ’’ ایک عظیم شاعر اپنی تحریروں میں اپنے عہد کی تصویر کشی کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سید شاہد اقبال اردو زبان و ادب کے بے لوث خادم ہیں۔ان کا تحقیقی و تنقیدی شعور پختہ اور مشاہدہ وسیع ہے۔موصوف کی زیادہ تر کتابیں تحقیق کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ درس و تدریس کی نذر کیا ہے۔اپنے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے کے لئے موصوف گاہے گاہے مضامین سپرد قلم کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اردو ادب کو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔زندگی کی تمام تر مصروفیات کے باوجود  ڈاکٹر سید شاہد اقبال نے اپنے آپ کو اردو ادب کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔موصوف نے اپنی ذاتی کاوشوں سے اردو زبان کو بہت فروغ دیا۔دراصل ان کے مزاج میں صوفیانہ پن اور تخئیل میں شاہین کی پرواز ہے ۔موضوع کی تہہ تک پہنچ کر اس سے نتائج اخذ کرنا ان کا شغل ہے۔انھوں نے نئے قلم کاروں کے ادبی کارناموں کی جانب بھی اتنی ہی توجہ مبذول کی ہے جتنی توجہ پرانے قلم کاروں یا بزرگ ادیبوں پر کی ہے۔
ڈاکٹر سید شاہد اقبال کا شمار اردو زبان و ادب کے نامور محققین اور ناقدین میں ہوتا ہے ۔انھیں اردو ادب سے والہانہ لگاؤ ہے ۔وہ کسی صلہ کی پرواہ کئے بغیر اپنے کام میں منہمک رہتے ہیں۔ان کی ہر کتاب اپنے موضوع پر حوالہ کا درجہ رکھتی ہے ۔کسی بھی کتاب یا مضمون پر اپنی رائے دینے سے پہلے موصوف اس سے متعلق مواد کا بغور مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
زیر نظر کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ان ابواب کے علاوہ مصنف کا پیش گفتار بھی ہے جس میں انھوں نے عشرت گیاوی کی علمی و شعری خدمات کا تعارف پیش کرتے ہوئے کتاب کی غرض و غایت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب دبستان غالب کا ایک اہم فنکار ــ’’ عشرت گیاوی حیات اور شاعری‘‘ سے متعلق تحقیقی اور تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے جس پر اب تک کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔مصنف نے غالب کے ایک اہم شاگرد نادر شاہ خاں شوخی رام پوری کا ذکر بھی پیش گفتار کے ذیل میںکیا ہے جو شہر گیا میں بہ سلسلۂ تجارت سکونت پذیر تھے۔وہ لکھتے ہیں  :
’’ اس عہد کے گیا کی شعری و ادبی فضا میں شوخی کا پر جوش خیر مقدم ہوا۔اب تک شعرائے گیا کی اکثریت میں امیر مینائی کے شاگرد کو ثر خیرآبادی کو بڑی قدرومنزلت حاصل تھی۔ایسے میں غالب کے کسی شاگرد کا گیا آنا اور یہاں قیام کرنا ایک نعمت بے بہا سے کم نہ تھا۔شعرائے گیا کی ایک بڑی تعداد نے شوخی سے استفادہ کیا اور بالخصوص عشرت گیاوی نے ان سے وہ فیض حاصل کیا کہ گیا میں شوخی نے عشرت گیاوی کو اپنا جانشین قرار دے دیا۔‘‘ (صفحہ۔۹۱)
کتاب کا پہلا باب ’ حیات عشرت گیاوی‘ ہے۔اس باب میں مصنف نے تین ذیلی عنوان’ عشرت گیاوی کے حالات زندگی،عشرت گیاوی رسالوں، کتابوں اور تذکروں میں،عشرت گیاوی کے چند اہم معاصرین‘ کے نام سے قائم کئے ہیں۔ان تینوں ذیلی عنوانات میں پہلا عنوان مہد سے لحد تک کے حالات زندگی سے متعلق ہے اس پر ان کی شاعری کا آغاز و نشوونما ،ان کے استاد، مشہور مشاعروں میں ان کی شرکت اور ان کے تلامذہ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے۔دوسرے عنوان کے تحت مختلف رسالوں،کتابوں اور تذکروں کی ورق گردانی کے بعد ان بیانات کو قلم بند کیا ہے جو عشرت گیاوی سے متعلق ہیں۔تیسرا عنوان عشرت گیاوی کے چند اہم معاصرین کے جائزے پر مبنی ہے۔
دوسرا  باب ’عشرت گیاوی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘پرمحیط ہے۔ دراصل یہی باب اس کتاب کی اساس قرار دیا جا سکتا ہے۔اس طویل باب میں چار ذیلی عنوان ہیں،جس میں ’ عشرت گیاوی کی غزلیات،رباعیات اور دیگر شعری اصناف پر فرداً  فرداً  تنقیدی  نظر ڈالی گئی ہے۔آخر میں حاصل کلام ہے جس سے اس شاعر کی قدرو قامت کا اندازہ ہوتا ہے۔
