
اقراء غفار ( ملتان )
-ملتان پاکستان
مشرف عالم ذوقی مابعد جدید فکشن نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے کہانیاں بھی لکھیں ناول بھی لکھے اور اخبارات میں عصر حاضر کے ہندوستان میں ہونے والے مسائل پر مسلسل کالم لکھتے رہتے ہیں. بطور ناول نگار انہوں نے اکیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں اور خاص کر ان تبدیلیوں سے نمایاں ہونے والے اثرات اور مسائل کو اپنی تحریروں میں موضوع بنایا. ان کے ناولوں کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ابھی منظر عام پر آنے والا ناول مرگ انبوہ بھی قارئین کی دلچسپی میں اضافہ کیے ہوئے ہے ان کے ناولوں اور دیگر تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:
۱:بیان( ناول)
۲:نیلام گھر
۳: شہر چپ ہے
۴: عقاب کی آنکھیں
۵: آتش رفتہ کا سراغ
۶:پوکے مان کی دنیا
۷:لے سانس بھی آہستہ
۸: نالہ شب گیر
۹:مرگِانبوہ
۱۰: نفرت کے دنوں میں(افسانے)
۱۱: آبِ روانِ کبیر(تنقیدی مضامین)
۱۲: گزرے ہیں کتنے کارواں(مضامین خاکے)
۱۳: سلسلہ روزوشب( اردو ناولوں کا خصوصی مطالعہ اور دیگر مضامین )
مشرف عالم ذوقی اپنے اردگرد هونے والے مسایل اور مشکلات سے آنکھیں بند کر کے یا صبر وتحمل سے بیٹھے رہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے .ان کی نگاہ جب بھی کسی ظلم کو دیکھتی ہے تو ان کی قلم کی روانی میں اضافہ ہو جاتا ہے وہ غیر جانبدار ہو کر ہر اس مسئلے کی طرف توجہ کرتے ہیں جو سماج سے جڑا ہوا ہو .سماج میں موجود پرولتاریہ طبقے سے جڑا ہواا ہوا.ان کا قلم بے باک ہوکر انسانیت کا پر چار کرتا ہے.اور عصرِحاضر میں ہوانے والے سیاسی ,سماجی ,معاشی اور مذ ہبی معاملات کو عمیق مشاہدے کے بعد اپنے فکشن کا حصہ بناتا ہے .ان کا ناول "مرگانبوہ" مختلف موضوعات کا کولاژ ہے .جہاں سیاست بھی ہے بنیاد پرستی بھی.گلوبلایزیشن کا ایک عہد بھی سانس لیتا هے اور اقلیتوں کے ساتھ ہوانے والی ظلم و زیادتی بھی موضوع بنتی ہے اور تقسیمِ ہند کا المناک تاریخی واقعہ بھی .خوف اور جبر کی فضا کو پیش کرتے ہوایے ناول نگار Generation Gap کی طرف بھی اپنا رُخ کرتا ہے .اکیسویں صدی میں جہاں آج کی نوجوان نسل اپنے مخصوص افکار کی بدولت ٹرین کی ایک الگ پٹری پر سوار ہے .انسانی نفسیات ,اقلیتوں کے لیے میڈیا کا منافقانہ رویہ ہندی اخباروں کی صورتحال ,اقلیتوں کی آییڈیالوجی کی موت کا نوحہ، بی مشن نامی مخصوص سیاست کا ایجنڈا اور ان کے ذریعے عوام کا استحصال ,زباں بندی کی رسمیں ,طاقت اور پیسہ کا ڈسکورس ,مسلمانوں کی شناخت کے مٹ جانے کا غم اورغصہ ,بدلتی ہوائی تہذیب کامنظرنامہ ,غرضیکہ جو کچھ اس بدلتے ہوئے ہندوستان کا scenario ہے اس کو ہوا بہوا نقش مرگ انبوہ میں موجود ہے .مصنف کا عصری شعور پورے ناول میں جابجا دکھائی دیتا ہے .
