کیا ڈرون بھی چمگادڑ کی طرح آواز سے ’’دیکھ‘‘ سکیں گے؟

انڈیانا: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈرونز کی ٹیکنالوجی بھی جدید تر ہوتی جارہی ہے۔ آج ایسے ڈرونز موجود ہیں جو روشنی کے علاوہ انفرا ریڈ شعاعوں کی مدد سے بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید وہ دن دور نہیں کہ جب ڈرونز بھی چمگادڑوں کی طرح خاص آوازوں کے ذریعے اپنے ارد گرد کا ماحول ’’دیکھ‘‘ سکیں گے اور آواز ہی سے رہنمائی بھی حاصل کرسکیں گے۔امریکا کی پرڈُو یونیورسٹی میں ریاضی، طبیعیات (فزکس) اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے ایک ایسا تجرباتی نظام تیار کرلیا گیا ہے جو چار مائیکرو فونز اور ایک عدد اسپیکر کے ذریعے، صرف آواز کی مدد سے، اپنے ارد گرد کے پورے ماحول کی تصویر کشی کرسکتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ یہ نظام ’’آواز سے تصویر‘‘ بناتا ہے۔واضح رہے کہ چمگادڑیں پرواز کے دوران اپنے منہ سے خاص طرح کی آوازیں نکالتی ہیں جن کی فریکوئنسی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ البتہ یہی آوازیں جب آس پاس کی چیزوں سے ٹکرا کر چمگادڑ کے کانوں تک پہنچتی ہیں تو چمگادڑ کا دماغ فوراً ان کی مدد سے ارد گرد کے ماحول کا پورا منظر بنا لیتا ہے۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ چمگادڑیں ’’آواز کے ذریعے دیکھتی‘‘ ہیں۔پرڈُو یونیورسٹی میں تیار کیا گیا یہ نظام، جس کی تفصیلات ’’ایس آئی اے ایم جرنل آن اپلائیڈ الجبرا اینڈ جیومیٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں، اپنی موجودہ حالت میں صرف ساکن رہتے ہوئے ہی آواز کے ذریعے اپنے ارد گرد ماحول کی منظر کشی کرسکتا ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے دورانِ پرواز بھی کام کے قابل بنایا جائے گا۔توقع ہے کہ مزید بہتر اور پختہ ہوجانے کے بعد یہ نظام فضا میں پرواز کرنے والے ڈرونز کے علاوہ زیرِ آب تیرنے والے ڈرونز اور خودکار گاڑیوں تک کی رہنمائی میں ہماری مدد کرسکے گا اور اُن جگہوں پر بھی ہمارے کام آسکے گا جہاں رہنمائی کے موجودہ و روایتی ذرائع ہمارے لیے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