نظم

ڈاکٹر عنبر عابد 
بھوپال
لمحوں سے محبت کر نہ سکے
صدیوں کا درد سناتے ہو
تب آنکھیں سرخ بنائی تھی
اب زرد ہوئے کیوں آئے ہو
ہے لا محدود یہ کائنات
اور روز ہی یہ پھیلاجائے
یہ چاند ستارے سیارے
لگتے ہیں سب کو آوارے
ہے زماں مکاں کی پابندی
بے ربط نہیں کچھ بھی یاں رے
سب نظم نشق کے پیکر ہیں
آزاد ہوئےتم آئے ہو
لمحوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی خواب حقیقت سےبڑھکر
دیکھا ہوگا تم نے شاید
خد کو خد سے تھوڑا بہتر سمجھ ہوگا تم نے شاید
حسرت جو ابھی پوری نہ ہوئی
کھویا ہوگا تم نے شاید
منزل تو کوئی پا نہ سکے
اور راہ دکھانے آئے ہو
لمحوں۔۔۔۔۔۔۔۔
صحرا میں پانی دکھتا ہے
جب دھوپ کی شدت ہوتی ہے
یہ اور بھی واضح ہوتا ہے
جب پیاس کی شدت ہوتی ہے
خاموش سمندر ہوتا ہے
جب ضبط کی شدت ہوتی ہے
اپنے آنسو ہی پی لیتے
کیوں پیاس بجھانے آئے ہو
لمحوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان اونچے اونچے محلوں کی
بنیاد نظر آتی ہے کیا؟
ان قلعوں کی سونی دیواریں
آباد نظر آتی ہے کیا؟
یہ جھڑنے تجھے پہاڑوں کی ایجاد نظ آتی ہے کیا؟ 
ہے خواہنش باغ لگانے کی
اور پھول جلاکر آئے ہو
لمحوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو چھاؤں دیتا ہے مجھ کو گھنا شجر بن کر 
میں اس کا ساتھ نبھا تی  ہوں اس کا گھر بن کر 
فضائے علم و ہنر رأس آگئی ہے مجھے
خدا کرے کہ رہوں حرف معتبر بن کر
تو چاند ہے تو دعا ہے کبھی غروب نہ ہو 
افق میں بھی رہوں مطلعء سحر بن کر 
غلط سمجھتی تھی میں اس کو راز داں اپنا 
جو ایک سایہ سا ابھرا تھا ہمسفر بن کر 
امید و بیم سے جب آزاد ہو گئی عنبر 
تو کامیاب ہوئی صاحب نظر بن کر