کہانی اکیسویں صدی کی نسل ,ان کی مصروفیات اور مخصوص فکر سے شروع ہوتی ہے اور قاری کو یہ التباس ہوتا ہے کہ شاید جدید ٹیکنالوجی کی یہ دنیا ناول کا خاص موضوع ہے مگر مصنف کمال مہارت سے معنی خیز جملوں اور علامتوں کا استعمال کر کے کہانی کا رخ موڑ دیتا ہے اور پاشا مرزا ریمنڈ (پاشا مرزا کا دوست) نیتی ,پاشا مرزا کی ماں( سارا جہانگیر) اور پاشا مرزا کے باپ (جہانگیر مرزا) سے متعارف ہواتا ہے . جہانگیر مرزا ایک ایسے باپ کے طور پر سامنے آتا ہے جو کتابوں میں مشغول رہنے والااور اپنی اولاد کی خواہشات کو مالی مشکلات کی وجہ سے کبھی پورا نہ کرنے والا باپ ہے اسی لیے پاشا ان سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے دوست ریمنڈ کی کہانی بھی کچھ اس طرح کی ہے اس نوجوان نسل کے نزدیک ہر شے مختلف ہے یہ نسل "Steve jobs (ایپل آئی فون ٹیکنالوجی کنگ) اور مارک زکر برگ(Founder of Facebook) کو اپنا رہنما مانتی ہے اور ان کے اقوال کو ازبر کیے ہوئے ہے . بلیو وہیل گیم میں دلچسپی رکھنے والی یہ نسل موت یا جبر کی فضا سے خوفزدہ نہیں ہر ایڈونچرAdventure کرنے کی لگن ان میں موجود ہے ناول نگار اس نسل کی سوچ اور فکر عکس ناول میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں :-
"بہت سارے لوگوں کی طرح میرے ڈیڈ بھی آج کے بچوں اور ان کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھے نفسیات....؟ نہیں- چونکی ے مت صاحب .میری عمر ۲۰ سال کی ہے .اور اس عمر میں میرا تجربہ آپ یا کسی بھی ۸۰ سال کے آدمی کی عمر سے کہیں زیادہ ہے .....پزا ، برگر،ایپل،لیپ ٹاپ اور فیس بک کی باتیں کرتے ہوایے ڈیٹنگ اور بریک اپ کے معاملے میں بھی ہم بچے جس گہرائی سے غور کرتے ہیں آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے """"(صفحہ نمبر ۰۲ ،مرگ انبوہ)
ایک اور اقتباس :-
"""" ڈیڈ کی طرح ممی بھی اس نسل کو اور اس نسل کی خواہشوں کو نہیں جانتی جہاں values بدل گئے ہیں جینے کا نظریہ بدل چکا ہے پرانے زمانے کا بہت کچھ ہمارے لئے ڈسٹ بن میں ڈالنے جیسا ہے جیسے ڈیڈ کی کتابیں مجھے کبھی راس نہیں آییں ہاں اگر کتابیں کما کر دے سکتی ہواں تو آپ چیتن بھگ بنیے نا فلموں میں لکھیے .سے لی بریٹی بنیے اور پیسوں کی کھان بن جائیے."""""(صفحہ نمبر۰۵,مرگ انبوہ)
جہانگیر مرزا اور سارا جھانگیر اپنے بیٹے کی اس سوچ سے کسی حد تک واقف ہیں مگر جہانگیر مرزا ایک حساس دل رکھنے والا انسان ہے اور اپنے آدرشوں کے خلاف جا کر کوئی اور راہ اپنانےوالوں میں سے نہیں. انقلاب کا داعی یہ انسان پھر بھی کہیں بھٹک جاتا ہے اور بی مشن کا حصہ بن جاتا ہے جہانگیر مرزا کی موت کے بعد پاشا کے لیے لکھے جانے والے ڈائری اس کہانی کا رُخ موڑ دیتی ہے اور قاری اکیسویں صدی کی نسل کے مسائل،مصروفیات، مخصوص فکر ،رہن سہن سے نکل کر جہانگیر مرزا کی زندگی کو پڑھنے لگتا ہے جو اپنے بیٹے کو اپنی اس مخصوص شخصیت کے ہونے کا جواز پیش کرتا ہے اور اس نفرت کو کم کرنا چاہتا ہے جو پاشا مرزا کے دل میں اس کے لیے ساری زندگی موجود رہی. جہانگیر مرزا کی ڈائری پڑھتے ہوئے قاری بھی پاشا مرزا کے ساتھ چلتا ہے جہاں طاقت کا ڈسکورس، طاقت کا تصور اور سیاسی پالیسیاں ناول کا خاص موضوع بن جاتی ہیں پیسہ اور طاقت دو عالمگیر سچائیاں ہیں جن سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں۔
جدلیاتی کشمکش کو بڑھانے میں یہ دونوں چیزیں ازل سے کارفرما ہیں ان کا گٹھ جوڑ ہر ذی روح کی نظر میں ہے تیسری شے جو ان کے ساتھ مل کر عوام کا استحصال کرتی ہے وہ سیاست کی آمیزش ہے . پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے دو نسلوں کے مزاج کا تضاد ناول کا حصہ ہے جسے بہت خوبصورتی سے ناول نگار نے پیش کی ا ہے کہ کس طرح اخلاقی قدروں کی جگہ مادی وسایل سبقت لے گیے اور آج کی نسل ان کی مادی وسایل کی طرف متوجہ ہے .