غزلیات عشرت گیاوی کے تحت ڈاکٹر سید شاہد اقبال نے عشرت گیاوی کی غزل گوئی کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس موقع پر میں قارئین کی نذر دو اشعار کر رہا ہوں تاکہ عشرت گیاوی کی غزلیات اور تاثرات سے ہم واقفیت حاصل کر سکیں  :
دل وہ کیا جس دل میں سوز عشق کا شعلہ نہیں
آنکھیں وہ کیا یار کا جن آنکھوں میں جلوہ نہیں
بے خودی کا رنگ شاید حسن کے جلوؤں میں ہے
ہوش  اپنا  اس گلی  میں دو  قدم  بڑھتا  نہیں 
دوسرے باب کے ذیلی عنوان ’ رباعیات عشرت گیاوی‘ میںمصنف نے عشرت گیاوی کی منتخب رباعیوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس ذیلی عنوان میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عشرت گیاوی نہ صرف غزل کے شاعر ہیں بلکہ وہ ایک کامیاب رباعی گو شاعر بھی تھے ۔ان کے کلام کا دوسرا بڑا سرمایہ ان کی رباعیات ہیں۔انھوں نے دیگر شعرا کی طرح عاشقانہ،اخلاقی،رندانہ،فلسفیانہ اور متصوفانہ مضامین اپنی رباعیات میں نظم کئے ہیںلیکن رباعی گوئی میں بھی ان کا اصل موضوع حسن و عشق ہی ہے۔رباعی میں بھی ان کے قدرت بیان جا بجا بڑی اثر انگیز ہیں۔ذیلی عنوان میں ’ دیگر شعری اصناف‘ کے تحت عشرت گیاوی کے مخمسات،قطعات اور ان کی نظموں پر بھی سیر حاصل جائزہ  لیا گیا ہے۔
تیسرا باب ’ انتخاب کلام عشرت گیاوی‘ ہے۔اس میں بھی تین ذیلی عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ باب عشرت گیاوی کا وہ انتخاب ہے جو عشرت گیاوی کے ہر نمونہ شاعری کا نمائندہ ہے۔اس باب میں ڈاکٹر سید شاہد اقبال نے عشرت گیاوی کے منتخب کلام کو شامل کیا ہے۔اس انتخاب میں ۴۷ غزلیں، ۴۶  رباعیات ہیں۔ دیگر شعری اصناف کے تحت خمسہ بے نظیر منشی امیر احمد امیرؔ مینائی لکھنوی استاد اولیٰ رام پور،قطعۂ تاریخ وصال جناب شاہ محمد اکبر دانا پوری قدس سرہ  اور ایک سہرا  بتقریب شادی سید اکرام الدین ولد سید ذولفقار ایڈوکیٹ(گیا) شامل ہے۔ قارئین اپنے ذوق کے مطابق عشرت گیاوی کے منتخب کلام کو اس کتاب میں جستہ جستہ پڑھ سکتے ہیں اور اندازہ کر سکتے ہیں کہ عشرت گیاوی کس پایے کے شاعر ہیں۔ دراصل یہ منتخب کلام کتاب کا دل ہے۔کتاب کے آخر میں مصنف نے کتابیات کی فہرست درج کی ہے۔اس کے علاوہ انھوں  نے اپنے کتب پر مشاہیر ادب کے تبصرے اور اپنا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔
اس طرح یہ کتاب عشرت گیاوی  حیات و شاعری کے حوالے سے دستاویزی اہمیت رکھتی ہے۔اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہمیں خصوصاً  نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ اردو شاعری کے میدان میں کیسے کیسے لعل و گہر ہمارے درمیان رہے ہیں اور انھوں نے ادبی و فنی خدمات کے ذریعے سماج و زندگی کے کن کن مراحل سے واقفیت کرائی۔
کوئی تحقیق حرف آخر نہیں ہوتی مگر ڈاکٹر سید شاہد اقبال نے جس محققانہ انداز سے ’عشرت گیاوی  حیات و شاعری‘ کو ترتیب دیا ہے وہ متوجہ کرتا ہے ۔مواد کی فراہمی میں انھوں نے واقعی محنت کی ہے۔ ان کی یہ محنت قابل مبارکبادہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سید شاہد اقبال کی یہ کتاب ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی کیوں کہ انھوں نے ان موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جن پر وسیع مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ادبی شخصیات پر اردو ادب میں باقاعدہ کتابیں موجود ہیں لیکن میں موصوف کو مباکباد کا مستحق اس لیے سمجھتا ہوں کہ انھوں نے عشرت گیاوی کی شخصیت کو جس آسان طریقے سے سمجھایا ہے وہ ان کے وسیع مطالعے کے سبب ہی ممکن ہو پایا ہے۔ ایک موضوع کو ہر بار مختلف انداز سے بیان کرنا آسان کام نہیں۔کتاب کا سر ورق بہت ہی دلکش اور دیدہ زیب ہے۔کاغذ اچھی کوالٹی کا استعمال کیا گیا ہے۔طباعت عمدہ ہے۔موضوعات میں تنوع ہے۔ڈاکٹر سید شاہد اقبال نے اپنی نگارشات سے گلہائے رنگارنگ کھلائے ہیںجو آج بھی معطر ہیں۔