لندن: ڈرائیوروں کے بغیر کار اور خودکار بہتر ڈرون کی تیاری کےلیے اس وقت شہد کی مکھیوں پر تحقیق کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی۔پہلے مرحلے میں سائنسدانوں نے ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں مکھیوں پر انتہائی حساس انٹینا لگائے ہیں اور انہیں مختلف رکاوٹوں والے ماحول میں چھوڑا ہے تاکہ ان کی پرواز اور حرکات و سکنات کا جائزہ لیا جاسکے۔ اسی طرح مکھیوں کو ورچوئل رئیلٹی چیمبرز میں بھی چھوڑا گیا۔ اس دوران سائنسدانوں کی ٹیم نے ان کے دماغ اور سفر کرنے کی عادات کا جائزہ بھی لیا۔برطانیہ کی جامعہ شفیلڈ نے مکھی کے دماغ کی تمام تفصیلات کو ایک چِپ پر اتارلیا ہے یعنی اب بہت حد تک اس کا دماغ ایک الیکٹرونک چپ میں سماچکا ہے۔ اس کے بعد چپ کو ڈرون میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ ڈرون انتہائی گنجان آباد اور پیچیدہ راستوں والے شہروں میں مطلوبہ مقام تک سامان پہنچانے کا کام کریں گے۔ مکھیوں کی تربیت سے وہ رکاوٹیں عبور کرکے اپنا مشن انجام دے سکیں گے۔اس پروجیکٹ کے سربراہ پروفیسر جیمز مارشل کہتے ہیں کہ مکھیوں کا دماغ سوئی کے ایک سرے کے برابر ہوتا ہے لیکن یہ 8 سے 10 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں اور وہاں کام کرنے کے بعد دوبارہ اپنے گھر تک آجاتی ہیں۔ انسانوں کے دماغ میں 100 ارب خلیات ہیں لیکن یہ صرف دس لاکھ دماغی خلیات کے ساتھ حیرت انگیز کام کرسکتی ہے۔اسی وجہ سے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ڈرون اور خود سے دوڑنے والی کاروں میں شہد کی مکھیوں کے دماغ کی طرح کا کوئی نظام قائم کیا جائے۔ مکھیوں کو ایک غیرمعمولی ہنر آتا ہے جسے ’آپٹک فلو‘ کہا جاتا ہے۔ جس طرح انسان ایک منظر دیکھ کر قریب اور دور کا احساس کرلیتا ہے، عین اسی طرح مکھیاں ہر اونچی نیچی اور دور یا قریب کی رکاوٹ کا احساس کرلیتی ہیں۔مکھیوں کی دوسری خاصیت ان کا رقص ہے یعنی وہ ایک طرح کے رقص کے ذریعے رس دار پھولوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لیے خاص ریڈار انٹینا سے مکھیوں کی باغ میں پرواز اور دیگر معمولات کو نوٹ کیا گیا ہے۔ مکھیوں کے دماغ کو سمجھنے کے بعد اس لحاظ سے ایک الگورتھم بنایا گیا ہے۔اس کے بعد ایک چھوٹے ڈرون پر اسے آزمایا گیا ہے تاکہ اس ٹیکنالوجی کی افادیت کا اندازہ ہوسکے۔ تاہم یہ پورا منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہوگا۔ یعنی ہم مکھیوں کے دماغ کو سیکھتے ہوئے ڈرون اور خودکار گاڑیاں بناسکیں گے۔
- صفحہ اول
- سائنس وٹکنالوجی
- ڈرائیور کے بغیر کار اور ڈرون سازی کےلیے مکھیوں پر انٹینا نصب