"اور جیسا کہ ممی کہتی ہیں ہم رشتوں کی طرف بھاگنے والے لوگ تھے اور تم لوگ پیسوں کی طرف بھاگنے والے .دراصل ہم پریکٹیکل دنیا میں جینے والے لوگ ہیں اور ہماری نسل جذباتی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں کرتی .آی میک تھنگس کا نعرہ دینے والا زکر برگ اس وقت صرف انیس سال کا ہوا گا جب فیس بک جیسے سوشل میڈیا کی دریافت پر یاہوا(Yahoo) اور گوگل (Google)نے ۷۵ ہزار کروڑ یعنی ۵ا ملین ڈالر سے اس کی بولی لگای تھی ۔ہم یگنستان والوں کے لیے یہی لوگ ہمارے آئیڈیل ہیں پچھڑے ہوایسے اور کمزور لوگوں میں ہماری دلچسپی نہیں ہواتی ہے وہ بل ڈاگ ہواں ،سور ,چھبڑے والی بلی یا ہمارے رشتہ دار """"""(صفحہ نمبر ۶۲-مرگانبوہ).
طاقت حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہیں مگر ناول میں موجود نوجوان نسل کے هاں ایلومناتی فرقہ متعارف ہو چکا ہے جو طاقت دینے والاہے اور اس طاقت کے بدلے میں شیطان کے پجاری بننے کی شرط عائد کی جاتی ہے درحقیقت یہ ایک ایسی طاقت اور power of discourse کی طرف اشارہ ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے خاص طور پر ہندوستان میں جو طاقت ور طبقہ جنم لیے ہوئے ہے وہ مذہبی معاملات کو بنیاد بنا کر اپنی اجارہ داری قایم کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے ۔اس صورت میں اقلیتوں کی شناخت کے مسائل جنم لے رہے ہیں شناخت اور وجود کے معدوم ہونے کا غم ایک طرف اور ظلم و جبر کی ہولناک داستانیں ایک طرف.اس ڈر اور خوف کے کاروبار کی ۔واضح تصویر ناول نگار بے باک ہوا کر پیش کرتا ہے اور ناول نگار کا عمیق مشاہدہ اس کے عصری شعور کا واضح اور بیّن ثبوت ہے .طاقت کے تصور کو تاریخی نقطہ نظر سے پیش کرتا ہواناول نگار عصرِ حاضر کے ہندوستان کا منظر نامہ قاری کے سامنے بیان کرتا ہے :
--تہذیبیں مٹ جاتی هیں سندھ کی تہذیب مٹ گی سومیرین ،میسوپوٹامین ,ایرانی تہذیب ......آج ان کے وجود تک کا پتہ نہیں .یہ ایلومناتی تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ تمام تہذیبوں کے نشان غایب کردیے جو طاقتور ہوا گا وہی حکومت کرےگا.""""."(صفحہ نمبر ۱۰,مرگ انبوہ)
ہندوستان کے اس منظر نامے کو تخلیق کرنے والا ناول میں "بی مشن" کے نام سے سامنے آتا ہے جس کا ہندوستان کی سماجی،سیاسی،معاشی، علمی،مذہبی غرضیکہ ہر معاملے میں بڑا ہاتھ ہے اس کا بھرپور تعارف ناول میں موجود ہے.
