”ملک کی آزادی“میں علماے کرام کی شہادت و جدوجہدہم پر احسان عظیم:مولانا ابوبکر ہادی

 الحیات نیوز سروس
کانپور:آزادی ہند میں علمائے کرام و مسلم عوام کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لئے شہری جمعیۃ علما کے زیر اہتمام وقاضی شہر حافظ وقاری عبد القدوس ہادی کی قیادت وسرپرستی میں چلائی جا رہی مہم ”جنگ آزادی ہند میں علماء و مسلم عوام کا کردار“ کا دسواں جلسہ زیر نگرانی مولانا ابوبکر ہادی قاسمی کنوینر و زیرنظامت مولانا محمد انس صاحب جامعی ئ آج بمقام مکتب دارالقرآن احاطہ کمال خان میں منعقد ہوا۔جلسہ کی صدارت مولانا مفتی مسیح الدین قاسمی نے فرمائی،جلسے کو خطاب کرتے ہوئے ”جنگ آزادی ہند میں علماء و مسلم عوام کا کردار“مہم کے کنوینرمولانا ابوبکر ہادی قاسمی نے جنگ آزادی دی میں علماء کرام کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کے موجودہ نظام تعلیم میں علمائے کرام و مسلم عوام کی جدوجہد آزادی میں کئے گئے کارناموں اور قربانیوں کو فراموش کیا جا رہا ہے، آج ہم کرکٹ کھلاڑیوں، فلم اداکاروں اور اداکاراؤں کے نام جانتے ہیں، لیکن ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں سے ناواقف ہیں اس لئے جمعیۃ علماء نے یہ پروگرام شروع کئے ہیں تاکہ نوجوان نسل کو ان کی تاریخ سے واقف کرایا جا سکے، آپ لوگوں نے ان پروگراموں میں بڑی تعداد میں شرکت کرکے کے ہمارے حوصلوں کو تقویت پہنچائی ہے، مولانا ابوبکر ہادی قاسمی نے کہا کہ موجودہ دور میں ہمیں مجاہدین آزادی کے جذبہ قربانی سے سبق لے کر  اپنے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، موجودہ دور ایسا ہی ہے جیسا کہ انگریزوں کی غلامی کے وقت تھا اگر ہمیں ملک میں نئی تاریخ رقم کر نا ہے تو  ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور تاریخ کو جاننا ہوگا،کہ انہوں نے کس طرح جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت کی انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسپین  اور ہندوستان میں دو باتیں مشترک ہیں کہ وہاں ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی اور دونوں ہی جگہ انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی، اسپین میں آج مسلمانوں نو اورشعائر اسلام کا کا نام و نشان مٹا دیا گیا لیکن یہ ہمارے علمائے کرام کی حکمت عملی تھی کے انہوں نے آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنے دین وایمان کی حفاظت کا بھی انتظام کیا اور نوجوان نسلوں کو دین منتقل کیا۔ اُس دور علمائے کرام کی اس دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں چپہ چپہ پر مساجد،مدارس، حفاظ کرام، مفتیان عظام، اذان،نماز، داڑھی، ٹوپی والے مسلمان مل جائیں گے، یہ ہمارے اوپر ہمارے علمائے کرام کا احسان عظیم ہے کہ ہمارے اندر کتنا کمزورہی کیوں نہ  ایمان اور دینی حمیت باقی ہے لیکن یاد رکھئے اگر ہم نے اس دین کو اپنی نوجوان نسل کو منتقل نہ کیا تو ہندوستان کی صورتحال بھی اسپین جیسی ہوگی اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کے لئے علمائے کرام کی دی گئی قربانیوں کو کو یاد رکھیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر ملک و قوم کی خدمت کریں، جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے  مفتی عاقب شاہد قاسمی نے کہا کہ ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں گنگا جمنی تہذیب کا خوبصورت مظہر اور بہترین مثال ہے اور یہ پھل پھول بھی رہا تھا مگر چوں کہ ملک میں شر پسند عناصر تو ہر دور اور ہر زمانے میں رہے ہیں اور ہندو مسلم میں نفرت و تشدد کو ہوا دیتے رہے ہیں لیکن گزشتہ سالوں سے یہ چیز اپنے بام عروج اور انتہا کو پہنچ رہی ہے جس کی رو سے ہم کو دوئم درجے کا شہری بنانے بلکہ ثابت کرنے کی ناکام کوششیں مسلسل جاری و ساری ہیں اور ہم کو اس ملک کی آزادی میں فراموش بلکہ آزادی ہند میں ہماری شرکت اور قربانیوں کو بھی جھٹلایا جارہا ہے اس لئے شہری جمعیۃعلماء نے شہر کے مختلف علاقوں میں 26 جنوری کی آمد سے قبل ”جنگ آزادی ہند میں علماء و مسلم عوام کا کردار“عنوان سے پروگراموں کا انعقاد جاری کر دیا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل اور قوم کو بھی ہمارے علماء اور عوام کا وہ کردار سمجھ میں اور یاداشت میں آجائے جو انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کا سودا کرکے ملک ہندوستان کی آزادی کے لئے داد شجاعت دیتے رہے ہیں۔ چاہے وہ  1686 کی اورنگزیب رحمت اللہ علیہ کی انگریزوں سے نبردآزمائی ہو یا 1757 کی نواب سراج الدولہ کی پلاسی کے میدان میں پسپائی ہو یا بکسر میں شاہ عالم ثانی سراجالدولہ اور شجاع الدولہ بلکہ میر قاسم کی مشترکہ فوج کی شکست ہو یا 1799 میں سلطان ٹیپو کی شہادت ہو یا 1831میں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہو یا پھر تھانہ بھون کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہو یا شاملی کے میدان میں بالاکوٹ کے بعد پسپائی ہو پھر 1857 کی ملک گیر بغاوتوں، تحریکوں دور ان ا کیا ون ہزار علماء کی گردنوں کو چاندنی چوک سے لال قلعہ کے لاہوری گیٹ کے درمیان مسافت مین درختوں پر علماء کو لٹکانا ہو پھر 1866 میں ملک آزادی کے رجال کار کو تیار اور آزادی وطن کا محب بنانے کے لئے دارالعلوم دیوبند کا قیام ہو، پھر تحریک ریشمی رومال ہو کانگریس کا 1884میں قیام ہو  1919 میں جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد پڑی ہو، غرض یہ کہ ان تمام تحریکات میں ہمارے علماء اور شہریوں نے جس خونی ندیوں سے ملک کی آبیاری کی ہے  وہ حقیقت ہمارے نوجوان اور قوم کے افراد جان سکیں اور برملا موقع بہ موقع اس کا اظہار بھی کرسکیں جس کے نتیجہ میں کم ہمتی اور بزدلی کا شکار نہ ہوں اور اپنی ایمانی قوت کو مزید مستحکم کریں اس کا ہی ثمرہ میں ہم  پھر سے ہمارا تابناک ماضی دہرا سکتے ہیں، مولانا مسیح الدین کی دعا سے قبل مولانا محمد انس صاحب جامعی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ آج اس طرح کے پروگراموں کے منعقد کئے جانے کی اشد ضرورت ہے،ور اسی کے ساتھ ہمیں اصلاح معاشرہ کے بھی پروگرام منعقد  ہونا چاہئے۔