"""" ایک دلچسپ فنتاسی کا حصہ بی مشن تھا جس نے آہستہ آہستہ سیاست سے سماج ,معاشرے اور ثقافت پر قبضہ کر لیا تھا پورا ہندوستان اچانک ان کے ہاتھوں میں آگیا...........(صفحہ نمبر ۷۳، مرگ انبوہ)
اور اقلیتوں کے ساتھ رکھنے والے روا رکھے جانے والے سلوک کی دردناک داستانیں ناول کا اہم موضوع بن جاتی ہیں.جہاں انسان دوستی یا انسانیت نام کی شے ناپید ہو چکی ہے . حاشیے پر دھکی لینےوالی اس قوم کا نوحہ سننے کو کوئی بھی تیار نہیں . جہاں میڈیا کے غیر جانب دار رہنے کی توقع رکھنا بے سود ہے ایسی صورت حال کی تصویر ناول نگار کچھ طنزیہ پیرائے میں بیان کرتا ہے :-
""""""جو کام ڈٹرجنٹ سوپ یا رن صابن نہیں کر پاتے تھے سے وہ کام آسانی سے بی مشن کا حصہ بنتے ہی ہو جاتا تھا مجرموں کے گناہ دھل جاتے دست درازی اور ریپ کے گناہ گار ملزمین کو آزادی مل جاتی طور طریقے اس حد تک بدل گئے کہ جب ایک مسلم چھوٹی سی بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا تو گینگ ریپ کرنے والوں کی حمایت میں وکلا اور دانشوروں نے جلوس نکالا یہ سارے لوگ بی مشن کے لیے کام کرتے تھے اخبار سے لے کر میڈیا تک بی مشن کا حصہ بن گئے تھے"""""(صفحہ نمبر ۷۳, مرگ انبوہ)
ناول کے یہ اقتباس جہاں انسانی وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں وہاں قاری کو ورطہء حیرت میں بھی ڈالتے ہیں ہے جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے۔ ساری زندگی اپنے آدرشوں کے سہارے جینے والااور انقلاب پسند جہانگیر مرزا بھی اپنی ایک دوست تارا دیش پانڈے کے ذریعے بی مشن کا حصہ بن جاتا ہے اور اپنی آئیڈیالوجی کو کچھ عرصے کے لیے گروی رکھ دیتا ہے ناول نگار اس کردار کے ذریعے ہی سیاست اور حکومت کے اصلی چہرے سے اپنے قاری کو روشناس کرواتا ہے پوری کہانی جبر اور خوف کے ایسے ماحول کو پیش کرتی ہے جہاں ہر قدم پر سیاست کا عمل دخل نظر آتا ہے دہشت گردی کا تصور مسلمانوں سے جڑا ہوا ملتا ہے اور ایسے کئی تاریخی حوالوں سے اقلیتوں کے ان کے حقوق سے محروم کرنا ناول میں جا بجا دکھائی دیتا ہے.
جہانگیر مرزا کے دوست سبحان علی کے ذریعے اور ان دونوں کے مابین ہونے والے مکالمے ملکی صورتحال ،اقلیتی برادری کی ابتری اور خستہ حالی کا عکس پیش کرتے ہیں.
"سبحان علی زور سے ہنسا. بہت آسانی سے ہمارے کپڑے اتار لیے گئے کانگریس نے رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کے ذریعے صرف ہمیں رسوا کیا تھا ہم بے لباس ہیں راستہ نہیں پیارے جہانگیر مرزا"""""(صفحہ نمبر ۸۲, مرگ انبوہ)
اقلیتوں کے مسائل کا بیان کرتے ہوئے ناول نگار کے ہاں طنز کی کاٹ دکھائی دیتی ہے معاشی ،سماجی، تہذیبی، اقتصادی تمام ناکامیوں کے باوجود بی مشن کے پاس جیت کے لیے صرف ایک ہی بہانہ ہے. اقلیت..... ایک تماشا ہے .....اقلیت.... ایک ہی کھیل ہے. اقلیت.....ایک مداری ہے. ایک ڈگڈگی ہے..... اور ڈگڈگی کی آواز پر رقص کرتی ہوئی اقلیت.... چکرویوہ میں الجھتے، پھنستے ہوئے اقلیت... ہزاروں برس کی تاریخ میں مخصوص اقلیت کو لٹیرا کہنے والے آسانی سے فیصلہ لے آئیں گے کہ اقلیتوں کی زمین کیسی؟محمد بن قاسم سے محمود غزنوی، غوری،خلجی اور مغل بادشاہ تک سارے لٹیرے تھے لوٹ کی زمین کو اقلیتوں کا حق نہیں کہا جا سکتا.... ہم ایک ایسے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جو ہمارا نام صفحہء ہندوستان سے مٹا دینا چاہتا ہے"(صفحہ نمبر۸۳،مرگ انبوہ)
ناول میں چلتے ہوئے ہندوستان کی تصویر کا صرف ایک ایک رخ نظر نہیں آتا یعنی صرف مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور جبر کی داستان ناول کا موضوع نہیں بنتی یہاں تصویر کا دوسرا رخ یعنی عیسائیوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کی صورتحال بھی برابر پیش کی گئی ہے:-
"اڑیسہ میں غریب دلتوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا کچھ غنڈوں نے انہیں زندہ جلا دیا یا خواتین کی عزت لوٹی"""(صفحہ نمبر ۹۵،مرگ انبوہ)
شہریت چھن جانے کا غم، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف ناول کے مرکزی کردار جہانگیر مرزا میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے جو ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر کڑھتا اور بنیاد پرست معاشرے کی اجارہ داری کو دیکھ کر خاموش ہوجاتا ہے بی مشن میں شامل ہونے کے بعد این آر سی NRC اور اپنی ذات کے حاشیے پر دھکی لے جانے کے احساس سے واقفیت اسے مزید آزردہ کر دیتی ہے جہاں موت کا فارم پُر کرنے اور نسل کشی کے لیے بنائے جانے والے پروپیگنڈے اسے جلد ہی موت کی طرف دھکیل دیتے ہیں . وہاں دوسری طرف اسے سیاسی مکاریوں اور حکومتی چالبازیوں کا تجزیہ کر کے اس نتیجے پر میں دیر نہیں لگتی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی. جہانگیر مرزا اپنے ساتھ ساتھ قاری کو بھی اس بات سے آگاہ کردیتا ہے کہ مذہب ایک ایسا tool ہے .جس کو ہر ملک کے سیاست اور حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہر عہد میں بہت بخوبی استعمال کیا ہے اس طرح مذہب اور بنیاد پرستی کے لئے تشکیل دیے جانے والے عوامل اس ناول کا ایک اور بڑا موضوع بن جاتے ہیں جہاں گاؤ ماتا کی پوجا افضل ہے اور اس پوجا کے علاوہ لوازمات بھی مقدس جانے جاتے ہیں احترام اور عقیدت کے اس پہلو کو ناول میں پیش کیا گیا ہے اور مذہبی اجارہ داری کی فضا کو ناول نگار عالمگیر تناظر میں پیش کرکے ناول کا حصہ بناتا ہے:-
" پاکستان میں برسوں سے اسلامی راشٹرواد کی حکومت ہے ہندوستان اب یھی کر رہا ہے ہر حکمران یہ راشٹرواد اپنے طریقے سے نافذ کرتا ہے مگر جو شکار ہوتے ہیں وہ بے بس پرندوں کی طرح ہوتے ہیں آج بھی ایک بڑی دنیا پر ملاؤں، پنڈتوں اور پادریوں کا قبضہ ہے مذہب کی اجارہ داری ہر جگہ قائم ہے""""(صفحہ نمبر ۱۴۷مرگ انبوہ)
احترام اور عقیدت کی ایک جھلک دیکھیے:
" جب گائیں سڑک پر گربا رقص کر رہی تھیں انتظامیہ نے ۱۵۰ لوگوں کو حراست میں لیا تھا اور ان سے موت کے دستاویز پر دستخط کرائے گئے تھے ان سے باضابطہ کا سوال کیا گیا تھا کیا آپ کب مرنا چاہتے ہیں ان سب کو درویش دروھی اور مجرم قرار دیا گیا تھا........ پارٹی دفتر جانے کے لیے کوئی آٹو تیار نہیں ہوا کوئی بھی آٹو گایوں سے گزر جانا نہیں چاہتا تھا """"(صفحہنمبر ۱۹۲,مرگانبوہ)
گیارہواں
ناول نگار غیر جانبدار ہوکر ہندو معاشرے کے عقائد کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی فکر اور مذہبی معاملات کو بھی بیان کرتا ہے بی مشن کا حصہ بننے والے یہ لوگ خود مطمئن خود کو مطمئن رکھنے کے لیے کیسے ڈھکوسلے اپناتے ہیں اس کا عکس دیکھیے :-
"""اچھا مولوی فرقان نے پوچھا. آپ کیسے پھنس گئے؟
میرے لہجے میں خاموشی تھی......
ض ...م....یر .....میں نے بمشکل اس لفظ کو دہرایا .
ضمیر کی فکر کیوں کرتے ہیں مجھے کوئی کام مرضی کے موافق نہیں لگتا تو استغفار پڑھ لیتا ہوں. یہ کفرستان ہے زندگی تو گزارنی ہے استغفار پڑھیے اور جو کام مل رہا ہے کرتے چلئے ان کاموں میں ضمیر کو نہ لا دیے"""""(صفحہ نمبر ۱۲۳,مرگانبوہ )
ہندوستان کے معاشرتی مسائل اور تلخ حقائق کا دردناک بیانیہ ناول کا ضروری حصہ ہے جس کا حل موت کے فارم پر دستخط کی صورت میں نکالاجاتا ہے موت ایک عالمگیر سچائی ہے اور موت ناول میں ایک استعارہ بن جاتی ہے یہاں نوجوان نسل بلیو وہیل گیم کے ذریعے موت سے کھیلنا چاہتی ہے اور دوسری طرف حکومت اور بی مشن کی طرف سے موت کا فرمان جاری کر دیا جاتا ہے ڈر اور خوف سے سہمے ہوئے یہ کردار زندگی سے مایوس اور افسردہ ہواکر ایک کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کی طرف جانے کے خواہش مند ہیں اور موت کے دستاویز کو نئے حکم نامےکے طور پر دیکھتے ہیں کی ونکہ یہ کردار اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جن کی سماجی ,مذہبی ،علمی سرگرمیاں داو پر ہیں جن کو ترنگا لہرانے کی بھی اجازت نہیں . اس معنی خیز منظر نامے کا بیان ناول میں یوں ملتا ہے :-
""""فارم ....؟؟
اس نے پھر قہقہہ لگایا .موت کے دستاویز. آخر کب تک جیو گے .مارکیٹ میں پیسہ نہیں گھروں میں زندگی نہیں دکانوں میں راشن میں نہیں. ملنا ہے تو ایک بار مر جاؤ فارم پر دستخط کرو اور بتاؤ کہ کب مرنا چاہتے ہو... یہ نیا حکم نامہ ہے تم لوگوں کے لئے .میں تو اپنا کام کر رہا ہوں...
ویسے بہت جلد بی مشن والے فارم لے کر تمہارے گھر آنے والے ہیں""""(صفحہ نمبر ۲۰۹،مرگ انبوہ)
ناول نگار موت کے تصور کو وسیع پیمانے پر دیکھتا ہے اور ملک کی عصری صورتحال کے پیش نظر طنزیہ جملے تحریر کرتا ہے:-
"""" ملک کی بڑھتی آبادی اور ملک کی خوشحالی کے پیش نظر ہمیں مخصوص طبقے اور گروہ کے لئے محبت بھری موت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے پڑے ""(صفحہ نمبر ۲۱۱،مرگ انبوہ)
جنس اور بھوک بھی دو بڑی حقیقتیں ہیں ناول میں سوشل میڈیا کا عکس دکھاتے ہوئے جنس نگاری اور اس سے وابستہ معاملات بھی ناول کا موضوع بنتے ہیں اور کچھ ایسی سچائیاں پیش کرتے ہیں جن پر عموما"پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں تبدیلیاں ہوئیں وہاں پورن سائٹس کی طرف رجحان اور sex chatsکا تصور بھی در آیا جس سے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے افراد کو وابستہ پایا گیا اسی رویے اور رجحان کو ناول نگار نے جہانگیر مرزا اور سبحان علی کے ذریعے بیان کرنے کی بھرپور سعی کی ہے :-
""""پورن سائٹ ,سیکس چیٹ کا راستہ بھی سبحان علی نے ہی سب سے پہلے دکھایا تھا مجھے یاد ہے وہ زور سے چیخا تھا۔
اپنی اداسیوں کو ذلیل مت کرو اور خود کو مرنے کے لئے مت چھوڑو یہاں سب اپنی تھکان مٹانا چاہتے ہیں آپ کو ریلیکس ہوانا ہے آپ کے آن لائن ہوتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں...... بھوک ہے تو بھوک کا اقرار کرتے ہوئے شرمندگی کیسی؟جسم میں آگ ہے .....
جسم میں آگ ہے تو اسے ٹھنڈا کر کے کیسے جیا جا سکتا ہے؟ یہاں تہذیب و روایت کی تھیوری کام نہیں کرتی."""""(صفحہ نمبر ۹۱,مرگ انبوہ)
بدلتی ہوئی تہذیب اور پرانی تہذیب سے جڑی اخلاقیات جنریشن گیپ یا نیی اور پرانی نسل کا تقابل یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا تین نسلوں کا تقابل ناول کا خاص حصہ بنتا ہے جب جہانگیر مرزا کے والد اس کے گھر میں کچھ دن کے لیے ٹھہرتے ہیں اور اپنے پوتے پاشا مرزا کی حرکتوں اور مزاج سے ہر وقت خائف رہتے ہیں تو قاری بڑھتی ہوئی نسل کی سوچ اور بزرگوں کی سوچ میں ایک خاص فرق محسوس کرتا ہے اور اس فرق کی بڑی وجہ گلوبلائزیشن ہے .
ناول نگار کے ہاں غیر جانبداری بے باکی اور حق گوئی شدت سے دکھائی دیتی ہے جس کا اثر مرگ انبوہ میں برابر محسوس ہوتا ہے ناول کی بُنت میں علامت نگاری اور مختلف تکنیک کا استعمال کیا گیا.جو ناول کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں قصہ در قصہ کی تکنیک کے ساتھ خود کلامی interior monologue،شعور کی رو اور ڈائری کی تکنیک کہانی کو خوبصورت بنانے کے لئے بخوبی استعمال کی گئی ہیں منظر نگاری کہانی میں چلتے ہوئے کے حالات کے عین مطابق کی گئی ہے جو قاری کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے خوف اور جبر کا منظرنامہ ناول نگار نے جا بجا ہر جگہ ناول میں پیش کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کرداروں کی نفسیاتی گرہ کشائی بھی کی گئی اور جذبات نگاری کے عمدہ مرقعے مصنف نے پیش کیے انقلاب پسند ناول نگار کا قلم طنز کے نشتر چلاتا ہوا بے رحم اور سفاک حکمرانوں اور نام نہاد سیاست کے پردے چاک کرتا ہے طنز سے بھرپور اور معنی خیز جملوں کی بھرمار ناول میں ملتی ہے خوبصورت تشبیہات اور استعارات کا استعمال بھی ناول میں موجود ہے . کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:-
-آزادی کے بعد ہم ایک بیمار سیکولرازم کو معیار زندگی تسلیم کرتے رہے .یہ سیکولرازم جوتے میں سے نکلی ہوائی کی ل سے زیادہ نہیں ہے جو اکثر ہمارے پاوں کو زخمی کر دیتا ہے --(صفحہ نمبر ۱۰۲،مرگ انبوہ)
-ہم تاریخ کے پیچھے کسی سائے کی طرح چلتے ہیں اور ہماری حالت اس کچھوے جیسی ہواتی ہے جو زمین پر آہستہ آہستہ رینگ رہا ہواتا ہے بہت تیز چلتے ہوایے بھی دراصل ہم کچھوے کی طرح رینگ رہے ہواتے ہیں-(صفحہ نمبر ۷۲، مرگ انبوہ)
-اور پوتا ،اس کی نظروں میں ایسا شاطر پرندہ ،جو ایسی تمام بندشوں کے پر کترنا جانتا ہوا"(صفحہ نمبر ۷۵،مرگ انبوہ)
علامتوں کا ایک جہان ناول میں آباد ہے اور ہر علامت مختلف قسم کے حالات کو مدنظر رکھ کر استعمال کی گی ہے جبر اور خوف کے اس ماحول میں معنی خیزعلامتوں کا استعمال ناول کو خوبصورتی عطا کرتا ہے .سرخ کتا،گدھ،داڑھی ، آئینہ ،سیاہ رنگ،سرخ چیونٹیاں،بھروپیا،لچلچا جانور،بلیو وھیل،جادوگر یہ تمام الفاظ علامتوں کی صورت میں تلخ حقایق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی ے گیے هیں.مختصر یہ کہ اپنے تمام تر فنی لوازمات کے ساتھ مرگ انبوہ کو عصر حاضر کا اہم ترین ناول قرار دینا بے جا نہ ہوا گا.